’قادیانیوں کی چالاکیوں کا وزیر قانون کو شاید پتا نہیں‘: اقلیتوں کے حقوق کا بل قومی اسمبلی میں منظور
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت بل 2025 کو حتمی منظوری مل گئی۔ بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بعض اراکین نے مخالفت کی۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیرِ صدارت منگل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مذکورہ بل پیش کیا۔ اس دوران اپوزیشن نے بعض مواقع پر نعرہ بازی بھی کی۔
جس پر وزیر قانون نے اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ یہ قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہے اور اس میں چار ترامیم شامل کی گئی ہیں۔ وزیر قانون نے واضح کیا کہ یہ بل غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے اور اس پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
بل پر بحث کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایسے قوانین لانے سے محتاط رہنا چاہیے تاکہ کسی غیر قانونی فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور ایوان کو بتایا جائے کہ بل کیوں پیش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ قانون سازی اس طرح ہونی چاہیے کہ اقلیتوں کی بھی حفاظت ہو، لیکن اسلام کے منافی کوئی قانون منظور نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ بل پر جامع بحث کرائی جائے تاکہ شفافیت قائم رہے۔
جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بل کے کچھ سیکشنز پر اعتراضات کیے، خاص طور پر سیکشن 35 اور سیکشن 12 کی کلاز ایچ پر، اور کہا کہ ان پر عمل درآمد عدالتوں کے موجودہ اختیارات کو متاثر کر سکتا ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی کہ عدالتوں کے اختیارات برقرار رہیں گے اور کمیشن کو سوموٹو کے اختیارات دینے یا واپس لینے کی تجاویز کو بھی قبول کیا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے خبردار کیا کہ “قادیانیوں کی چالاکیوں کا وزیر قانون کو شاید پتا نہیں، یہ ایسی چیزوں سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور سائیڈ بھی ہوتے ہیں، ہمیں اس قسم کے مسائل میں پڑنا ہی نہیں چاہیے، گزارش ہے یہاں یہ نیا پٹارا نہ کھولا جائے۔”
اپوزیشن کی طرف سے علامہ راجہ ناصر عباس اور پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے بھی بل پر تحفظات کا اظہار کیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے حکومتی بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بہت ساری چیزوں پر قیامت کے روز ہماری پکڑ ہونی ہے، میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی بات کی حمایت کرتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آقا نام دار ﷺ کی حرمت پر بات آئے گی تو میں مخالفت کروں گا، وزیرِ قانون سے درخواست کروں گا مہربانی کریں۔
جس کے بعد اسپیکر نے ایوان کی ہدایات کے مطابق رائے شماری شروع کرائی۔ اس دوران قادر پٹیل ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
اسپیکر نے “یس” اور “نو” سے رائےشماری کرائی تو ”نو“ کی آواز زیادہ گونجی۔ جس پر اسپیکر نے دوسری مرتبہ “یس نو “کے ساتھ رائے شماری کرائی تو ”نو“ کی آواز پھر زیادہ گونجی۔
لیکن رائے شماری کے نتائج میں 160 ووٹ بل کے حق میں اور 79 مخالفت میں آئے۔ بل کی شق وار منظوری کے دوران جے یو آئی کی سیکشن 35 پر اور کمیشن کو سوموٹو کا دیا گیا اختیار واپس لینے کی تجویز مان لی گئی۔