سندھ سولر انرجی منصوبے میں اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اقتصادی امور کے اجلاس کے دوران سندھ میں جاری سولر انرجی منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ سندھ میں 27 ارب روپے کے سولر انرجی پروجیکٹ میں اربوں روپے کی مالی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں، جن کے شواہد بھی موجود ہیں۔ حکام کے مطابق اس منصوبے کی دو مرتبہ انکوائری مکمل کی جا چکی ہے اور ہر سطح پر سنگین بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔
اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ یہ منصوبہ این جی اوز کے ذریعے شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد غریب اور مستحق افراد کو سولر پینلز فراہم کرنا تھا تاکہ وہ بجلی کے مسائل سے نجات حاصل کر سکیں۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں غریب عوام کے لیے مختص وسائل کا غلط استعمال کیا گیا۔ کمیٹی کے ارکان نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ غریب لوگوں کا پیسہ ہڑپ کرنا بڑا ظلم اور سنگین جرم ہے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے اجلاس میں بتایا کہ این جی اوز کا انتخاب بغیر کسی باقاعدہ ٹینڈر کے کیا گیا اور یہ عمل مخصوص افراد میں بندر بانٹ کے مترادف تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو سولر پینل مارکیٹ میں تقریباً 21 ہزار روپے میں دستیاب تھا، وہ اسی منصوبے کے تحت 60 ہزار روپے میں خریدا گیا۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے مطابق اپنی مرضی کے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے پورا منصوبہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ترتیب دیا گیا۔
کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس معاملے کی تحقیقات نیب، ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ ادارے بھی کر رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ ایک مثبت بات ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے خود اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔
اجلاس میں رکن کمیٹی روبینہ خالد نے کہا کہ کرپشن کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا المیہ ہے اور اس کے خلاف سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے زور دیا کہ اس منصوبے کے پیچھے موجود اصل سیاسی کرداروں کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبہ بندی کے پیچھے وہی شخص ہے جو ایک وقت میں وزیراعلیٰ بننے کا خواہاں بھی تھا۔
اجلاس کے اختتام پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اگلے اجلاس میں متعلقہ سیکرٹری کو مکمل ریکارڈ کے ساتھ دوبارہ طلب کیا جائے گا تاکہ اس معاملے کی مزید تفصیل سے جانچ کی جا سکے۔