ٹرانسجینڈرایکٹ : خواتین کو آواز اٹھانے کا پیغام دینے والی ماریہ بی پھرتنقید کی زدمیں
خواجہ سراؤں کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد متعلقہ ’ٹرانسجینڈر ایکٹ‘ کے حق میں فریقین اور مخالفت کرنے والوں میں لفظی جنگ چھڑ گئی ہے۔ ماضی میں اس ایکٹ کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے والی فیشنن ڈیزائنر ماریہ بی نے ایک بار پھر اسے حقوق کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
مئی 2023 میں وفاقی شرعی عدالتنے ٹرانس جینڈر (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ 2018 کو جزوی طور پر کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سیکشن 2 (ایف) (صنفی شناخت کی تعریف)، سیکشن 2 (این) (3) (ٹرانس جینڈرپرسن کی تعریف)، سیکشن 3 (ٹرانس جینڈرپرسن کی شناخت کو تسلیم کرنا) اور سیکشن 7 (وراثت کا حق) اسلام کے احکامات کے خلاف ہیں۔
مخالفین نے الزام عائد کیا ہے کہ اس قانون میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے نام پر ہم جنس پرستوں کے حقوق کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کی صلاحیت ہے۔ جبکہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کسی شخص کی حیاتیاتی جنس کے برعکس خود ساختہ شناخت پر مبنی صنفی شناخت کے لیے ’ٹرانس جینڈر‘ کی اصطلاح کا استعمال اسلامی احکامات کے منافی ہے۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر معروف شخصیات کے درمیان ’آن لائن جھگڑے‘ کو مزید ہوا ملی ہے۔
اس ایکٹ کی بھرپور مخالفت کرنے والی ماریہ بی نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے حق میں اپنا بیان دیتے ہوئے ان درخواست گزاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے یہ فیصلہ واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ٹویٹر پر جاری ویڈیو بیان میں ماریہ بی نے کچھ ”لبرلز“ پر فیصلے کے حامیوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اپیل دائر کرنا ہمارے مذہبی عقائد، خاندانی نظام اور ہمارے بچوں کے مستقبل پر حملے کے مترادف ہے۔
ماریہ بی کے مطابق وہ خود اور ٹرانس جینڈر ایکٹ کیخلاف فیڈرل شریعہ کورٹ کے فیصلے کے دیگر حامی بھی ایک فریق بن کر مقدمہ لڑیں گے۔
انہوں نے خواتین سے کہا کہ وہ ان کی حمایت میں آگے آئیں کیونکہ یہ ان کے حقوق پر بھی حملہ ہے۔
اس ویڈیو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ماروی سرمد نے دعویٰ کیا کہ ماریہ بی ’مذہب بیچ کر‘ اپنے مرتے ہوئے کاروبار کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ کچھ سائنسی مضامین شیئر کریں گی جوانہیں جنسی اور صنفی شناخت کے بارے میں تعلیم دیں گے۔
اس کے بعد ٹویٹس کی ایک سیریز میں ماروی سرمد نے ایک مضمون شیئر کیا جس کے مطابق صنف اور جنس کے درمیان شدید تضاد ہے. مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنس حیاتیاتی ہے لیکن صنف ایک ”سماجی تعمیر“ ہے اور ہر جگہ اور معاشرے میں یہ مختلف ہوتی ہے۔
صحافی اور ریڈیو پاکستان کے سابق ڈی جی مرتضیٰ سولنگی نے بھی ماریہ بی کے ویڈیو بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
انہوں نے سوال کیا کہ اگر ماریہ بی کے مطابق خدا نے اس دنیا میں صرف مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا ہے تو ٹرانس جینڈر کو کس نے پیدا کیا ہے؟
انہوں نے سوالات اٹھایا کہ ،’کیا آپ نابیناہیں، کیا آپ نہیں دیکھ سکتے کہ وہ موجود ہیں؟ کیا ان کے پاس انسان کی حیثیت سے حقوق نہیں ہیں؟‘۔
ایکٹ کے متنازع تصورکیے جانے والے نُکات
اس قانون میں ٹرانس جینڈرکی تعریف کرتے ہوئے انہیں 3 اقسام انٹرسیکس(پیدائشی مخنث افراد )، خنثہ (درمیانی جنس یا پیدائشی جنسی ابہام رکھنے والے / جنسی اعضاء میں طبی ترامیم کروانے والے ) اورٹرانس جینڈر ( مرد یا عورت) میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ٹرانس جینڈرکواپنی جنسی / صنفی شناخت اُس شناخت کے مُطابق نادرا یا دیگرحکومتی اداروں میں درج کروانے کا حق ہوگا جو وہ خود کوتصورکرتا ہے ۔ ہرٹرانس جینڈر 18 سال کی عُمرکا ہونے پرذاتی تصورکی ہوئی شناخت کے مُطابق شناختی کارڈ ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس بنواسکتا ہے اورجس کا شناختی کارڈ پہلے ہی بن چکا ہے وہ بھی ذاتی تصورکی ہوئی شناخت (he or she ) کو اپنے شناختی کارڈ ، پاسپورٹ یا ڈرائیونگ لائسنس پر درج کروا سکتا ہے ۔
وراثتی جائیداد یا وراثت سے بے دخلی یا امتیازی سلوک نہیں روا رکھاجاسکتا،جو شناخت آئی ڈی کارڈ پردرج کروائیں گے اسی کے مطابق وراثتی حق دیاجائے گا ۔ جو اپنی مردانہ یا زنانہ شناخت سے متعلق ابہام کا شِکارہیں ان پردرج ذیل اطلاق ہوگا ۔
اٹھارہ سال کی عمرہونے پرجِن کا اندراج بطورمرد ہے/ ہوگا انہیں بطورمرد جبکہ بطورعورت اندراج پربطورعورت ہی وراثتی حق ملے گا / دِیا جائے گا لیکن پھر بھی اگرکسی کو صنفی ابہام ہوا تو دوالگ الگ اشخاص یعنی مرد اورعورت کے وراثتی حقوق کا اوسط حصہ دیا جائے گا، نابالغ ( 18 سال سے کم عمر)ہونے کی صُورت میں میڈیکل آفیسرکی رائے کے مُطابق طے ہوگا ۔
اس کے علاوہ ایکٹ کے تحت متعلقہ حکومتوں پرٹرانس جینڈر کمیونٹی کی فلاح وبہبود کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں، اسپتالوں، عوامی مقامات، کام کی جگہوں اوروراثت کے حصول میں حقوق کو قانونی تحفظ حاصل ہے،یہ قانون امتیازی سلوک سے منع کرتے ہوئے ٹرانس جینڈرزکو ووٹ دینے یا کسی عہدے کے لیے انتخاب کا حق دینے،حکومت کوجیلوں میں مخصوص جگہوں اورپروٹیکشن سینٹرز کے قیام کا پابند بناتا ہے۔ ٹرانس جینڈرز کو بھیک مانگنے پررکھنے یا مجبُورکرنے والے کو6 ماہ تک کی قید یا 50 ہزارروپے جُرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں ۔
آئین میں دیے جانے والے حقوق سے محروم رکھے جانے پرٹرانس جینڈرکو وفاقی محتسب ، نیشنل کمیشن فارسٹیس اور ویمن یا نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کو درخواست دینے کا حق حاصل ہوگا ۔