Aaj Logo

اپ ڈیٹ 06 اپريل 2023 04:37pm

سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد منظور

حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی، جو منظور بھی ہوگئی۔

اسپیکرراجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں حکومت نے انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرار داد پیش کی، اور قرار داد اتفاق رائے سے منظور بھی کرلی گئی۔

قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرارداد بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کا فیصلہ مسترد کرتے ہیں، وزیر اعظم اور کابینہ عدالتی حکم پرعملدرآمد نہ کرے، سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ فیصلے پرنظرثانی کرے۔

قرارداد کا متن

قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ یہ ایوان از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے 4 جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کی تائید کرتا ہے۔ ایوان نے اس پر عمل درآمد اور اعلی عدلیہ سے سیاسی وانتظامی امور میں بے جا مداخلت سے گریز کا مطالبہ کیا تھا۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اکثر حلقوں نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا لیکن اِسے منظور نہیں کیا گیا، نہ ہی ایک کے سوا دیگر سیاسی جماعتوں کا مؤقف سنا گیا۔

متن میں ہے کہ پارلیمنٹ کی اس واضح قرارداد اور سپریم کورٹ کے چار جج صاحبان کے اکثریتی فیصلے کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے تین رکنی مخصوص بینچ نے اقلیتی رائے مسلط کردی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی اپنی روایات، نظریے اور طریقہ کار کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ اکثریت پر اقلیت کو مسلط کردیا گیا ہے، تین رکنی اقلیتی بینچ کے فیصلے کو پارلیمان مسترد کرتی ہے اور آئین وقانون کے مطابق اکثریتی بینچ کے فیصلے کو نافذالعمل قرار دیتی ہے۔

قرار داد میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اجلاس آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر مقدمات کو فل کورٹ میٹنگ کے فیصلوں تک سماعت کے لئے مقرر نہ کرنے کے عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے۔

قرارداد کے متن میں ہے کہ ایوان ایگزیکٹو سرکلر کے ذریعے اس پر عملدرآمد روکنے کے اقدام کوگہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔ عدالتی فیصلے کو عجلت میں ایک اورمتنازعہ بینچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر کرنے اورچند منٹوں میں اس پر فوری فیصلے پر بھی شدید تحفظات کا اظہارکرتا ہے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ ایسا عمل سپریم کورٹ کی روایات اور نظائر کے صریحاً خلاف ہے، لہذا یہ ناقابل قبول ہے، ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

قرارداد میں ہے کہ حالیہ اقلیتی فیصلہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے، اس فیصلے نے وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کردی گئی ہے، ایوان ملک بھر میں ایک ہی وقت پرعام انتخابات کرانے کے انعقاد کو ہی تمام مسائل کاحل سمجھتا ہے، اور تین رکنی بینچ کا اقلیتی فیصلہ مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم اور کابینہ کوپابند کرتا ہے کہ اِس خلاف آئین و قانون فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔

قرارداد کے متن میں بتایا گیا کہ ایوان دستور کے آرٹیکل 63 اے کی غلط تشریح اور اسے عدالت عظمی کے فیصلے کے ذریعے ازسر نو تحریر کئے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس کل گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

وزیراعظم شہبازشریف

وزیراعظم شہبازشریف بھی قومی اسمبلی اجلاس میں شریک ہوئے، تاہم اجلاس ملتوی ہونے کے باعث وہ خطاب نہیں کرسکے۔

محسن لغاری کی قرارداد کی مخالفت

پی ٹی آئی کے رکن محسن لغاری نے نے قرارداد کی مخالفت کی۔ بعدازاں انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ایوان میں دو ارکان نے قرارداد کی مخالفت کی، قرارداد کی مخالفت میں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، ایوان میں کچھ تو جمہوریت رہنے دیں، ہمیں کم ازکم جمہوریت کی اداکاری توکرنے دیں۔

محسن لغاری نے کہا کہ ایوان کو ایوان رہنے دیں،اس کوجلسہ گاہ نہیں بنائیں، عمران خان ایوان میں نہیں، مگرسب کے اعصاب پر چھائے ہوئے ہیں۔

رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ عدلیہ کےمعاملات میں مداخلت کرنا درست نہیں، کیا ہم عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان جنگ چاہ رہے ہیں، عدالتی معاملات میں مداخلت کرنی ہےتوآئین میں ترمیم کریں، آئین میں لکھیں کہ عدالتی معاملات پارلیمنٹ سےچلائیں گے، ہم آئین کے تابع ہیں،آئین کو نہیں توڑ سکتے۔

محسن لغاری نے مزید کہا کہ ہمیں جوش کے بجائے ہوش کی ضرورت ہے، یہ راستہ ہمیں تباہی کی طرف لے جائے گا، پارلیمنٹ سےسپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، یہ قرارداد بھی پارلیمانی معیار کےمطابق نہیں ہے۔

Read Comments