2025: بنیان مرصوص سے عالمی سفارت تک
سال 2025 پاکستان کے لیے محض ایک کیلنڈر سال نہیں رہا بلکہ یہ وہ مرحلہ ثابت ہوا جس نے ملکی سیاست، دفاع، معیشت اور عالمی شناخت، سب کی نئی ترتیب طے کی ہے۔ اس سال کے واقعات نے ثابت کیا کہ ریاستوں کی طاقت صرف اعداد و شمار سے نہیں بلکہ بیانیے، حکمتِ عملی اور اعتماد سے بھی ماپی جاتی ہے۔
پاکستان نے 2025 میں جہاں غیر معمولی معاشی بحالی دکھائی، وہیں علاقائی سطح پر طاقت کے توازن کو متاثر بھی کیا۔ لیکن اس پورے سال کا مرکز وہ لمحہ تھا جب مئی میں پاک، بھارت جنگ نے اچانک خطے کو آتش دان کے کنارے لا کھڑا کیا تھا، مگر پاکستان کی حکمتِ عملی نے صورتِ حال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پہلگام واقعے کے بعد وہی پرانا نسخہ آزمایا، الزام تراشی، میڈیا پر شور اور جنگی جنون۔ ’آپریشن سندور‘ کے نام سے شروع کی گئی مہم درحقیقت داخلی سیاست کے دباؤ سے فرار کی ایک کوشش تھی لیکن حساب کتاب شاید یہیں غلط ہو گیا۔ پاکستان نے ردِعمل دینے کے بجائے منصوبہ بندی کی، ہدف کو بلند آواز میں نہیں بلکہ خاموشی سے متعین کیا۔
آپریشن سندور کے جواب میں آپریشن ’بنیان مرصوص‘ اسی حکمتِ عملی کی علامت بنا، ایک ایسا جوابی آپریشن جس نے چند ہی دنوں میں بھارت کے بیانیے کی بنیادیں متزلزل کر دیں۔ فضائی معرکوں میں تکنیکی برتری، دشمن کے اعتماد کو توڑنے والی درستگی اور محدود مگر فیصلہ کن طاقت کا استعمال۔ یہ سب کچھ اس انداز سے سامنے آیا کہ نئی دہلی کا جنگی غرور محض نعرے بن کر رہ گیا۔
مودی حکومت کے لیے یہ تجربہ سیاسی طور پر بھی بھاری ثابت ہوا۔ جارحانہ تقریریں، دعوے اور دھمکیاں اس وقت بے معنی دکھائی دیں جب عالمی میڈیا خود بھارتی بیانیے پر سوال اٹھاتا نظر آیا۔ پاکستان نے اس پوری صورتِ حال میں کامیابی سے ’زیادہ بولنے‘ کے بجائے ’زیادہ درست کرنے‘ کی حکمت اپنائی اور یہی فرق فیصلہ کن رہا۔
تین روز بعد ہی ہونے والی جنگ بندی نے بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر مضبوط کر دیا کہ خطے میں غیر ذمہ دارانہ جوش نہیں بلکہ حساب کتاب پر مبنی دفاعی سوچ اسلام آباد سے جڑی ہوئی ہے۔ اسی پس منظر میں فوجی قیادت کو ملنے والی پذیرائی بھی سمجھ آتی ہے۔ فیلڈ مارشل کا اعزاز، اور پھر دفاعی ڈھانچے میں کی گئی اصلاحات، ان سب نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان اپنی سلامتی پالیسی کو وقتی ردعمل کے بجائے ادارہ جاتی بنیادوں پر ترتیب دے رہا ہے۔
بھارت سے ہونے والی جنگ میں ایک بات یہ بھی نمایاں رہی کہ پاکستان نے طاقت کا مظاہرہ صرف میدانِ جنگ میں نہیں، سفارت کاری کے میز پر بھی دکھایا۔ امریکا سمیت کئی طاقتیں پاکستان کو اس سال ایک ”استحکام دینے والے ملک“ کے طور پر دیکھنے لگیں اور یہ تبدیلی اچانک نہیں بلکہ واقعات کے تسلسل میں پیدا ہوئی۔
معاشی محاذ پر بھی کہانی کم دلچسپ نہیں۔ ممکنہ ڈیفالٹ کے سائے سے نکل کر پاکستان نے 2025 میں اپنے معاشی اشاریوں کو کسی حد تک استحکام کی طرف موڑا۔ اسٹاک مارکیٹ نے غیر معمولی رفتار دکھائی، شرح سود میں کمی نے کاروباری ماحول کو نئی سانس دی جب کہ مہنگائی میں بظاہر معمولی کمی آئی اور سرمایہ کاری بھی کسی حد تک ہوتی رہی۔
کھیل، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی پاکستان نے کئی کامیابیاں سمیٹیں۔ چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی نے عالمی اعتماد لوٹایا، ارشد ندیم جیسے کھلاڑیوں نے ملک کا نام روشن کیا اور نوجوان نسل کو نئی مثالیں فراہم کیں۔ خلائی تحقیق میں ہونے والی پیش رفت اور سائنسی ایوارڈز نے بتایا کہ پاکستان صرف دفاعی یا سیاسی خبروں تک محدود ملک نہیں، یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں اگر مواقع میسر ہوں تو علم اور ٹیکنالوجی میں بھی نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔
عالمی سفارت کاری میں 2025 پاکستان کے لیے خاص رہا۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی متحرک سفارت کاری، تنازعات کے پرامن حل پر زور اور خودارادیت کے معاملات میں اصولی موقف، ان سب نے پاکستان کو محض ایک علاقائی ریاست کے بجائے ایک ذمہ دار عالمی فریق کے طور پر پیش کیا۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو خاموش ہوتی ہے مگر دیرپا اثر چھوڑتی ہے۔
اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ چیلنج ختم نہیں ہوئے۔ اندرونی سیاسی تقسیم، گورننس کے مسائل، اور معاشی ڈھانچے کی اصلاح جیسے امور بدستور اپنی جگہ موجود ہیں۔ مگر 2025 یہ ضرور بتا گیا کہ اگر ریاستی ادارے ایک سمت میں حرکت کریں تو بیانیہ بھی بدلتا ہے، اعتماد بھی لوٹتا ہے اور دنیا کا زاویہ نگاہ بھی تبدیل ہونے لگتا ہے۔
مئی کی جنگ سے لے کر سال کے اختتام تک پاکستان نے جو راستہ اختیار کیا، وہ جذباتی نہیں بلکہ حکمت اور صبر پر مبنی تھا۔ شاید یہی اس سال کا اصل سبق ہے کہ طاقت کا اصل استعمال شور میں نہیں، نظم میں ہوتا ہے۔
آپریشن بنیان مرصوص اسی نظم، اسی حساب کتاب اور اسی اعتماد کی علامت بن کر سامنے آیا اور 2025 پاکستان کی تاریخ میں یوں درج ہوا کہ یہ وہ سال تھا جب ریاست نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ دفاع، سفارت اور معیشت، سب تبھی مضبوط بنتے ہیں جب فیصلہ سازی سنجیدگی اور دور اندیشی کے ساتھ کی جائے۔
نوٹ: مصنف کی آرا سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