شائع 20 دسمبر 2025 01:04pm

’بس سگریٹ چھوڑنا کافی نہیں‘: تمباکو نوشی چھوڑنے والے کن مشکلات کا سامنا کرتے ہیں؟

سال 2025 اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے اور نئے سال کا سورج عنقریب طلوع ہونے کو ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہر نیا سال لاکھوں افراد کے لیے صحت کے اہداف طے کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جیسے وزن کم کرنا، مختلف مہارتیں حاصل کرنا، بہتر نیند لینا، یا زندگی کی چھوٹی چھوٹی مشکلات کو خود پرحاوی نہیں کرنا۔ تاہم، ان تمام اہداف میں سے ایک مشکل ہدف سگریٹ نوشی چھوڑنا ہے اور ہر وہ شخص جو زندگی میں کبھی بھی سگریٹ چھوڑنے کی کوشش کر چکا ہو وہ اس بات سے ضرور اتفاق کرے گا۔

اگرچہ سگریٹ نوشی کے نقصانات کے بارے میں سب کو علم ہے، اس کے باوجود بہت سے لوگ اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جب آپ کسی ایسے شخص کی زبانی یہ سنتے ہیں کہ ”بس سگریٹ چھوڑ دو“ جو سگریٹ پینے کا عادی نہ ہو تو اس کے لیے یہ باتیں عام طور پر آسان لگتی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ نکوٹین کی لت سے چھٹکاراایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل چیلنج ہے۔۔

نکوٹین، سگریٹ میں موجود ایک لت پیدا کرنے والا کیمیکل ہے۔ یہ دماغ کی کیمسٹری کو تبدیل کر کے ڈوپامین کی مقدار بڑھاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، دماغ نکوٹین کی خواہش کرنے لگتا ہے تاکہ وہ ”نارمل“ محسوس کرے۔

جب کوئی شخص سگریٹ نوشی چھوڑتا ہے، تو نکوٹین کی فوری کمی سے چڑچڑاپن، بے چینی اور توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات جسی کیفیات پیدا ہونے لگتی ہیں اور جب کوئی شخص چند دنوں یا مہینوں کے لیے سگریٹ چھوڑنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے، تو کچھ ٹریگرز ایسا خطرہ بن سکتے ہیں جو پورے عمل کو ایک لمحے میں پلٹ کر رکھ دیں۔

پچھلے کچھ سالوں میں سگریٹ نوشی چھوڑنے والوں کی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ این ڈی ٹی وی نے ایسے ہی تین مختلف افراد کے تجربات شیئر کیے ہیں، جنہوں نے یہ بتایا کہ کیسے انہوں نے اس عادت سے نجات پائی۔ ان تین افراد میں ڈاکٹر آسیس گو سوامی، سمرتی راؤ اور سنکت بوسے شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے دکھایا کہ سگریٹ نوشی چھوڑنا صرف جسمانی چیلنج نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نفسیاتی، جذباتی اور انفرادی سفر ہوتا ہے۔

اکثر افراد کے لیے سگریٹ نوشی کی ابتدا سماجی دباؤ سے ہوتی ہے۔ ریٹائرڈ اسپورٹس سائنس دان ڈاکٹر گو سوامی اپنے کالج کے دنوں کا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، میں نے 1970 کی دہائی میں کالج کے دنوں میں سگریٹ نوشی کا آغاز کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں، ”یہ عادت گروپ کی محافل سے شروع ہوئی، جہاں میں کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ سگریٹ پیتا تھا۔ لیکن پھر ماسٹرز کی تعلیم کے دوران یہ عادت فردی طور پر بھی شروع ہوگئی۔“

اسی طرح این ڈی ٹی وی کے نیوز ایڈیٹر سنکت بوسے نے اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا، ”میں نے اپنے پہلے کام کے دوران سگریٹ نوشی شروع کی۔ صحافیوں کے درمیان یہ عادت کافی ’کول‘ سمجھی جاتی تھی، اور میرے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی نے اس میں اضافہ کیا۔“

این ڈی ٹی وی میں ہیڈ آف موبائل ایپس کے طور پر کام کرنے والی سمرتی کہتی ہیں، ”میرے قریبی دوستوں کی وجہ سے میں نے سگریٹ نوشی شروع کی۔“ واضح ہوا کہ زیادہ تر لوگ سگریٹ نوشی کی ابتدا اپنے سماجی دائرے کے اثرات سے کرتے ہیں۔

