شائع 16 دسمبر 2025 09:51am

اربوں ڈالرز کی کمائی کی خاطر میٹا کی فراڈ اشتہاروں کو اجازت

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ پر بڑے پیمانے پر فراڈ اشتہارات چلائے گئے، جن کے ذریعے دنیا بھر کے صارفین کو جعلی سرمایہ کاری، غیر قانونی جوئے اور دیگر ممنوعہ سرگرمیوں میں پھنسایا گیا۔ اس فراڈ کا بڑا حصہ چین سے منسلک اشتہاری نیٹ ورکس کے ذریعے ہوا۔

رائٹرز کی تحقیق کے مطابق میٹا کو اس فراڈ کی اندرونی طور پر مکمل آگاہی تھی، مگر کمپنی نے آمدنی پر پڑنے والے ممکنہ منفی اثرات کی وجہ سے سخت کارروائی سے گریز کیا۔ اندرونی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ میٹا نے چین سے آنے والے اشتہارات میں ایک خاص حد تک فراڈ کو جان بوجھ کر برداشت کرنے کا فیصلہ کیا۔

اگرچہ چین میں میٹا کے پلیٹ فارمز عام صارفین کے لیے بند ہیں، لیکن چینی کمپنیاں غیر ملکی صارفین کو نشانہ بنا کر اشتہارات چلا سکتی ہیں۔ 2024 میں چین سے میٹا کی اشتہاری آمدنی 18 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی، جو کمپنی کی مجموعی آمدنی کا تقریباً 11 فیصد بنتی ہے۔ میٹا کے اپنے اندازوں کے مطابق اس رقم کا قریب 19 فیصد حصہ فراڈ یا ممنوعہ اشتہارات سے آیا، جو میٹا کی اپنی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتے تھے۔

میٹا کا چین سے گٹھ جوڑ، امریکا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا: رپورٹ

میٹا کے اندرونی ریکارڈ کے مطابق دنیا بھر میں چلنے والے فراڈ، جعلی سرمایہ کاری اور ممنوعہ مصنوعات کے اشتہارات میں سے تقریباً ایک چوتھائی کا تعلق چین سے تھا۔ صارفین کو فیس بک یا انسٹاگرام اشتہارات کے ذریعے راغب کیا جاتا، پھر انہیں واٹس ایپ گروپس میں منتقل کر کے جعلی سرمایہ کاری مشورے دیے جاتے۔ ان اسکیمز میں غیر حقیقی منافع کا وعدہ کیا جاتا تھا، جس سے امریکا، کینیڈا، تائیوان اور دیگر ممالک کے صارفین کو بھاری مالی نقصان ہوا۔

2024 میں میٹا کے سیفٹی، فنانس اور انجینئرنگ شعبوں نے اعلیٰ انتظامیہ کو خبردار کیا کہ چین سے آنے والا فراڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے اور صارفین کو سنگین نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے بعد ایک خصوصی اینٹی فراڈ ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے سخت نگرانی کے ذریعے چند ہی مہینوں میں فراڈ اشتہارات کی شرح تقریباً نصف تک کم کر دی۔ اس مرحلے پر چین سے آنے والے اشتہارات کا معیار تقریباً باقی دنیا کے برابر آ گیا تھا۔

اندرونی دستاویزات کے مطابق بعد میں چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ کی سطح پر ایک پالیسی تبدیلی کی گئی، جس کے بعد چین پر مرکوز اینٹی فراڈ ٹیم کو روک دیا گیا اور بعد ازاں ختم کر دیا گیا۔ نئی چینی اشتہاری ایجنسیوں پر عائد پابندیاں بھی اٹھا لی گئیں، جبکہ وہ اقدامات بھی مؤخر کر دیے گئے جو فراڈ روکنے میں مؤثر ثابت ہو رہے تھے۔ ان فیصلوں کی بنیادی وجہ آمدنی پر ممکنہ منفی اثر بتایا گیا۔

اینٹی فراڈ اقدامات ختم ہونے کے چند ماہ بعد ہی ممنوعہ اشتہارات دوبارہ بڑھنے لگے اور 2025 کے وسط تک چین سے آنے والی آمدنی میں فراڈ اشتہارات کا حصہ دوبارہ 16 فیصد تک پہنچ گیا۔ ایک اندرونی دستاویز میں واضح کیا گیا کہ میٹا اب چین کے معاملے میں باقی دنیا کے برابر معیار حاصل کرنے کے بجائے صرف یہ ہدف رکھے گا کہ چین سے ہونے والا نقصان عالمی سطح پر ایک ‘قابلِ برداشت’ حد میں رہے۔

میٹا کی خفیہ معلومات لیک کرنے پر 20 ملازمین نوکری سے برطرف

میٹا چین میں اشتہارات براہ راست فروخت نہیں کرتا بلکہ 11 بڑے چینی ایڈ ایجنسی پارٹنرز کے ذریعے کام کرتا ہے، جو آگے مزید چھوٹی ایجنسیوں اور مشتہرین کو شامل کرتے ہیں۔ اس پیچیدہ اور غیر شفاف نظام کے باعث جعلی اکاؤنٹس، فرضی شناخت اور پالیسی سے بچنے کے طریقے عام ہو چکے ہیں۔ ایک کنسلٹنسی رپورٹ کے مطابق میٹا کی اپنی نرمی اور غیر مستقل نفاذ نے اس فراڈ کو مزید فروغ دیا۔

تحقیق میں ایسے کئی کیسز سامنے آئے جن میں فیس بک اور انسٹاگرام اشتہارات کے ذریعے صارفین کو جعلی سرمایہ کاری اسکیمز میں پھنسا کر کروڑوں ڈالر لوٹے گئے۔ امریکا میں ایک بڑے کیس میں حکام نے 214 ملین ڈالر ضبط کیے۔ اگرچہ میٹا نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کا دعویٰ کیا، مگر اندرونی دستاویزات کے مطابق ایسے واقعات بڑے پیمانے پر جاری رہے۔

چین نے اپنا نیا اے آئی ماڈل میدان میں اُتار دیا، امریکا کا غلبہ خطرے میں پڑ گیا

رائٹرز کے مطابق میٹا کے اندر کئی بار یہ تجویز دی گئی کہ بڑے پیمانے پر فراڈ میں ملوث اشتہاری اکاؤنٹس بند کیے جائیں، مگر ہر بار یہ دلیل دی گئی کہ اس سے کمپنی کی آمدنی پر شدید اثر پڑے گا۔ ایک دستاویز میں واضح طور پر لکھا گیا کہ بعض اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ “ریونیو امپیکٹ بہت زیادہ” ہونا تھا۔

یہ تحقیق بتاتی ہے کہ میٹا کو چین سے آنے والے فراڈ اشتہارات کے حجم، طریقۂ کار اور اثرات کا مکمل علم تھا، لیکن کمپنی نے صارفین کے تحفظ کے مقابلے میں کاروباری مفادات کو ترجیح دی۔ یہ معاملہ نہ صرف میٹا کی پالیسیوں بلکہ عالمی سطح پر بڑی ٹیک کمپنیوں کی نگرانی، شفافیت اور جوابدہی پر بھی سنجیدہ سوالات کھڑے کرتا ہے۔

Read Comments