اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2025 05:07pm

سڈنی: بونڈی بیچ واقعے سے قبل دونوں حملہ آور فلپائن کیوں گئے؟

آسٹریلوی پولیس نے انکشاف کیا ہے کہ بونڈی حملے میں ملوث دونوں حملہ آور واقعے سے قبل فلپائن کا سفر کر چکے تھے اور ابتدائی شواہد کے مطابق دونوں دہشت گرد تنظیم داعش سے متاثر تھے۔

خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق آسٹریلوی پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث دونوں حملہ آوروں نے گزشتہ ماہ فلپائن کا سفر کیا تھا، اس سفر کے مقاصد کیا تھے، اس کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔

فلپائنی امیگریشن حکام نے تصدیق کی ہے کہ دونوں افراد یکم نومبر کو دارالحکومت منیلا پہنچے، بعد ازاں جنوبی شہر داؤاؤ گئے اور 28 نومبر کو واپس روانہ ہوئے۔ حکام کے مطابق حملہ آوروں میں سے ساجد اکرم نے بھارتی پاسپورٹ جبکہ بیٹے نوید اکرم نے آسٹریلوی پاسپورٹ پر سفر کیا۔

حکام کے مطابق فی الحال ان دونوں کا کسی دہشت گرد تنظیم سے براہ راست تعلق یا تربیت حاصل کرنے کا کوئی باقاعدہ ثبوت موجود نہیں۔ پولیس کے مطابق ماضی میں فلپائن کے جنوبی علاقوں میں داعش سے منسلک نیٹ ورکس سرگرم رہے ہیں، تاہم حالیہ برسوں میں ان کی طاقت محدود ہو چکی ہے۔

آسٹریلوی فیڈرل پولیس کمشنر کریسی بیریٹ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ابتدائی شواہد کے مطابق یہ حملہ داعش سے متاثر ہو کر کیا گیا اور مبینہ طور پر اس میں ملوث حملہ آور باپ بیٹا تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی مذہب نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم سے وابستہ افراد کی کارروائی ہے۔

پولیس نے مزید بتایا کہ ملزمان کی گاڑی سے دیسی ساختہ دھماکا خیز مواد اور داعش سے منسلک دو ہاتھ سے بنے ہوئے جھنڈے بھی برآمد ہوئے۔ حملہ آوروں نے تقریباً 10 منٹ تک سیکڑوں افراد پر فائرنگ کی، جس کے باعث لوگ جان بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھاگتے اور پناہ لیتے رہے، بعد ازاں پولیس نے دونوں افراد کو گولی مار دی۔


اُدھر فلپائن کی وزارت دفاع کے ترجمان آرسینیو اینڈولونگ نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو ایک ٹیکسٹ میسج کے جواب میں بتایا ہے کہ فلپائن کی پولیس بونڈائی بیچ ساحل فائرنگ سے قبل دونوں حملہ آوروں کے فلپائن جانے سے متعلق تحقیقات کر رہی ہے۔

اس سے قبل آسٹریلوی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں حملہ آوروں بونڈائی ساحل پر حملے سے قبل عسکری تربیت حاصل کرنے کی غرض سے بھارتی پاسپورٹ پر فلپائن گئے تھے۔

منیلا میں سرحدی حکام نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ 50 سالہ ساجد اکرم بھارتی پاسپورٹ پر ملک فلپائن گیا تھا، جبکہ ان کا 24 سالہ بیٹا نوید آسٹریلوی پاسپورٹ استعمال کرتے ہوئے فلپئان پہنچا تھا۔

خیال رہے کہ فلپائن کو طویل عرصے سے اپنے ملک کے جنوبی حصے میں عسکریت پسندی کا سامنا ہے۔ 2017 میں داعش سے وفاداری کا عہد کرنے والے عسکریت پسندوں نے مراوی شہر پر قبضہ کر لیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ ماہ تک لڑائی جاری رہی تھی۔

سڈنی کے بونڈی بیچ پر اتوار کے روز پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات میں آسٹریلوی تحقیقاتی اداروں نے باضابطہ طور پر بھارتی حکومت سے رابطے کی کوشش بھی کی ہے۔ آسٹریلوی حکام نے اس حملے میں ملوث افراد کے پس منظر اور ممکنہ روابط کے حوالے سے بھارتی حکام سے سوالات کیے ہیں تاکہ حقائق کو واضح کیا جا سکے۔

