ایرانی وزیرخارجہ نے اسرائیل کے ایک اور حملے کا خدشہ ظاہر کردیا
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اسرائیل کی جانب سے ایک اور ممکنہ حملے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اتوار کو میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عباس عراقچی کا کہنا تھا کہ ایران جنگ کا خیرمقدم نہیں کرتا، لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم پوری طرح دفاع کے لیے تیارہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگ سے بچاؤ کا بہترین راستہ یہی ہے کہ اس کے لیے مکمل تیاری رکھی جائے۔
عباس عراقچی کے مطابق ایران ماضی کی جارحیت کے نقصانات کا ازالہ کر چکا ہے اور اگر کوئی فریق ماضی کا ناکام تجربہ دہرانا چاہتا ہے تو اسے کوئی بہتر نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔
اسی تناظر میں اتوار کو امریکی میڈیا نے بھی رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو آئندہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ایران پر حملے کے معاملے پر بات کر سکتے ہیں۔
امریکی نیوز چینل این بی سی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیل نے ایران پر ایک بار پھر حملے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم 29 دسمبر کو واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے اور اس دوران ایران پر ممکنہ حملوں سے متعلق اہم بریفنگ دیے جانے کا امکان ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں اسرائیلی وزیراعظم صدر ٹرمپ کو ایران کی موجودہ سرگرمیوں، خاص طور پر جوہری تنصیبات کی دوبارہ تعمیر اور میزائل پروگرام میں توسیع سے آگاہ کریں گے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران تیزی سے اپنی جوہری تنصیبات بحال کر رہا ہے اور اپنے میزائل پروگرام کو وسعت دے رہا ہے، جو اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق ایران ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کے نتیجے میں وہ جلد ہی ماہانہ بنیادوں پر ہزاروں میزائل تیار کرنے کی پوزیشن میں آ سکتا ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ایران کی یہ صلاحیت خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ سکتی ہے اور اسرائیل کے لیے براہِ راست خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متوقع ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیراعظم ایران کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائیوں کے حوالے سے امریکی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کریں گے، جبکہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے بڑھتے ہوئے عسکری اور جوہری پروگرام کو فوری اور سنجیدہ خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔
این بی سی کے مطابق صدر ٹرمپ نے 29 دسمبر کی ملاقات کے حوالے سے کہا ہے کہ ملاقات باضابطہ طور پر طے نہیں ہوئی، تاہم اسرائیلی حکام نے اس تاریخ کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ اقوامِ متحدہ میں ایرانی مشن نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اور ایرانی حکومت نے امریکی مؤقف کی تصدیق کی ہے کہ جون میں کیے گئے آپریشن مڈنائٹ ہیمر کے نتیجے میں ایران کی جوہری صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے جوہری یا میزائل پروگرام بحال کرنے کی کوشش کی تو اسے دوبارہ نشانہ بنایا جائے گا۔
دوسری جانب غزہ میں اسرائیل کی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تین افراد شہید ہوگئے ہیں جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔
غزہ میں فائرنگ کے ایک واقعے میں ایک اور فلسطینی شہید ہوگیا۔ اسرائیلی بمباری سے غزہ شہر کے شیخ رضوان محلے میں ایک تین منزلہ عمارت کی چھت گر گئی، تاہم ملبے سے پانچ افراد کو زندہ نکال لیا گیا۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک بچے سمیت دو فلسطینی شہید ہوگئے۔
اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں 70 ہزار 669 فلسطینی شہید اور 71 ہزار 165 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ خطے میں کشیدگی اور غیر یقینی صورتحال بدستور برقرار ہے۔