کرپشن کا الزام : مستعفی ہونیوالے سپریم کورٹ کے جج کیخلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟
سپریم جوڈیشل کونسل میں بدعنوانی کے الزامات کی کارروائی کے دوران سپریم کورٹ کے جج مظاہر علی اکبر نقوی مستعفی ہوگئے تھے جبکہ اس بعد عدالت عظمیٰ کے جسٹس اعجاز الاحسن بھی مستعفی ہوگئے تھے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے کسی جج پر کرپشن کا الزام ہو اور اس دوران وہ مستعفی ہو جائے تو کیا اس جج کیخلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟
بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے جج کے مستعفی ہونے کے بعد کیا اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے؟ اور اگر مزید کارروائی کی جا سکتی ہے تو اس کا فورم کیا ہو گا؟
اس حوالے سے ماہر قانون بیرسٹر صلاح الدین نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کسی بھی جج کے خلاف کوئی فوجداری کیس بنتا ہے تو اُس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے اور انھیں کسی قسم کا قانونی یا آئینی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجے گئے ریفرنس پر کارروائی سے پہلے مستعفی ہو جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ آرٹیکل 209 کے تحت سپریم کورٹ صرف حاضر سروس جج کے خلاف ہی کارروائی عمل میں لا سکتی ہے۔
عافیہ شہر بانو کی درخواست کا فیصلہ کسطرح اثر انداز ہوسکتا ہے ؟
بیرسٹر صلاح الدین کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے عافیہ شہر بانو کی درخواست پر فیصلہ دیا تھا کہ جج کے مستعفی یا مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد اس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی نہیں کی جاسکتی ہے۔
واضح رہے کہ عافیہ شہر بانو نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کی تھی تاہم بطور چیف جسٹس انھوں نے اس شکایت کو نہیں سنا تھا۔
تاہم ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور موقف اپنایا کہ سابق چیف جسٹس سے تمام مراعات واپس لی جائیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا جو جج ریٹائرڈ یا مستعفی ہو جائے تو ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
وفاقی حکومت کا 2 رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مستعفی ہونے والے جج جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف جمعے کے روز سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے دوران بتایا کہ وفاقی حکومت اس دو رکنی بینچ (جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر) کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
بیرسٹر صلاح الدین کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں یا کسی عدالتی فیصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر کوئی جج الزامات کا سامنے کرنے سے پہلے مستعفی ہو جائے تو اس سے وہ تمام مراعات اور پینشن بھی واپس لے لی جائے گی جب تک متعقلہ فورم انھیں ان الزامات سے بری نہیں کر دیتا۔
2 ججز کے خلاف کارروائی
خیال رہے کہ ملکی تاریخ میں دو ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی کرکے انھیں عہدوں سے برطرف کیا ، جس کے بعد وہ ریٹائرمنٹ کی مراعات سے بھی محروم ہو گئے تھے۔
ان ججز میں ایک لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت علی اور دوسرے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور عدالت نے دوران سماعت یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ان کی پینشن اور دیگر مراعات بحال کر دے گی۔
جسٹس حمید الرحمان اپنے عہدے سے کیوں مستعفی ہوئے تھے؟
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس حمید الرحمان، جو ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں، ان پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھرتیوں میں اثر انداز ہونے کا الزام تھا تاہم یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پہنچنے سے پہلے ہی انھوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھرتیوں کے معاملے پر ایک آڈٹ پیرے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوئیں جس کی بنیاد پر ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر ہوئی اور سنہ 2016 میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے اس درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی ان بھرتیوں میں بے ضابطگیاں پائی گئیں۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد جسٹس حمید الرحمان اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
واضح رہے کہ مستعفی یا ریٹائرڈ ہونے والے سپریم کورٹ کے جج کی پینشن وہی ہوتی ہے جو ریٹائرمنٹ کے وقت اسے تنخواہ مل رہی ہوتی ہے اور اس وقت سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 15 لاکھ سے زیادہ ہے۔ پیٹرول، بجلی کے فری یونٹس ، ٹیلی فون کا بل اور ڈرائیور اور خانسامے کی تنخواہ کی ادائیگی کی صورت میں مختلف مراعات اس کے علاوہ ہیں۔