Aaj Logo

شائع 05 جون 2023 01:24pm

افغانستان: دو پرائمری اسکولوں میں تقریباً 80 بچیوں کو زہر دینے کے واقعات

شمالی افغانستان میں دو پرائمری اسکولوں کی تقریباً 80 افغان بچیوں کو اسکول میں زہر دئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

افغان صوبے سر پول میں لڑکیوں کے ایک اسکول کو زہر کا نشانہ بنانے کا یہ واقعہ جنگ زدہ ملک میں لڑکیوں کی تعلیم کی سخت جانچ پڑتال کے بعد سامنے آیا ہے۔

سر پول کے پولیس ترجمان دین محمد نظری نے کہا۔ کہ ’ضلع سانچارک میں کچھ نامعلوم افراد لڑکیوں کے اسکول میں داخل ہوئے اور کلاسوں کو زہر آلود کر دیا، جب لڑکیاں کلاسوں میں آئیں تو وہ اس زہر کا شکار ہوگئیں۔‘

تاہم، انہوں نے وضاحت نہیں کی کہ کوئی مادہ استعمال کیا گیا تھا یا اس واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔

دین محمد نظری نے کہا کہ لڑکیوں کو ہسپتال لے جایا گیا، وہ ”بہتر حالت میں“ ہیں۔ لیکن کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب تعلیمی حکام نے کہا کہ زہر دینے کا منصوبہ بنانے والے شخص کی ذاتی رنجش تھی، لیکن انہوں نے مزید تفصیل نہیں بتائی۔

صوبائی محکمہ تعلیم کے سربراہ محمد رحمانی نے بتایا کہ ہفتہ اور اتوار کے دوران صوبہ سرپل کے ضلع سنگچارک میں تقریباً 80 طالبات کو زہر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نسوان کبود آب اسکول میں 60 اور نسوان فیض آباد اسکول میں 17 طلباء کو زہر دیا گیا۔

انہوں نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ”دونوں پرائمری اسکول ایک دوسرے کے قریب ہیں اور یکے بعد دیگرے انہیں نشانہ بنایا گیا۔“

طالبات کو زہر دئیے جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، بلکہ پڑوسی ملک ایران میں نومبر سے لے کر اب تک لڑکیوں کو اسکولوں میں زہر دینے کے واقعات میں ایک اندازے کے مطابق 13,000 طالبات بیمار ہوچکی ہیں۔

افغانستان کی سابقہ غیر ملکی حمایت یافتہ حکومت کے دوران، لڑکیوں کے اسکولوں پر مشتبہ گیس حملوں سمیت زہر کے کئی حملے ہوئے تھے۔

طالبان انتظامیہ نے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے زیادہ تر طالبات کو ہائی اسکول اور یونیورسٹی جانے سے روک دیا ہے، جس کی بین الاقوامی حکومتوں اور بہت سے افغانوں کی طرف سے مذمت کی گئی ہے۔

طالبان حکام نے لڑکیوں کے لیے پرائمری اسکول 12 سال کی عمر تک کھلے رکھے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ بعض شرائط کے تحت خواتین کی تعلیم کے حق میں ہیں۔

Read Comments