14 دسمبر کو سڈنی میں ہونے والے اس حملے کے بعد ابتدائی طور پر بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حملہ آوروں کے پس منظر سے متعلق مختلف دعوے سامنے آئے تھے۔ بعض رپورٹس میں واقعے کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش بھی کی گئی، تاہم بعد ازاں تحقیقات اور سامنے آنے والی معلومات کے بعد یہ دعوے متنازع قرار دیے گئے۔ حملے میں ملوث ایک شخص کے قریبی دوست نے بیان دیا کہ نوید اکرم نامی حملہ آور کا تعلق بھارت سے ہے، اس کے والد بھارتی نژاد تھے جبکہ والدہ اطالوی پس منظر رکھتی تھیں۔

پاکستانی حکام اور ریکارڈ کے مطابق سوشل میڈیا پر جس شخص کو شیخ نوید کے نام سے دہشت گرد قرار دیا جا رہا تھا، وہ دراصل نوید اکرم نہیں تھا۔ بعد میں خود شیخ نوید نے بھی سوشل میڈیا پر بیان جاری کر کے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ گمراہ کن مہم کے باعث ان کی جان کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ اُن کے مطابق غلط معلومات پھیلانے سے نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ انہیں سیکیورٹی خدشات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

آسٹریلوی پولیس کے مطابق سڈنی میں یہ دہشت گرد حملہ ایک ساحلی علاقے بونڈائی بیچ پر یہودیوں کی ایک تقریب کے دوران کیا گیا، جہاں دو حملہ آوروں نے فائرنگ کی۔ پولیس نے بتایا کہ حملہ آور باپ اور بیٹا تھے۔ فائرنگ کے تبادلے میں پچاس سالہ باپ موقع پر ہلاک ہو گیا جبکہ چوبیس سالہ بیٹے کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔ ہلاک ہونے والے حملہ آور کی شناخت ساجد اکرم کے نام سے ہوئی ہے جبکہ نوید اکرم سے تفتیش جاری ہے۔

پولیس کے مطابق ساجد اکرم کے پاس گزشتہ دس برس سے اسلحے کا لائسنس موجود تھا اور وہ ایک گن کلب کا رکن بھی تھا۔ اس کے قبضے سے چھ ہتھیار برآمد کیے گئے جبکہ جائے وقوعہ کے قریب سے دو دیسی ساختہ دھماکہ خیز مواد بھی ملے ہیں۔

آسٹریلوی حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں مرنے والوں کی تعداد سولہ ہو چکی ہے جبکہ چالیس سے زائد افراد زخمی ہیں، جن میں سے چھ کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

واقعے کے بعد ملک بھر میں ایک روزہ قومی سوگ منایا گیا اور سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا۔ آسٹریلوی میڈیا کے مطابق ابتدائی شواہد سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ملزمان نے شدت پسند تنظیم داعش سے وفاداری کا عہد کیا تھا اور ان کی گاڑی سے داعش کے جھنڈے بھی برآمد ہوئے ہیں، اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے واقعے کو ملکی تاریخ کا ایک سیاہ دن قرار دیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہتھیاروں سے متعلق قوانین کو مزید سخت کیا جائے گا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گن لائسنس ہمیشہ کے لیے نہیں ہونے چاہئیں اور اس واقعے کے بعد حکومت ہر ضروری اقدام اٹھانے کے لیے تیار ہے تاکہ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔

اسی واقعے کے دوران ایک شہری احمد الاحمد کی بہادری بھی منظر عام پر آئی، جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ایک مسلح حملہ آور کو قابو کرنے کی کوشش کی اور کئی قیمتی جانیں بچانے میں کردار ادا کیا۔

احمد خود بھی فائرنگ کے دوران زخمی ہوئے، تاہم ان کے اس اقدام کو آسٹریلوی عوام، حکومت اور عالمی میڈیا نے سراہا۔

نیو ساؤتھ ویلز کے وزیر اعلیٰ نے ان کی جرات کو غیر معمولی قرار دیا جبکہ عوام کی جانب سے ان کے لیے مالی امداد بھی جمع کی گئی۔

امریکی ریاست لاس اینجلس میں دہشت گردی کا منصوبہ ناکام

حکام کے مطابق سڈنی دہشت گردی واقعے کی تحقیقات مختلف پہلوؤں سے جاری ہیں اور واقعے کے محرکات، پس منظر اور بین الاقوامی روابط کا باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ مکمل حقائق عوام کے سامنے لائے جا سکیں۔

Read Comments