Aaj Logo

اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2023 11:08pm

افغان وزیر خارجہ کی یقین دہانی پر طورخم بارڈر دوبارہ کھلنے کا امکان

افغان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی طرف سے فراہم کردہ یقین دہانیوں کے بعد طورخم بارڈر کراسنگ دوبارہ کھولے جانے کا امکان ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کے سبب طورخم سرحد ہفتہ بھر سے بند ہے۔ افغان حکام سرحد کھلوانے کیلئے مسلسل کوشاں ہیں۔

افغان فورسز سرحدی گزرگاہ کے قریب چیک پوسٹ قائم کرنا چاہتے تھے جس پر پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان مسلح جھڑپ ہوئی، واقعے میں افغان فورسز کے دو اہلکار مارے گئے جبکہ ایک ایف سی اہلکار زخمی ہوا تھا۔

پاکستان نے کہا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی سر زمین پر’غیر قانونی تعمیرات’ کی کوشش اورسرحد پار سے اندھا دھند فائرنگ کے واقعات کے بعد طورخم کے مقام پر سرحد بند کی گئی ہے۔

طالبان انتظامیہ کی وزارت خارجہ نے اختتام ہفتہ پر سرحد کی بندش کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے افغان فوجیوں پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ سرحد کے قریب اپنی ایک پرانی سکیورٹی چوکی کی مرمت کر رہے تھے۔

افغان وزیرخارجہ نے پاکستانی ناظم الامور کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ’افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔‘

انہوں نے پاکستان کے ناظم الامور سے ملاقات میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر بارڈر کھولنے کی درخواست کی ہے۔

دوسری جانب پاکستان میں افغان ناظم الامور نے وزیرداخلہ سرفرازبگٹی سے ملاقات کی طورخم بارڈر کھولنے پر اصرار کیا۔

وزیرداخلہ نے افغان ناظم الامور کو یقین دہانی کرائی ہے کہ طورخم بارڈر جلد کھول دیں گے، جس کے بعد طورخم بارڈر کراسنگ کل سے دوبارہ کھلنے کا قوی امکان ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پیر گیارہ ستمبر کو اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ واقعہ (طورخم کی بندش) طالبان کے زیر قیادت افغانوں کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر ایک ڈھانچے کی تعمیر سے جڑا ہوا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’چھ ستمبر کو جب افغان فوجیوں کو اس طرح کے غیر قانونی اسٹرکچر کی تعمیر سے روکا گیا تو انہوں نے اس مسئلے کے پرامن حل کی بجائے اندھا دھند فائرنگ کا سہارا لیا۔ پاکستانی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا، جس سے طورخم بارڈر ٹرمینل کے ڈھانچے کو نقصان پہنچا اور پاکستانی اور افغان شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا۔‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان چھبیس سو کلومیٹر سرحد سے جڑے تنازعات کئی دہائیوں سے ان دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تنازعے کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستانی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملوں پر اپنی دیرینہ تشویش کا اعادہ کیا اور طالبان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے دیگر اقوام کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں۔

طالبان انتظامیہ عسکریت پسندی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت دینے سے انکار کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سلامتی پاکستانی حکومت کا اندرونی معاملہ ہے۔

Read Comments