اپ ڈیٹ 19 اگست 2025 01:06am

ہم چاہتے ہیں یوکرین جنگ سب کے لیے بہتر انداز میں ختم ہو، ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں جنگ سب کے لیے بہتر انداز میں ختم ہو، میرا خیال ہے روسی صدر بھی جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے اہم ملاقات کی، جس میں اٹلی، فرانس اور برطانیہ کے وزراء بھی موجود تھے۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کو عالمی امن کے لیے نہایت اہم قرار دیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق، صدر ٹرمپ نے بتایا کہ چند روز قبل انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی تھی جو کافی مثبت رہی۔ انہوں نے کہا کہ آج کی ملاقات بھی اسی تسلسل میں بہت اہم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی اور تعاون کے لیے یہ ایک مثبت قدم ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا، ”ہم جنگ کے خاتمے اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے روس اور یوکرین کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ میں اس جنگ کو جلد ختم کرانا چاہتا ہوں، اور یہ ختم بھی ہوگی، لیکن کب ہوگی، اس بارے میں میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا۔“

ٹرمپ کی صحافیوں کے سامنے یوکرینی صدر کے لباس کی تعریف

ٹرمپ نے یوکرینی صدر کے لباس کی بھی کھل کر تعریف کی اور میڈیا کے ذریعے یوکرینی عوام کے لیے خیرسگالی کا پیغام دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر وہ اس وقت امریکی صدر ہوتے تو روس اور یوکرین کے درمیان یہ جنگ شروع ہی نہ ہونے دیتے۔

ٹرمپ اور زیلنسکی میڈیا کے سامنے آئے تو ماحول ان کی گزشتہ ملاقات سے یکسر مختلف نظر آیا جو کہ جھگڑے کی صورت اختیار کرگئی تھی۔

حیران کن طور پر یوکرینی صدر زیلنسکی جو یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے ہی اپنی افواج سے اظہار یکجہتی کے لیے کوٹ پینٹ کی جگہ فوجی طرز کا لباس زیب تن کرنے لگے ہیں، آج کوٹ پہن کر وائٹ ہاؤس آئے۔

وائٹ ہاؤس آمد پر ٹرمپ نے یوکرینی صدر کا استقبال کیا اور اس موقع کی ویڈیو سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے صدر زیلنسکی کے لباس کی تعریف کی۔

یاد رہے کہ وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے گزشتہ ملاقات کے دوران ایک صحافی برائن گلین نے زیلنسکی کے لباس پر تنقید کرتے ہوئے انہیں کہا تھا وہ اس ملک کے سب سے بڑے دفتر میں کوٹ پینٹ پہن کر نہیں آئے، کیا ان کے پاس کوٹ نہیں ہے؟

ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ بائیڈن کی جنگ ہے، نہ کہ ان کی۔ انہوں نے بائیڈن کو ایک ”برا اور بدعنوان“ صدر قرار دیا اور کہا کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے۔

ٹرمپ نے مزید کہا، ”گزشتہ ہفتے کتنے لوگ مارے گئے؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔ ہم یہ نہیں کریں گے کہ دو سال امن کے بعد جنگ دوبارہ شروع ہو جائے۔ پوری دنیا اس جنگ سے تھک چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کو ہی دیکھ لیں، یہ بھی ایک خطرہ ہے۔“

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سات ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کریں گے اور ممکن ہے کہ نیٹو کو بھی اس معاملے میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے کہا، ”ہم نے پہلے بھی چھ جنگیں روکی ہیں، اور مجھے امید ہے کہ امن کے قیام کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔“

ملاقات کے دوران خاتون اول کی طرف سے بچوں کے ساتھ محبت اور ان کی حفاظت کا بھی ذکر کیا گیا۔ ٹرمپ نے کہا، ”خاتون اول نے وہی دیکھا جو آپ دیکھ رہے ہیں، اور وہ بچوں سے بہت پیار کرتی ہیں۔“

ٹرمپ نے میڈیا کی جانب سے اپنے خلاف دی جانے والی تنقید کا بھی جواب دیا اور کہا کہ میڈیا انہیں ایک ”ڈکٹیٹر“ کہتا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے دور میں 90 دنوں میں کوئی فرد غیرقانونی ملک میں داخل نہیں ہوا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس معاملے میں سہ فریقی ملاقات کا امکان بھی ہے جس میں روس، یوکرین اور امریکا کے علاوہ دیگر فریق شامل ہو سکتے ہیں۔

یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی راستہ تلاش کرنے کے لیے تیار ہے، زیلنسکی

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اوول آفس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ یوکرین کو روزانہ روسی حملوں کا سامنا ہے، اور اس کی مثال کے طور پر انہوں نے روس کا خارکیف پر رات کے وقت ہونے والا مہلک حملہ ہے۔

ان سے ایک سوال پوچھا گیا کہ یوکرین امن معاہدے میں نقشے دوبارہ بنانےکے لیے تیار ہے یا مزید چند برسوں تک یوکرینی فوجیوں کو موت کی طرف بھیجنے پر راضی ہے تو زیلنسکی نے براہِ راست جواب نہیں دیا لیکن انہوں نے جنگ روکنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کی تعریف کی۔

صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا تھاکہ ہمیں اس جنگ کو روکنے کی ضرورت ہے، روس کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اور ہمیں اپنے امریکی اور یورپی شراکت داروں کی مدد چاہیے۔ ہم نے امریکا کے خیال خاص طور پر صدر ٹرمپ کی اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ اس جنگ کو روکا جائے اور اس کا ایک سفارتی حل نکالا جائے۔

زیلنسکی نے کہا کہ وہ خود ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان سہ فریقی سربراہی اجلاس کے لیے تیار ہیں۔ ٹرمپ نے بھی پیر کے مذاکرات کے فوراً بعد سہ فریقی سربراہی اجلاس کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن پیوٹن اس معاملے پر ہچکچاہٹ دکھا رہے ہیں۔

Read Comments