بنگلادیش میں ’جین زی‘ کی سیاست پر قابو پانے کے لیے نئی لڑائی
بنگلادیش میں نئی سیاسی جماعت، نیشنل سٹیزن پارٹی، جو اس سال طویل عرصے سے حکمران شیخ حسینہ کو ہٹانے والے طلبہ نے قائم کی، اب اپنے سڑکوں پر حاصل کردہ مقبولیت کو ووٹوں میں تبدیل کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ مضبوط حریف، مالی قلت اور غیر واضح پالیسیوں نے پارٹی کی انتخابی کارکردگی متاثر کر دی ہے، جبکہ اگلے سال ماہ فروری میں ہونے والے انتخابات کے قریب یہ چیلنج اور بڑھ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بنگلا دیش میں طلبا کی قیادت میں قائم ہونے والی نیشنل سٹیزن پارٹی ملک سے عشروں پر محیط سیاسی خاندانوں اور دو بڑی پارٹیوں کے تسلط کو ختم کرنے کے وعدے کے ساتھ ابھری تھی۔ پارٹی کے سربراہ ناہید اسلام نے کہا کہ ’ہماری تنظیم کمزور ہے کیونکہ ہمارے پاس اسے مضبوط کرنے کے لیے کافی وقت نہیں تھا۔ ہم اس صورتحال سے واقف ہیں، مگر چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔‘
ناہید اسلام 27 سالہ نوجوان ہیں، جو گزشتہ سال ہونے والے حکومت مخالف احتجاج میں نمایاں رہے اور مختصر عرصہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی کیئر ٹیکر انتظامیہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔
بین الاقوامی غیر منافع بخش ادارہ انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹیٹیوٹ کے مطابق، نیشنل سٹیزن پارٹی 300 نشستوں میں حصہ لینے کی کوشش کرے گی، لیکن دسمبر کی رائے شماری میں اسے صرف 6 فیصد حمایت حاصل ہوئی، جو سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی بنگلا دیش نیشنل پارٹی کے 30 فیصد اور سخت گیر جماعت جماعت اسلامی کے 26 فیصد کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
فیمینسٹ اور سابق احتجاجی رہنما پرپتی تپوشی نے کہا ‘جب انہوں نے پارٹی کا آغاز کیا تو ہم نے امید دیکھی، لیکن ان کے اقدامات ان کے دعووں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہم مسائل پر وہ مؤقف اختیار کرنے میں ہچکچاتے ہیں، اور جب کرتے ہیں بھی دیر ہو جاتی ہے۔‘
یاد رہے کہ نیشنل سٹیزن پارٹی نے ڈھاکا یونیورسٹی کے حالیہ طلبہ انتخابات میں ایک بھی نشست حاصل نہیں کی، جو اس احتجاج کا مرکز رہا جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کو نئی دہلی فرار ہونا پڑا۔
جین زی اور فوج کی خاموش حمایت، حالیہ عرصے میں کس کس ملک میں حکومتی تختے اُلٹے گئے؟
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق، پارٹی کو کمزور تنظیمی ڈھانچہ، مالی قلت اور خواتین و اقلیتی حقوق جیسے اہم امور پر غیر واضح پالیسیوں کی وجہ سے انتخابی مقابلے میں مشکلات درپیش ہیں۔ نیشنل سٹیزن پارٹی دیگر پارٹیوں جیسے بنگلادیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کے امکانات پر بات چیت کر رہی ہے۔
نیشنل سٹیزن پارٹی کے ایک سینئر رہنما نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا۔ ’اگر ہم اکیلے کھڑے رہے، تو ایک بھی نشست جیتنے کا امکان نہیں‘، ماہرین کہتے ہیں کہ اتحاد پارٹی کی ”انقلابی“ شبیہ کو متاثر کر سکتا ہے، کیونکہ عوام انہیں زیادہ دیر تک بنگلادیش نیشنل پارٹی، عوامی لیگ اور جماعت اسلامی سے الگ تحریک کے طور پر نہیں دیکھیں گے۔
ابتدائی طور پر احتجاج نے طلبا کو پارٹی لائن سے باہر متحد کیا، لیکن بیشتر واپس اپنی سابقہ پارٹیوں میں چلے گئے، صرف ایک چھوٹا حصہ نیشنل سٹیزن پارٹی میں شامل ہوا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں پارٹی کو گاؤں تک پھیلے مضبوط نیٹ ورک اور وسائل رکھنے والے حریفوں کا سامنا ہے۔