اپ ڈیٹ 08 نومبر 2023 07:32am

20 الیکشن ہارنے کے باوجود ’تیتر سنگھ‘ ایک بار پھر میدان میں

راجستھان کے 78 سالہ تیتر سنگھ پچھلے 50 سالوں میں 20 الیکشن ہارنے کے باوجود 25 نومبر کو ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں آزاد امیدوار کے طورپر ایک بار پھر اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔

بھارت کے پسماندہ دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے دہاڑی دار مزدور تیتر سنگھ نے پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی میں اس وقت الیکشن لڑا تھا جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ ان جیسے لوگوں کو سرکاری زمین کے الاٹمنٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔

انہوں نے حکومت کی طرف سے بے زمین اور غریب مزدوروں کو زمین الاٹ کرنے کے مطالبے پر الیکشن لڑنا شروع کیا اور ہر الیکشن میں اپنی یہ مانگ دہراتے رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچاس برس گزر جانے کے باوجود ان کا یہ مطالبہ آج تک پورا نہیں ہو سکا۔

کرن پور اسمبلی حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے آئندہ الیکشن میں امیدوار تیتر سنگھ کہتے ہیں، ’میں آخر الیکشن کیوں نہ لڑوں؟ یہ الیکشن ہمارے حقوق کے لیے جنگ ہے۔ یہ ہمارے حقوق کے حصول کا ہتھیار ہے، جس کی دھار وقت گزرنے کے باوجود کند نہیں ہوئی ہے۔‘

تیتر سنگھ اب تک پنچایت سے لے کر پارلیمان تک ہر انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور انہیں ہر الیکشن میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور اپنی ضمانت گنوانی پڑی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ الیکشن میں حصہ لینے کا ان کا مقصد مقبولیت حاصل کرنا یا ریکارڈ بنانا نہیں ہے۔

بھارت میں ہر اس شہری کو مقامی بلدیہ سے لے کر صدر جمہوریہ کے عہدے تک کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، جو مقررہ شرائط پوری کرتا ہو۔

یہی وجہ ہے کہ پنچایت سے لے کر صدر جمہوریہ تک کے انتخابات میں ڈھیر سارے امیدوار میدان میں نظر آتے ہیں، حالانکہ ان میں سے بیشتر محض شہرت کے لیے ایسا کرتے ہیں جب کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں بھی انتخابی فائدے کے لیے ڈمی امیدوار کھڑے کرتی ہیں۔

الیکشن میں مسلسل شکست کے باوجود ڈٹے رہنے والے امیدواروں کے لیے بھارت میں ”دھرتی پکڑ“ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔

اس نام سے ایک مزاحیہ ٹیلی ویژن سیریل بھی بنا تھا۔

کم از کم تین دھرتی پکڑ بھارت میں کافی مشہور ہوئے ہیں۔ جنہوں نے وزیر اعظم سے لے کر ممکنہ صدر جمہوریہ تک کے خلاف مقابلہ کیا۔

ان میں کاکا جوگندرسنگھ، موہن لال اور ناگرمل بجوریا شامل ہیں۔

حالانکہ 350 سے زائد شکست کا عالمی ریکارڈ کاکا جوگندر سنگھ کے نام ہے، جو تقسیم کے بعد پاکستان سے بھارت آئے تھے، اسی طرح ناگرمل بجوریا کا تمام 282 الیکشن ہارنے کا ریکارڈ ہے۔ بہار کے بھاگلپور میں رہنے والے بجوریا بھی تقسیم کے بعد پاکستان کے لاہور سے آئے تھے۔

”دھرتی پکڑ“ کا سب سے پہلا خطاب 1918 میں پاکستان کے گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے کاکا جوگندر سنگھ کو ملا، جنہوں نے 350 سے زائد الیکشن میں حصہ لیا اور ہر ایک میں شکست سے دوچار ہوئے، لیکن اس کے باوجود 1998 میں انتقال سے قبل تک ہار نہیں مانی۔

بریلی کے رہنے والے جوگندر سنگھ نے کشمیر سے کنیا کماری تک 14 ریاستوں سے آزاد امیدوار کے طورپر انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ ہر مرتبہ اپنی ضمانت گنوانے کے بعد کہا کرتے تھے کہ ’یہ قومی خزانے میں ان کی طرف سے معمولی عطیہ ہے۔‘

ان کا وعدہ تھا کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد تمام غیر ملکی قرضے واپس کردیں گے، اسکولوں میں کردار سازی کو فروغ دیں گے اور بھارتی معیشت کو بلندیوں تک پہنچانے کے ’بارٹر‘ سسٹم واپس لائیں گے۔

کاکا جوگندر سنگھ کی سب سے بڑی کامیابی 1991 کا صدارتی الیکشن تھا جب وہ 1135 ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر آئے۔

ناگرمل بجوریا کا تعلق بھی پاکستان کے لاہور سے ہے۔ وہ تقسیم ملک کے بعد بہار کے بھاگلپور ضلع میں آکر بس گئے۔

انہوں نے 282 الیکشن میں حصہ لیا اور ہر ایک میں شکست سے دوچار ہوئے۔

تاہم، بجوریا کا کہنا تھا کہ، ’میں جمہوریت میں ایک عام آدمی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اسے ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ ہار جیت کی میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘

تیسرے مشہور ”دھرتی پکڑ“ موہن لال کا تعلق بھوپال سے ہے۔

تمل ناڈو کے سالیم ضلعے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کے پدما راجن بھی 200 سے زائد انتخابات میں شکست کا ریکارڈ رکھنے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے 2019 میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔

وہ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی، من موہن سنگھ، پی وی نرسمہا راؤ، سابق صدور پرنب مکھرجی، پرتبھا پاٹل، کے آر نارائنن اور اے پی جے عبدالکلام کے علاوہ کئی اہم ریاستی رہنماوں کے خلاف بھی الیکشن لڑ چکے ہیں۔

پدما راجن ازارہِ مزاح کہتے ہیں، ’اگر میں الیکشن جیت گیا تو میرا تو ہارٹ فیل ہو جائے گا۔‘

Read Comments