ابتدائی کائنات کے عظیم ’ڈائناسور ستاروں‘ کے ثبوت دریافت
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کائنات کے آغاز میں ایسے ستارے موجود تھے جو ہمارے سورج سے ہزاروں گنا بڑے تھے؟ ایسے دیوہیکل، طاقتور اور چمکدار کہ جن کی روشنی نے اندھیری، نوخیز کائنات کو لمحاتی طور پر جگمگا دیا اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئے۔
ماہرینِ فلکیات نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے ابتدائی کائنات کے بارے میں ایک حیرت انگیز سراغ حاصل کیا ہے۔
سائنس دان ان ناپید ستاروں کو علامتی طور پر ”ڈائناسور ستارے“ کہہ رہے ہیں۔ جیسے زمین پر ڈائناسور کبھی حکمران تھے مگر آج صرف ان کے نشانات باقی ہیں، ویسے ہی یہ ستارے بھی اب موجود نہیں، مگر ان کے چھوڑے ہوئے کیمیائی آثار آج بھی خلا میں محفوظ ہیں۔
یہ ساری کہانی ایک دور افتادہ کہکشاں GS 3073 سے شروع ہوتی ہے، جو زمین سے تقریباً 12.7 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسے اس وقت کی حالت میں دیکھ رہے ہیں جب کائنات محض ایک ارب سال کی تھی، یعنی کائناتی تاریخ کا ابتدائی باب۔
سائنسدانوں نے کائنات میں سب سے تیز ہواؤں والا ’سیارہ‘ دریافت کرلیا
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے جب اس کہکشاں کی گیس کا تجزیہ کیا تو سائنس دان چونک اٹھے۔ یہاں نائٹروجن کی مقدار غیر معمولی طور پر زیادہ تھی، جبکہ آکسیجن نسبتاً کم۔ یہ تناسب ایسا تھا جو نہ تو عام ستاروں سے میل کھاتا تھا اور نہ ہی کسی معروف فلکی دھماکے سے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب سائنس دانوں کو احساس ہوا کہ وہ کسی بالکل مختلف قسم کے ستاروں کے نشانات دیکھ رہے ہیں۔
تحقیقی ماڈلز کے مطابق یہ ستارے عام نہیں تھے۔ ان کا وزن سورج سے ایک ہزار سے دس ہزار گنا زیادہ تھا۔ اتنے بڑے ستارے شاید آج کی کائنات میں بن ہی نہیں سکتے۔
ان کے اندر ہونے والے ایٹمی عمل بھی غیر معمولی تھے۔ ان کے مرکز میں ہیلیم جل کر کاربن بناتا، جو بعد میں بیرونی حصوں تک پہنچتا۔ وہاں یہ کاربن ہائیڈروجن کے ساتھ مل کر بے تحاشا نائٹروجن پیدا کرتا، جو آہستہ آہستہ خلا میں پھیل جاتی۔ یہی نائٹروجن آج اربوں سال بعد بھی GS 3073 میں دیکھی جا سکتی ہے، یہ ایک خاموش مگر مضبوط ثبوت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کیمیائی نقشہ صرف انہی ستاروں میں بنتا ہے جو مخصوص حد کے اندر ہوں۔ اس سے چھوٹے یا اس سے کہیں بڑے ستارے ایسا نشان نہیں چھوڑتے۔
دور دراز کہکشاں میں آکسیجن دریافت، ماہرین حیران
یہ دیوہیکل ستارے بے حد روشن تھے، مگر ان کی عمر نہایت مختصر ، صرف دو سے تین لاکھ سال۔ پھر ایک دن وہ خاموشی سے ختم ہو گئے، مگر کسی شاندار سپر نووا کے بغیر۔
سائنس دانوں کے مطابق یہ ستارے اپنی موت کے وقت براہِ راست بلیک ہولز میں تبدیل ہو گئے۔ چونکہ ان کا زیادہ تر مادہ ضائع نہیں ہوا، اس لیے یہ بلیک ہولز غیر معمولی حد تک بڑے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، ایسے کئی ابتدائی بلیک ہولز آپس میں ضم ہوتے گئے، اور بہت کم عرصے میں وہ دیوقامت بلیک ہول وجود میں آ گئے جنہیں آج ہم ‘سپر میسیو بلیک ہولز’ کہتے ہیں۔
یہی وہ معمہ تھا جو سائنس دانوں کو برسوں سے پریشان کیے ہوئے تھا۔ اتنی کم عمر کائنات میں اتنے بڑے بلیک ہولز کیسے بن گئے؟
اب GS 3073 کے مرکز میں موجود بڑھتا ہوا سپر میسیو بلیک ہول شاید اسی کہانی کا زندہ ثبوت ہے۔ ایک ایسا انجام جو ان “ڈائناسور ستاروں” کے بغیر ممکن نہ تھا۔
آسمان پر کائنات کی آتش بازی: دو نئے ستارے ایک ساتھ چمک اٹھے
یہ دریافت محض ایک فلکی خبر نہیں، بلکہ کائنات کی ابتدا کو سمجھنے کی طرف ایک بڑی پیش رفت ہے۔ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ ہمیں اس دور کی جھلک دکھا رہا ہے جہاں روشنی، مادہ اور وقت خود نئے تھے۔
شاید آنے والے برسوں میں ہم مزید ایسے راز دریافت کریں اور جان سکیں کہ کائنات نے اپنے بچپن میں کن دیوہیکل مخلوقات کو جنم دیا، جو آج صرف اپنے نشانات کے ذریعے ہم سے بات کر رہی ہیں۔
کائنات کے ابتدائی لمحوں میں پیدا ہونے والے یہ دیوہیکل ستارے اس حقیقت کی یاد دہانی ہیں کہ یہ عظیم نظام محض کسی اتفاق سے وجود میں نہیں آیا بلکہ یہ خاموش گواہیاں جو ہم تک پہنچ رہی ہیں، یوں لگتا ہے جیسے تخلیق خود اپنے خالق کی عظمت کا اعلان کر رہی ہو۔ اربوں سال بعد بھی ستاروں کے یہ نقوش ہمیں اس عظیم ہستی کی طرف اشارہ کرتے محسوس ہوتے ہیں، جس نے کائنات کو وجود بخشا۔