Aaj Logo

شائع 27 جون 2023 09:49am

امریکا نے پاکستان کا احتجاج مسترد کردیا

امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر اعظم مودی کی جانب پاکستانی سرزمین کو عسکریت پسندوں کے اڈے کے طور پر استعمال کرنے کے بیان پر کیا گیا پاکستان کا احتجاج امریکا نے مسترد کردیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے معمول کی پریس بریفنگ میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دیے۔

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکا، ملکی اور علاقائی سطح پر دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکا کے موقعے پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانےکے لیے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا کہ اس کے زیرِ کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔ اور پاکستانی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے بارے میں امریکا اور بھارت کا مشترکہ بیان بے بنیاد اور یک طرفہ ہے۔ آپ اس کا جواب دینا چاہیں گے؟

جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا، ’ہم پورے خطے میں دہشت گردی سے درپیش مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم پر قائم ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام نے دہشت گرد حملوں کے باعث برسوں مشکلات برداشت کی ہیں۔

میتھیو ملر نے مزید کہا کہ، ’ہم تسلیم کرتے ہیں پاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خاتمے اور اپنی نیشنل ایکشن ٹاسک فورس کے ایکشن پلان کو مکمل کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں، جن میں ساجد میر کو گرفتار کرنا اور اسے سزا سنانا بھی شامل ہے۔‘

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا، ’ہم مسلسل اس بات کی اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور متعدد انتہائی مضبوط دہشت گرد تنظیموں سمیت تمام دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے لیے اقدامات جاری رکھے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر اعظم مودی کا امریکا کا اسٹیٹ وزٹ مکمل ہونے اور صدر بائیڈن سے ان کی ملاقات کے بعد، وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس میں صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی نے سرحد پار دہشت گردی اور دہشت گرد پراکسیز کے استعمال کی مذمت کی تھی اور پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانے کےلیے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا کہ اس کے زیرِ کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گردحملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔

مشترکہ بیان میں صدر بائیڈن اور وزیر اعظم مودی نے القاعدہ، داعش، لشکرِ طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت اقوامِ متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے مطالبے کا اعادہ بھی کیا تھا۔

اس کے جواب میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ، ’ہم اسے غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن سمجھتے ہیں۔ یہ حوالہ سفارتی آداب کے برعکس اور سیاسی نوعیت کا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ امریکا کے ساتھ، انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں پاکستان کے گہرے تعاون کے باوجود اسے مشترکہ بیان میں شامل کیا گیا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ، ’پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایسی قربانیاں دی ہیں جو کسی نے بھی نہیں دیں۔ اس جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے، ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے ایک مثال قائم کردی ہے۔ اور اس جنگ میں پاکستان کے لوگ اصل ہیروز ہیں۔‘

میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ جیسا کہ مارچ 2023 کے سی ٹی مزاکرات میں طے پایا، ’ہم پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ یہ مسئلہ باقاعدگی سے اٹھاتے رہیں گے اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر برقرار رکھنے کے لیے امریکا، بھارت اور پاکستان کی تعریف کرتا ہے۔

ایک اور سوال کہ امریکا اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے میں، بھارت میں مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا، ’ہم بھارتی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں انسانی حقوق پر تشویش کا معاملہ باقاعدگی سے اٹھاتے ہیں اور خود صدر بائیڈن نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں اس پر بات کی۔‘

Read Comments