Aaj Logo

شائع 22 جنوری 2024 02:17pm

رام مندر سے بی جے پی نے بھرپور سیاسی فوائد بٹور لیے

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے اقتدار کو مضبوط تر بنانے اور طول دینے کے لیے ایودھیا کے رام مندر سے بھرپور سیاسی و انتخابی فوائد بٹورے ہیں۔ بی جے پی کے منصوبہ سازوں نے رام مندر کو صرف ملک گیر سطح کا نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح کا ایونٹ بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ جامع منصوبہ بندی کے ذریعے ملک میں سیکیولر ازم کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔

ایک طرف ملک بھر میں اس حوالے سے ڈیڑھ دو ماہ قبل سے فضا تیار کرنا شروع کردیا گیا اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر بھی خوب پرچار کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات میں پہلے مندر کی تعمیر سے بھی رام مندر کی تحریک کو خوب تقویت ملی۔ یوں مذہبی جوش و خروش سے سیاست کو جوڑ کر ووٹ بینک مضبوط کرنے کی حکمتِ عملی کارگر ثابت ہوئی۔

رام مندر کی افتتاحی تقریب کو ہر اعتبار سے سیاسی و انتخابی فوائد بٹورنے کا موقع بنانے کے لیے بی جے پی نے ملک بھر سے مختلف شعبوں کی نمایاں ترین شخصیات کو مدعو کرنے کا سلسلہ ڈیڑھ ماہ قبل شروع کیا۔ اس تقریب کے دعوت ناموں کی تقسیم بھی ایونٹ میں تبدیل کی گئی۔ کسی نے دعوت نامہ قبول کرکے نام کمایا اور کسی نے شرکت سے معذوری ظاہر کرکے خبروں میں جگہ بنائی۔

شوبز اور کھیلوں کی دنیا سے بھی نمایاں ترین شخصیات کو بلایا گیا۔ بالی وڈ سے امیتابھ بچن، انوپم کھیر، رندھیر کپور، کترینا کیف، عالیہ بھٹ، انوپم کھیر، رجنی کانت اور دیگر بڑے اسٹارز کی شرکت سے تقریب کو چار چاند لگائے گئے۔ سچن تینڈولکر کی شرکت بھی نمایاں رہی۔

رام مندر کے افتتاح کی تقریب کو حکومت نے اس طور استعمال کیا کہ چند بڑی شخصیات با دلِ ناخواستہ بھی شریک ہوئیں۔ اگر بالی وڈ کا کوئی اسٹار دعوت نامہ ملنے پر بھی انکار کرتا تو اس کے بارے میں یہ پرچار ہونا تھا کہ وہ ہندوؤں اور ہندو ازم کا وفادار نہیں۔ اب وہ اس تقریب میں شریک ہونے کے بعد اپنے اُن پرستاروں کی نظر میں تھوڑے سے مجرم ٹھہرے ہیں جو سیکیولر اپروچ رکھتے ہیں۔

شوبز، کھیل اور فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنےوالی نمایاں ترین شخصیات بالعموم کسی بھی بڑی مذہبی تقریب میں شرکت سے گریز کرتی ہیں کیونکہ وہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے دلوں میں بستی ہیں۔

مختلف شعبوں کی نمایاں ترین شخصیات اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں میں فین فالوئنگ رکھنے والوں کے لیے یہ بہت کٹھن مرحلہ ثابت ہوا ہے۔ بھارت کا آئین سیکیولر ازم کی تلقین کرتا ہے مگر مودی سرکار نے سیکیولر ازم کو دفنادیا ہے۔ ملک کی نمایاں ترین شخصیات کو رام مندر بلاکر رام چندر جی کی مورتی کے آگے جھکاکر اُن کے پرستاروں کی نظر گرانے کی کوشش کی گئی ہے۔

بی جے پی کو رام مندر کی سیاست کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی بھرپور تنقید کا سامنا رہا ہے۔ کانگریس، راشٹریہ جنتا دل، ترنمول کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی (مارکسسٹ) نے مذہب کو سیاسی فوائد بٹورنے کے لیے استعمال کیے جانے کو پست حرکت قرار دیا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ رام مندر کے افتتاح کو ہندو دھرم کے احیا سے تعبیر کرکے بی جے پی نے ملک بھر میں بھولے بھالے ہندوؤں کو دھوکا دیا ہے۔

میڈیا کے ذریعے یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ ہندو ازم جیت گیا ہے اور رام چندر جی 500 سال بعد اپنے گھر واپس آئے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ رام جی کا دوبارہ جنم ہوا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے رام جی بحالی کے مرحلے سے گزرے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ رام جی کی جیت ہوئی ہے۔

بی جے پی نے ایک طرف سیکیولر ازم کو دفنایا ہے اور دوسری طرف اس تصور و تاثر کو ہوا دی ہے کہ ملک میں ہندوؤں کی اکثریت ہے تو مرضی بھی انہی کی چلنی چاہیے۔ یوں جمہوریت کی جڑیں بھی کمزور کی جارہی ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اس وقت ہندو انتہا پسندی مجموعی طور پر ایسے منہ زور گھوڑے کے مانند ہے جس پر کسی کا بس نہ چل رہا ہو۔ سیکیولر ذہن کے جو لوگ اس تماشے کو پسند نہیں کر رہے وہ بھی پریشان ہیں کہ اس کے خلاف آواز کیسے اٹھائیں۔ وہ شدید ردِعمل کے خوف سے چپ ہیں۔

Read Comments