اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2025 07:29pm

شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ گئیں، اسد دور کی جیلیں دوبارہ فعال

برطانوی خبر رساں ادارے (رائٹرز) کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ شام میں بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے باوجود بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پرانی جیلیں ایک بار پھر بھر رہی ہیں اور نئی حکومت کے دور میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔

رائٹرز کی ایک تفصیلی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شام میں سابق صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد جن بدنام زمانہ جیلوں کو خالی کر دیا گیا تھا، وہ ایک بار پھر قیدیوں سے بھرنے لگی ہیں۔ پورٹ کے مطابق صدر احمد الشراع کی قیادت میں قائم نئی حکومت کے دور میں سیکیورٹی بنیادوں پر گرفتاریاں دوبارہ معمول بنتی جا رہی ہیں۔

اسد کے زوال کے فوراً بعد قیدیوں کی رہائی اور جیلوں کے دروازے کھول دیے گئے تھے، تاہم جلد ہی گرفتار افراد کی نئی لہر شروع ہو گئی۔ ابتدا میں اسد حکومت سے وابستہ فوجی اہلکاروں کو حراست میں لیا گیا، اس کے بعد علوی، دروز اور دیگر اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی گرفتاریاں ہوئیں، جب کہ سنی اکثریت سے تعلق رکھنے والے شہری، انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافی بھی ان کارروائیوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کم از کم 28 ایسی جیلیں اور حراستی مراکز دوبارہ فعال ہو چکے ہیں جو اسد دور میں استعمال ہوتے تھے۔ ان مراکز میں بڑی تعداد میں افراد کو بغیر کسی باضابطہ الزام، عدالتی کارروائی یا شفاف ریکارڈ کے قید رکھا جا رہا ہے۔ متعدد خاندانوں نے بتایا کہ وہ مہینوں تک اپنے عزیزوں کے بارے میں کسی اطلاع سے محروم رہے۔

رائٹرز نے خاندانوں، سابق قیدیوں، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے بات چیت کے بعد کم از کم 829 افراد کی نشاندہی کی ہے جو اسد کے زوال کے بعد سیکیورٹی بنیادوں پر گرفتار کیے گئے۔ تاہم رپورٹ کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

متعدد خاندانوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ قیدیوں کی رہائی کے بدلے پیسے مانگے گئے، جب کہ کچھ افراد نے حراست کے دوران بدسلوکی اورغیر انسانی حالات کا سامنا کرنے کی شکایت بھی کی۔ رائٹرز کے مطابق کم از کم 11 افراد کی حراست کے دوران ہلاکت کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جن میں سے بعض خاندانوں کو اپنے عزیزوں کی موت کی اطلاع بہت دیر سے ملی۔

شامی وزارتِ اطلاعات نے رائٹرز کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سابقہ حکومت کے جرائم میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے اور بعض گرفتاریاں اسی عمل کا حصہ ہیں۔ وزارت کے مطابق ادارہ جاتی کمزوریوں کے باعث مسائل ضرور ہیں، تاہم اصلاحات اور احتساب کا عمل جاری ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بھی اسد کے زوال کے بعد شام میں من مانی گرفتاریاں، اغوا اور ماورائے عدالت کارروائیوں کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر حراستوں نے نئی حکومت کے اصلاحی دعوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

رائٹرز کے مطابق شام کی نئی قیادت کو ایک طرف ماضی کے جرائم کا احتساب کرنا ہے، تو دوسری جانب ایک مستحکم اور قانون پر مبنی نظام قائم کرنے کا چیلنج بھی درپیش ہے، جس میں اب تک خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔

Read Comments