Aaj Logo

شائع 28 اگست 2023 07:00pm

انڈونیشیا کے اسکول میں ٹھیک سے حجاب نہ پہننے پر طالبات کے سر مونڈ دیے گئے

انڈونیشیا کے مرکزی جزیرے پر واقع ایک اسکول میں درجن سے زائد لڑکیوں کے سر غلط طریقے سے حکاب کرنے پر منڈوا دیے گئے۔

سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا کے قدامت پسند حصوں میں برسوں سے مسلم اور غیر مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

انڈونیشیا کے مشرقی شہر جاوا کے قصبے لامونگن میں سرکاری جونیئر ہائی اسکول کے ایک نامعلوم استاد نے گزشتہ بدھ کو 14 مسلم لڑکیوں کے سر جزوی طور پر منڈوا دیے۔

اسکول کے ہیڈ ماسٹر ہارٹو کا کہنا ہے کہ اسکول نے معافی مانگ لی ہے اور ٹیچر کو معطل کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکول کی طالبات اپنے اسکارف کے نیچے اندرونی ٹوپیاں نہیں پہنتی تھیں، جس سے ان کی جھالر نظر آتی ہے۔

ہارٹو نے اے ایف پی کو بتایا، ’خواتین طالبات پر حجاب پہننے کی کوئی پابند نہیں ہے، لیکن انہیں سلیقے سے دکھانے کیلئے اندرونی ٹوپیاں پہننے کا مشورہ دیا گیا ہے۔‘

ہارٹو نے کہا کہ ’ہم نے والدین سے معافی مانگی اور ثالثی کے بعد، ہم ایک مشترکہ فہم پر پہنچ گئے۔‘

مزید پڑھیں: ’طالبان نے اسکالر شپ پانے والی طالبات کو دبئی جانے سے روک دیا‘

انہوں نے کہا کہ اسکول نے وعدہ کیا ہے کہ وہ طلباء کو نفسیاتی مدد فراہم کرے گا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے مذکورہ استاد کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ انڈونیشیا کے محقق آندریاس ہارسونو نے ایک بیان میں کہا، ’لامونگن کیس شاید انڈونیشیا میں اب تک کا سب سے زیادہ خوفناک کیس ہے۔‘

اس گروپ نے 2021 کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ کچھ طالبات کے حجاب صحیح طریقے سے نہ پہننے پر کاٹ دیے گئے تھے، جب کہ دیگر کو حجاب نہ پہننے کی وجہ سے جرمانے یا بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔

انڈونیشیا چھ بڑے مذاہب کو تسلیم کرتا ہے لیکن مسلم اکثریتی ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم برداشت کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔

ہیڈ اسکارف کا مسئلہ 2021 میں اس وقت سرخیوں میں آیا جب مغربی سماٹرا میں ایک عیسائی طالبہ پر حجاب پہننے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

Read Comments