نیتن یاہو ایران پر مزید حملوں کے لیے سرگرم، ٹرمپ کی ترجیحات نظر انداز
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اتوار کو امریکہ کے دورے پر روانہ ہوں گے جہاں ان کی ملاقات صدر ٹرمپ سے ہوگی جس میں وہ ایران کے خلاف مزید فوجی اقدامات پر زور دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون میں اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی تھی، تاہم ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو اب بھی مطمئن نہیں ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی حکام اور ان کے امریکی اتحادی ایک بار پھر ایران کے خلاف جنگی فضا بنا رہے ہیں اور یہ مؤقف اختیار کر رہے ہیں کہ تہران کے میزائلوں کا فوری طور پر سدباب کیا جانا چاہیے۔ اس بار نیتن یاہو کی توجہ ایران کے میزائل پروگرام پر مرکوز ہوگی۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ ایک اور تصادم صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ خارجہ پالیسی ترجیحات کے بالکل برعکس ہوگا۔
سینٹر فار انٹرنیشنل پالیسی کے تھنک ٹینک کے سینئر رکن سینا توسی کے مطابق جہاں ٹرمپ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان معاشی تعاون بڑھانے اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں، وہیں نیتن یاہو خطے میں فوجی بالادستی چاہتے ہیں۔
سینا توسی نے کہا کہ ایران کے خلاف مستقل امریکی مداخلت اور مسلسل جنگوں کی خواہش، جن کا مقصد ایرانی ریاست کو کمزور کرنا ہے، دراصل اسرائیل کی اس خواہش کی عکاسی کرتی ہے کہ خطے میں اس کی غیر چیلنج شدہ بالادستی، اجارہ داری اور توسیع پسندانہ عزائم قائم رہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہی نیتن یاہو کے اہداف کی جڑ ہے اور وہ امریکہ کو اسی سمت دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ایسا کرنے سے اسرائیل امریکہ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔
وہیں کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو نائب صدر ٹریٹا پارسی کے مطابق چونکہ ٹرمپ نے جوہری مسئلے کو درست یا غلط طور پر حل شدہ قرار دے دیا ہے، اس لیے اسرائیل دباؤ برقرار رکھنے کے لیے توجہ میزائل پروگرام کی طرف منتقل کر رہا ہے۔
ٹریٹا پارسی نے میڈیا کو بتایا کہ نیتن یاہو امریکہ کو ایک اور جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ٹرمپ جوہری مسئلے کو دوبارہ اٹھانے پر آمادہ نہیں ہیں اور وہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اس پروگرام کو ختم کردیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل مسلسل اہداف تبدیل کرتا رہے گا تاکہ ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں بدلا جا سکے۔
غزہ میں جنگ بندی کے بعد جس کی اسرائیل تقریباً روزانہ خلاف ورزی کر رہا ہے، صدر ٹرمپ خود کو امن کے داعی کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ انہوں نے تین ہزار سال میں پہلی بار مشرق وسطیٰ میں امن قائم کیا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ اب شراکت داری، دوستی اور سرمایہ کاری کا مرکز بن رہا ہے اور یہ خطہ اب امریکہ کی ترجیح نہیں رہا۔