پینگوئن کی صرف 4 سیکنڈ کی نیند نے سائنسدانوں کو حیران کر دیا
ایسوسی ایٹڈ پریس(اے پی) میں شائع رپورٹ لے مطابق ہر وہ جانور جس کے دماغ میں اعصابی نظام موجود ہے، نیند کا محتاج ہے، اور یہاں تک کہ کچھ جانور بغیر دماغ کے بھی سوتے ہیں۔ انسان، پرندے، وہیلز اور حتیٰ کہ جیلی فش بھی نیند لیتے ہیں۔
فرانس کے نیوروسائنس ریسرچ سینٹر لیون کے محقق پال-انتون لِبوریل کے مطابق نیند سب جانوروں کے لیے ضروری ہے، حالانکہ یہ خطرناک بھی ہے۔ سوتے وقت جانور شکاریوں کے لیے سب سے زیادہ بے دفاع ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود نیند کی ضرورت اتنی طاقتور ہے کہ کوئی بھی مخلوق اسے مکمل طور پر چھوڑ نہیں سکتی، چاہے حالات کتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہوں۔
انتہائی ماحول میں زندگی گزارنے والے جانوروں نے اپنی نیند کے طریقے بھی انتہائی بنا لیے ہیں۔ مثال کے طور پر، والدین اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے دوران سیکنڈزکے لیے چھوٹے وقفے میں سوتے ہیں، مہاجر پرندے پرواز کے دوران آنکھیں جھپکتے ہیں، اور کچھ جانور تیرتے ہوئے بھی غنودگی اختیار کر لیتے ہیں۔
ابتدائی طور پر سائنسدان صرف یہ اندازہ لگا سکتے تھے کہ جنگلی جانور کب سو رہے ہیں، ان کی حرکت رکنے اور آنکھیں بند ہونے سے۔ تاہم حالیہ برسوں میں چھوٹے ٹریکرز اور دماغی سرگرمی کے آلات نے پہلی بار یہ دکھایا کہ جانور کتنے منفرد اور حیران کن طریقوں سے نیند لیتے ہیں۔
جرمنی کے میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے بایولوجیکل انٹیلیجنس کے محقق نیلس رٹنبورگ کے مطابق، ”ہم دیکھ رہے ہیں کہ جانور اپنی نیند کو ماحول اور حالات کے مطابق بہت لچکدار بناتے ہیں۔“ اس نئے شعبے کو محققین ”ایکسٹریم نیند“ کا نام دے رہے ہیں۔
اینٹارکٹیکا کے چن-اسٹریپ پینگوئنز والدین کی ذمہ داریوں اور شکار کے دوران صرف چند سیکنڈ کے ”مائیکرو سلیپس“ لیتے ہیں۔ ہر دن وہ تقریباً 11 گھنٹے سوتے ہیں، لیکن ان کی نیند انتہائی مختصر اور وقفے وقفے کی ہوتی ہے تاکہ وہ بچے اور شکار دونوں پر نظر رکھ سکیں۔
کوریائی پولر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے حیاتیات دان وون یانگ لی کے مطابق یہ چھوٹے وقفے والدین کو ہجوم والے کالونی میں ہفتوں تک بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہ پینگوئنز اپنے دماغ کے ایک یا دونوں نصف کرہ کو باری باری نیند میں ڈال کر اپنی نگہداشت کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، حتیٰ کہ شکار یا شور کی موجودگی میں بھی وہ مختصر نیند لیتے رہتے ہیں۔
اب محققین دماغی سرگرمی کو ٹریک کر کے دیکھ سکتے ہیں کہ جانور کب مکمل یا جزوی نیند میں ہیں، اور یہ دریافت حیوانی نیند کی لچک اور تنوع کو اجاگر کرتی ہے۔