اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2025 07:08pm

سقوطِ ڈھاکا: مشرقی پاکستان کو جدا ہوئے 54 برس بیت گئے

16 دسمبر 1971، وہ دن 1971 جب پاکستان کا ایک بازو مشرقی پاکستان، ہم سے جدا ہو کر ‘بنگلا دیش’ بن گیا۔ یہ ایک ایسا زخم ہے، جو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہر پاکستانی کے دل میں تازہ ہے۔ اس سانحے کو سقوطِ ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جسے آج 54 برس مکمل ہوچکے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد سب سے بڑا سانحہ ایک سال بعد ہی قائداعظم محمد علی جناح کی وفات تھا۔ ان کا دنیا سے رخصت ہونا تھا کہ سیاسی، معاشی اور آئینی مسائل پر تمام قوتوں کو متحد رکھنا ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی اور مشرقی پاکستان کے عوام اسی اعتبار سے معاشی اور سماجی وسائل میں حق دار تھے۔

1947 میں ایک نظریے کی بنیاد پر متحد ہونے والے دو خطوں کے درمیان زبان کا مسئلہ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اقتدار کی منتقلی میں تاخیر نے خلیج پیدا کر دی۔ بھارت نے اس اندرونی خلفشار کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ‘مکتی باہنی’ جیسے جتھوں کے ذریعے نفرت کی آگ کو ہوا دی۔

مکتی باہنی ایک گوریلا عسکری تنظیم تھی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس تنظیم میں بنگالی فوجی، نیم فوجی دستے اور عام شہری شامل تھے۔ 1971 کی جنگ کے دوران بھارتی فوج نے مکتی باہنی کے تقریباً 1 لاکھ سے زائد جنگجوؤں کو تربیت، اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا۔

اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے بھی مکتی باہنی کی حمایت کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی مداخلت قرار دیا اور عالمی سطح پر بنگلا دیش کے حق میں مہم چلائی۔


بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 2015 میں اپنے دورہ بنگلا دیش کے دوران اعتراف کیا تھا کہ “بنگلا دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اور بھارتی شہریوں نے اس خواب کو پورا کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پہلا اختلاف سرکاری زبان کے معاملے پر پیدا ہوا۔ ستمبر 1947 میں ایک تعلیمی کانفرنس میں اردو کو واحد قومی زبان بنانے کی تجویز دی گئی، جس پر مشرقی بنگال کے طلبہ اور دانشوروں نے شدید احتجاج کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ چونکہ پاکستان کی اکثریت (تقریباً 54 فیصد) بنگالی بولتی ہے، اس لیے اسے بھی قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے۔

مسلسل احتجاج اور بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے پیشِ نظر 7 مئی 1954 کو دستور ساز اسمبلی نے بنگالی کو پاکستان کی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی۔ 1956 کے پہلے آئین میں باقاعدہ طور پر اردو اور بنگالی دونوں کو پاکستان کی قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا۔ کئی ماہرین اس تحریک کو مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔

شیخ مجیب الرحمن نے فروری 1966 میں لاہور میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے مشہور ‘6 نکات’ پیش کیے۔ یہ نکات بنیادی طور پر مشرقی پاکستان کی وسیع تر سیاسی اور معاشی خود مختاری کا فارمولا تھے، جنہیں ‘بنگالیوں کا میگنا کارٹا’ (Magna Carta) بھی کہا جاتا ہے۔


ان نکات میں وفاقی پارلیمانی نظام، صوبائی خودمختاری، الگ کرنسی، ٹیکسوں کی وصولی، غیر ملکی تجارت کا اختیار اور صوبائی ملیشیا رکھنے کی اجازت جیسے معاملات شامل تھے۔ جس کے بعد ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔

صدر ایوب خان اور مغربی پاکستان کی قیادت نے ان نکات کو ملک توڑنے کی سازش قرار دیا۔ ان کا موقف تھا کہ ان نکات پر عمل درآمد سے وفاق کمزور ہو جائے گا اور ملک عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

حکومت نے شیخ مجیب پر بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کا الزام لگایا، جسے ‘اگرتلہ سازش کیس’ کہا جاتا ہے۔ ان نکات نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی خلیج کو اتنا گہرا کر دیا کہ سمجھوتے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ مشرقی پاکستان میں اسے اپنی محرومیوں کا حل جبکہ مغربی پاکستان میں اسے علیحدگی کی بنیاد سمجھا جانے لگا۔


اکتوبر 1969 میں صدر یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے پہلے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔ صدر یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) جاری کیا جس کے تحت ‘ایک فرد، ایک ووٹ’ کا اصول اپنایا گیا۔ اس سے قبل مغربی اور مشرقی پاکستان کی نشستیں برابر تھیں، لیکن اب آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں اکثریت (162 نشستیں) دے دی گئی جبکہ مغربی پاکستان کو 138 نشستیں ملیں۔


7 دسمبر 1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے ان ہی 6 نکات کے منشور پر الیکشن لڑا اور مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔

اصولی طور پر شیخ مجیب الرحمان کو وزیراعظم بننا چاہیے تھا اور انہیں آئین بنانے کا حق حاصل تھا لیکن یہاں سے بحران نے جنم لیا۔ شیخ مجیب اپنے 6 نکات پر اڑے ہوئے تھے جبکہ بھٹو اور فوجی قیادت کا خیال تھا کہ یہ نکات پاکستان کی تقسیم کے مترادف ہیں۔


ذوالفقار علی بھٹو نے مطالبہ کیا کہ آئین سازی میں ان کی پارٹی کی مرضی بھی شامل ہونی چاہیے۔ انہوں نے ”دو اکثریتی پارٹیوں“ کا نظریہ پیش کیا اور ڈھاکہ جانے والے ارکانِ اسمبلی کو ”ٹانگیں توڑنے“ کی دھمکی دی۔ جس کے بعد صدر یحییٰ خان نے 3 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں ہونے والا قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ملتوی کر دیا۔ جس پر ڈھاکہ میں احتجاج اور سول نافرمانی کی تحریک نے جنم لیا۔

7 مارچ کو شیخ مجیب نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اس بار کی جدوجہد، ہماری آزادی کی جدوجہد ہے!“ اگرچہ انہوں نے باقاعدہ آزادی کا اعلان نہیں کیا، لیکن عملی طور پر مشرقی پاکستان کا انتظام عوامی لیگ نے سنبھال لیا۔


مارچ 1971 کے وسط میں ڈھاکہ میں یحییٰ خان، شیخ مجیب اور ذوالفقار بھٹو کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن یہ ناکام رہے۔ 25 مارچ 1971 کی رات یحییٰ خان نے فوجی آپریشن ”سرچ لائٹ“ کا حکم دے دیا، جس کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی اور بالآخر 16 دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔

Read Comments