سگریٹ نوشی چھوڑنے کے بعد سب سے بڑی مشکل ”خواہش“ یا ”کراسنگ“ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر گو سوامی نے اس بارے میں کہا، ”سب سے بڑی مشکل وہ شدید خواہش تھی جو سگریٹ نوشی چھوڑنے کے بعد شروع ہوئی۔ زندگی کے دباؤ کی وجہ سے میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ ایک سگریٹ مجھے سکون دے گا۔“

سنکت بوسے نے بتایا کہ، ”میرے لیے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ سگریٹ نوشی میری روزمرہ کی عادت بن چکی تھی۔ اسے چھوڑنا بہت مشکل تھا، خاص طور پر جب میرے دوست بھی اس عادت کو ترک نہیں کر پائے تھے۔“

سمرتی راؤ بوسے کا تجربہ مختلف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”جب میں نے سگریٹ چھوڑنے کی کوشش کی، تو مجھے کسی قسم کی تڑپ اور خواہش کا سامنا نہیں ہوا۔ میرے لیے یہ آسان تھا، کیونکہ یہ فیصلہ میرا اپنا تھا۔“

نکوٹین کی خواہش کا عمل صرف جسمانی نہیں ہوتا ہے، بلکہ یہ ذہنی طور پر بھی چیلنج پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر گوسوامی کا کہنا ہے کہ ”یہ ایک ذہنی جنگ ہے، جہاں دماغ کو نکوٹین کے بغیر سکون ملنا شروع ہوتا ہے، مگر وہ فوراً معمول پر نہیں آتا۔“

سنکت بوسے کے مطابق، ”جب میں دباؤ محسوس کرتا تھا یا گھریلو مسائل ہوتے تھے، تو سگریٹ کی خواہش شدت اختیار کر جاتی تھی۔“

دوسری طرف، سمرتی نے بتایا کہ انہیں سگریت پینے کی زیادہ خواہش نہیں ہوتی تھی اس لیے وہ بہت جلد اس سے آزاد ہوگئیں۔

ڈاکٹر گو سوامی نے اس بات کو اجاگر کیا کہ یہ عادت ہی سب سے بڑا ٹریگر بن گئی تھی: ”جب مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اپنے جسم کو نقصان پہنچا رہا ہوں، تو میں نے اس عادت کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔“

سمرتی راؤ بوسے نے کہا، ”جو لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں، وہ آپ کو اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد نہیں دے سکتے، یہ نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے۔“

ہر شخص نے سگریٹ نوشی سے چھٹکارا پانے لے لیے مختلف حکمت عملیوں کا استعمال کیا۔ ڈاکٹر گو سوامی نے کہا، ”ایک صحت کا مسئلہ، جیسے کہ لنگ کی انفیکشن، نے مجھے سگریٹ چھوڑنے پر مجبور کیا۔“

سئکت بوسے نے ماحول میں تبدیلی کو اہمیت دی۔ ”میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں سگریٹ نہیں رکھوں گا، اور یہی میری مددگار حکمت عملی تھی۔“

سمرتی کا کہنا تھا کہ ”یہ اندر سے آنا ضروری ہے، جب آپ خود تیار ہوں تو ہی آپ اس عادت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔“

اگر آپ 2026 میں سگریٹ چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ان سابقہ سگریٹ نوشیوں کے مشورے آپ کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں:

ڈاکٹر گو سوامی کا مشورہ ہے: ”سگریٹ نہ خریدنا آپ کی کامیابی کے لیے بہت اہم ہے۔“

ائکت بوسے کہتے ہیں: ”اگر آپ کی صحت اور پیسہ دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہو، تو اس عادت کو چھوڑنا ضروری ہے۔“

سمرتی کا کہنا ہے: ”یہ فیصلہ اندر سے آنا چاہیے، جب آپ خود تیار ہوں گے تو ہی آپ اس پر قابو پا سکتے ہیں۔“

یہ کہانیاں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ سگریٹ نوشی ترک کرنا ایک ذاتی سفر ہے جس میں خود آگاہی، عزم اور برداشت کا عمل ہوتا ہے۔

یاد رکھیں، سگریٹ نوشی چھوڑنا ممکن ہے اور ہر کوشش آپ کو آخر کامیابی کے قریب لے ہی آتی ہے۔

Read Comments