Aaj Logo

شائع 27 ستمبر 2023 06:50pm

’سپریم کورٹ اگر انفارمیشن کمیشن کے ماتحت ہے تو عدلیہ آزاد کیسے ہوگئی؟‘

سپریم کورٹ نے عملے کی تفصیلات فراہم سے متعلق کیس میں فریقین سے تحریری دلائل طلب کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سپریم کورٹ اگر انفارمیشن کمیشن کے ماتحت ہے توعدلیہ آزاد کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق عدلیہ کسی کے ماتحت نہیں ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ عملے کی تفصیلات فراہم سے متعلق شہری کی درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس کے استفسار پر درخوست گزار نے بتایاکہ ملکی اداروں میں شفافیت کے معاملے پر کام کرہے ہیں اس لیے معلومات درکار ہیں۔

اٹارنی جنرل نے بتایاکہ رجسٹرار آفس نے کمیشن کو آرڈر واپس لینے کا کہا، مؤقف تھا کہ کمیشن سپریم کورٹ سے متعلق آرڈر نہیں دے سکتا، ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ آچکا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ ناقابل تصور ہے کہ سپریم کورٹ خود درخواست گزاربن کر کسی عدالت جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل کمیشن سپریم کورٹ ججز کی پرائیویٹ فیملی معلومات پبلک کرنے کا کہہ دے تو کیا ہوگا؟ تو کیا پھر وہ آرڈر بس نظرانداز کردیں گے یا چیلنج ہوگا؟۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ وہ آرڈر ججز کی فیملی چیلنج کریں گی یا سپریم کورٹ؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے پوچھنے پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون میں ٹربیونلز اور دیگرعدالتوں کا ذکر ہے لیکن سپریم کورٹ کا نہیں اور سپریم کورٹ کے خلاف کوئی ہائیکورٹ رٹ جاری نہیں کرسکتی اور نہ سپریم کورٹ کسی ہائیکورٹ سے رجوع بھی نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں 2 خواجہ سرا بھی ملازم ہیں وہ خود کو ظاہر نہ کرنا چاہیں تو کیا ہوگا؟۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صرف اتنی معلومات دی جاسکتی ہیں کہ 2 خواجہ سرا بھی ملازم ہیں۔

سپریم کورٹ نے معلومات تک رسائی کے معاملے پر سپریم کورٹ کی معلومات کے حصول سے متعلق کیس پرفیصلہ محفوظ کرلیا۔

Read Comments