شائع 30 دسمبر 2025 08:49am

شیخ حسینہ کی ساتھی سے دشمنی تک: خالدہ ضیا کون تھیں؟

بیگم خالدہ ضیا بنگلہ دیش کی سیاست کی وہ قد آور شخصیت تھیں جن کا نام کئی دہائیوں تک اقتدار، مزاحمت اور شدید سیاسی کشمکش کے ساتھ جڑا رہا۔ وہ نہ صرف بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں بلکہ جنوبی ایشیا میں ان خواتین رہنماؤں میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے مردوں کے غلبے والی سیاست میں اپنی مضبوط شناخت قائم کی۔

خالدہ ضیا کی ابتدائی زندگی سیاست سے بہت دور تھی۔ وہ ایک سادہ، خاموش اور گھریلو خاتون کے طور پر جانی جاتی تھیں اور ان کی زندگی کا مرکز اپنے شوہر اور بچے تھے۔ تاہم 1981 میں ان کے شوہر، سابق صدر اور فوجی سربراہ ضیاء الرحمان کے قتل نے ان کی زندگی کا رخ یکسر بدل دیا۔ اس سانحے کے بعد وہ عملی سیاست میں آئیں اور چند ہی برسوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی قیادت سنبھال لی۔

پارٹی کی سربراہی سنبھالتے ہی خالدہ ضیا نے غربت کے خاتمے، معاشی بہتری اور جمہوری اقدار کو اپنی سیاست کا محور قرار دیا۔ 1990 میں انہوں نے شیخ حسینہ کے ساتھ مل کر فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف تحریک میں اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت بحال ہوئی۔ اگرچہ ابتدا میں دونوں رہنماؤں کا مقصد مشترک تھا، مگر اقتدار کی سیاست نے جلد ہی انہیں ایک دوسرے کا سخت ترین سیاسی حریف بنا دیا۔

1991 کے عام انتخابات خالدہ ضیا کے سیاسی سفر کا اہم موڑ ثابت ہوئے، جب انہوں نے غیر متوقع طور پر کامیابی حاصل کر کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ اس طرح وہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اپنے پہلے دور حکومت میں انہوں نے صدارتی نظام کا خاتمہ کر کے پارلیمانی نظام نافذ کیا، تعلیم کو عام کرنے کے لیے پرائمری تعلیم مفت اور لازمی بنائی اور معیشت کو سہارا دینے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی۔

اگرچہ وہ 1996 میں اقتدار سے باہر ہو گئیں، لیکن سیاست سے کنارہ کش نہ ہوئیں اور 2001 میں ایک بار پھر بڑی انتخابی کامیابی کے ساتھ اقتدار میں واپس آئیں۔ تاہم ان کا دوسرا دور حکومت تنازعات سے بھرپور رہا۔ اس عرصے میں شدت پسندی کے بڑھنے، بدعنوانی کے الزامات اور سیاسی عدم استحکام نے ان کی حکومت کو کمزور کیا۔

2004 میں شیخ حسینہ پر ہونے والے دستی بم حملے کے بعد سیاسی ماحول مزید تلخ ہو گیا اور اس واقعے کا الزام ان کی حکومت پر بھی آیا، جسے انہوں نے ہمیشہ سیاسی سازش قرار دیا۔

2006 میں سیاسی بحران کے دوران فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی خالدہ ضیا کا دوسرا دور اقتدار ختم ہو گیا۔

بعد کے برس ان کے لیے سب سے مشکل ثابت ہوئے۔ انہیں اور شیخ حسینہ دونوں کو بدعنوانی کے مقدمات میں گرفتار کیا گیا، تاہم 2008 کے انتخابات سے قبل رہائی ملی۔ اس کے بعد خالدہ ضیا دوبارہ اقتدار میں واپس نہ آ سکیں، مگر ان کی سیاسی موجودگی برقرار رہی۔

2018 میں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں سزا اور قید نے ان کی زندگی کو ایک اور کٹھن مرحلے میں داخل کر دیا۔ انہوں نے ان الزامات کو سیاسی انتقام قرار دیا۔ خراب صحت کے باعث انہیں بعد ازاں نظر بند کر دیا گیا اور طویل عرصے تک وہ شدید علالت کا شکار رہیں۔ 2024 میں انہیں رہائی ملی، جبکہ 2025 میں سپریم کورٹ نے انہیں اور ان کے صاحبزادے طارق رحمان کو ان مقدمات سے بری کر دیا۔

خالدہ ضیا کی صحت مسلسل بگڑتی رہی، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی طور پر متحرک رہنے کا عزم رکھتی تھیں اور انتخابات میں کردار ادا کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان کا انتقال 30 دسمبر 2025 کو 80 برس کی عمر میں ہوا اور یوں بنگلہ دیش کی سیاست کا ایک اہم اور متنازع مگر اثر انگیز دور اپنے اختتام کو پہنچا۔

ان کی زندگی جدوجہد، اقتدار، قید، سیاسی دشمنی اور استقامت کی علامت تھی۔ حامی انہیں ایک باوقار اور ثابت قدم رہنما کے طور پر یاد کرتے ہیں، جبکہ ناقدین ان کے دور حکومت کو تنازعات سے جوڑتے ہیں۔ اس کے باوجود اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ خالدہ ضیا نے بنگلہ دیش کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے اور ان کا نام ملکی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Read Comments