Aaj Logo

شائع 28 مارچ 2023 06:42pm

امریکہ جانے کے خواہشمند 39 افراد قید خانے میں زندہ جل گئے

امریکہ کی سرحد کے قریب شمالی میکسیکو میں امیگریشن حراستی مرکز میں آگ لگنے سے درجنوں افراد ہلاک اور زخمی ہو گئے۔

آتشزدگی کا یہ واقعہ امریکہ میں امیگریشن لاک اپ میں ہونے والے اب تک کے سب سے مہلک واقعات میں سے ایک ہے، جو پیر کو ریاست ٹیکساس کے ایل پاسو شہر سے سرحد کے پار واقع سیوڈاڈ ہواریز میں ایک فیسیلیٹی میں پیش آیا۔

جائے وقوعہ سے لی گئی تصاویر میں دھوئیں سے ڈھکی ہوئی عمارت کے آس پاس مردہ خانے کی ایمبولینسز، فائر فائٹرز اور وینز کو چمکیلی چادروں کے نیچے موجود لاشوں کی قطاروں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔

میکسیکو کے نیشنل امیگریشن انسٹی ٹیوٹ نے ایک بیان میں کہا کہ آتشزدگی میں کم از کم 39 افراد ہلاک ہوئے ہیں اور 29 زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ اس فیسیلیٹی میں وسطی اور جنوبی امریکہ کے 68 بالغ مردوں کو رکھا گیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، میکسیکو کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے انکوائری شروع کردی ہے اور جائے وقوعہ پر تفتیش کار موجود ہیں۔

وینزویلا کی ایک خاتون ویناگلی امیگریشن سینٹر کے باہر کھڑی تھیں اور اپنے 27 سالہ شوہر کے بارے میں معلومات کے لیے بے چین تھیں۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ”انہیں ایمبولینس میں لے جایا گیا تھا۔ وہ (امیگریشن حکام) آپ کو کچھ نہیں بتاتے۔ خاندان کا ایک فرد مر سکتا ہے اور وہ آپ کو نہیں بتاتے کہ وہ مر گیا ہے۔“

مہاجرین کی پکڑ دھکڑ

سیوڈاڈ جواریز میں حالیہ ہفتوں میں حکام اور تارکین وطن کے درمیان تناؤ بظاہر عروج پر تھا، جہاں پناہ گاہیں ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو امریکہ میں داخل ہونے کے مواقع کے انتظار میں ہیں یا جنہوں نے وہاں پناہ کی درخواست کی ہے اور اس عمل کا انتظار کر رہے ہیں۔

وینزویلا کے پناہ گزینوں نے اکتوبر میں تیووانا میں ایک امیگریشن سینٹر کے اندر ہنگامہ آرائی کی جسے پولیس اور نیشنل گارڈ کے دستوں کو کنٹرول کرنا پڑا۔

ایک ماہ بعد، درجنوں افراد نے گوئٹے مالا کی سرحد کے قریب جنوبی شہر تاپاچولا میں میکسیکو کے سب سے بڑے حراستی مرکز میں ہنگامہ کیا۔ دونوں واقعات میں کسی کی جان نہیں گئی۔

تیس سے زیادہ تارکین وطن کی پناہ گاہوں اور دیگر وکالت کرنے والی تنظیموں نے 9 مارچ کو ایک کھلا خط شائع کیا، جس میں سیوڈاڈ ہواریز میں تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کے مجرمانہ فعل کی شکایت کی گئی تھی۔

خط میں حکام پر زیادتی اور تارکین وطن کو پکڑنے میں ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا، اور شکایت کی گئی کہ میونسپل پولیس گلیوں میں لوگوں سے بغیر کسی وجہ کے ان کی امیگریشن کی حیثیت کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

امریکی سرحدی پابندیاں

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ تحفظ کی تلاش میں امریکہ جانے کے لیے اکثر خطرناک سفر کرنے والے لوگوں کی ریکارڈ لہر کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

بہت سے لوگ جنوبی اور وسطی امریکہ میں اپنے آبائی ممالک میں گینگ وار، نظامی غربت اور دیگر سماجی اقتصادی مسائل سے فرار ہو رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ریاست امریکہ جانے کی کوشش کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی کچھ انتہائی سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن انہوں نے ہجرت کے بارے میں اپنی انتظامیہ کے نقطہ نظر کے ایک کلیدی نکتے کے طور پر ڈیٹرنس کو بھی برقرار رکھا ہے۔

فروری میں، بائیڈن نے پناہ کے متلاشیوں پر نئی پابندیوں کی تجویز پیش کی، جس سے سرحد پر لوگوں کے رش کو روکنے کی امید تھی۔

نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ سرحد پر پہنچ کر امریکہ میں داخل ہوں گے وہ اب سیاسی پناہ کے اہل نہیں ہوں گے۔ اس کے بجائے، وہ امریکی سرحد تک پہنچنے کے لیے جن ممالک سے گزرتے ہیں، ان میں سے کسی ایک میں پناہ کے لیے پہلے درخواست دیں، یا امریکی حکومت کی ایپلی کیشن کے ذریعے آن لائن درخواست دیں۔

ہجرت کے حقوق کے گروپوں نے اس پالیسی کو مسترد کردیا ہے۔

پیر کے روز، اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرے۔

ایجنسی نے کہا کہ ”یو این ایچ سی آر کو خاص طور پر تشویش ہے کہ اس سے ریفاؤلمنٹ کے معاملات پیدا ہوں گے، لوگوں کی جبری واپسی ایسے حالات میں ہو گی جہاں ان کی زندگیوں اور تحفظ کو خطرہ ہو گا جو کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے۔“

ہر ماہ تقریباً دو لاکھ لوگ میکسیکو سے امریکہ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014 سے لے کر اب تک تقریباً 7,661 افراد امریکہ جاتے ہوئے ہلاک یا لاپتہ ہو چکے ہیں، جب کہ 988 افراد حادثات میں یا غیر انسانی حالات میں سفر کے دوران ہلاک ہوئے۔

Read Comments