اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2025 09:32am

روس یوکرین جنگ؛ امن معاہدے کے 95 فیصد قریب پہنچ گئے: ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والا امن معاہدہ تقریباً 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور اب صرف ایک یا دو نکات پر اتفاق باقی رہ گیا ہے۔

ٹرمپ نے فلوریڈا میں اپنے رہائش گاہ مار-اے-لاگو میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور یورپی ممالک کے رہنماؤں سے امن پر بات چیت شاندار رہی ہے اور مذاکرات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں امید ہے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کا جلد خاتمہ ہو جائے گا، تاہم کچھ پیچیدہ معاملات، خاص طور پر مشرقی یوکرین کے علاقے ڈونباس کے مستقبل سے متعلق نکات، ابھی طے ہونا باقی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آنے والے چند ہفتوں میں واضح ہو جائے گا کہ یہ مذاکرات کامیابی سے مکمل ہوتے ہیں یا نہیں۔

یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی امن عمل میں پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین امن کے لیے تیار ہے اور امریکی صدر سے جنگ بندی اور سیکیورٹی ضمانتوں پر مفید اور تعمیری بات چیت ہوئی ہے۔

زیلنسکی کے مطابق یوکرین کے لیے جنگ کے بعد مضبوط سیکیورٹی ضمانتیں مستقل امن کے حصول کی بنیادی شرط ہیں، اور اس حوالے سے اصولی اتفاق رائے ہو چکا ہے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ کسی بھی حتمی معاہدے کی منظوری یوکرین کی پارلیمنٹ یا عوامی ریفرنڈم سے لینا ضروری ہو گا۔

امریکی صدر نے اس موقع پر بتایا کہ یورپی ممالک مستقبل میں یوکرین کی سیکیورٹی ضمانتوں میں بڑا کردار ادا کریں گے، جبکہ امریکا اس عمل کی حمایت جاری رکھے گا۔

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بھی سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ سیکیورٹی ضمانتوں کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے اور یورپی ممالک کا ایک اتحاد جلد پیرس میں ملاقات کر کے عملی اقدامات کو حتمی شکل دے گا۔

ڈونباس کے علاقے پر اختلاف بدستور ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ روس اس پورے علاقے پر کنٹرول چاہتا ہے، جبکہ یوکرین موجودہ جنگی لائنوں کو منجمد کرنے کے حق میں ہے۔

امریکی صدر کے مطابق اس معاملے پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا، مگر بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔

امریکا نے ایک تجویز یہ بھی دی ہے کہ اگر یوکرین اس علاقے سے نکلتا ہے تو وہاں ایک آزاد معاشی زون قائم کیا جائے، تاہم اس منصوبے کی عملی شکل ابھی واضح نہیں۔

زیلنسکی کی ٹرمپ سے ملاقات سے قبل امریکی صدر اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان طویل ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا، جسے صدر ٹرمپ نے نتیجہ خیز قرار دیا۔

کریملن کے مطابق یہ گفتگو دوستانہ ماحول میں ہوئی، تاہم روس نے یورپی یونین اور یوکرین کی جانب سے تجویز کردہ 60 روزہ جنگ بندی کو جنگ کو طول دینے کا سبب قرار دیا ہے۔

روسی مؤقف ہے کہ ڈونباس کے معاملے پر مزید تاخیر کے بغیر فیصلہ ہونا چاہیے۔

صدر ٹرمپ نے بتایا کہ صدر پیوٹن نے یوکرین کی تعمیر نو میں مدد اور سستی توانائی فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس یوکرین کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے، جو بظاہر ایک غیر معمولی بات محسوس ہوتی ہے۔ اس دوران زیلنسکی نے خاموشی سے مسکراتے ہوئے امریکی صدر کی بات سنی۔

مذاکرات میں زاپوریزژیا جوہری پلانٹ کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، جس پر امریکا اور روس کے درمیان مشترکہ کنٹرول کی تجویز دی گئی ہے۔

عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق حالیہ مقامی جنگ بندی کے بعد وہاں بجلی کی لائنوں کی مرمت شروع ہو چکی ہے اور پلانٹ کو دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ روس 2014 میں کریمیا کے الحاق اور 2022 میں مکمل حملے کے بعد یوکرین کے بڑے حصے پر قابض ہو چکا ہے۔

حالیہ دنوں میں روسی حملوں کے نتیجے میں کیف سمیت کئی شہروں میں بجلی اور حرارت متاثر ہوئی، جنہیں زیلنسکی نے امن کوششوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش قرار دیا۔

تاہم امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ دونوں فریق سنجیدگی سے امن چاہتے ہیں۔

یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا فان ڈیر لیئن اور برطانیہ کے وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یوکرین کے لیے مضبوط اور قابلِ اعتماد سکیورٹی ضمانتیں انتہائی اہم ہیں اور اس جنگ کا جلد از جلد خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔

Read Comments