اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2025 01:22pm

زکام کی نئی اور خطرناک قسم، اہم باتیں جاننا ضروری ہیں

امریکا میں انفلوئنزا کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور اس کی وجہ ایک نیا ویرینٹ ہے، جسے ”سب کلاڈ- کے“ بتایا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چھٹیوں کے دوران زیادہ سفر ہونے کی وجہ سے کیسز مزید بڑھ سکتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ نیا ویرینٹ پہلے برطانیہ، جاپان اور کینیڈا میں پھیل چکا ہے۔ امریکہ میں عام طور پر انفلوئنزا دسمبر میں زور پکڑتی ہے، اور سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق اب تک تقریباً 75 لاکھ لوگ انفلوئنزا کا شکار ہو چکے ہیں، 81 ہزار افراد ہسپتالوں میں داخل ہوئے اور 3,100 ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں آٹھ بچے بھی شامل ہیں۔

نیویارک میں 20 دسمبر تک 71 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جو سال 2004 کے بعد کسی بھی ہفتے میں سب سے زیادہ کیسز ہیں۔ بڑے عمر کے لوگ، حاملہ خواتین، چھوٹے بچے اور وہ لوگ جو دائمی بیماریوں میں مبتلا ہیں، زیادہ خطرے میں ہیں۔

’سب کلاڈ-کے‘ ایچ تھری این ٹُو قسم کا انفلوئنزا ویرینٹ ہے۔ یہ عام انفلوئنزا سے زیادہ تیزی سے پھیل سکتا ہے اور ویکسین لگوانے سے کچھ تحفظ ممکن ہے، لیکن یہ مکمل طور پر نیا وائرس نہیں ہے۔

سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) ہر 6 ماہ سے زیادہ عمر کے فرد کو ویکسین لگانے کا مشورہ دیتا ہے۔ ویکسین نہ صرف انفلوئنزا سے بچاتی ہے بلکہ بیماری شدید ہونے کے خطرے کو بھی کم کرتی ہے۔ ’فلو مِسٹ‘ ایک فلو ویکسین ہے جو’نیزل اسپرے‘ کی صورت میں دستیاب ہے جو انفلوئنزا وائرس کے خلاف آپ کے جسم میں مدافعتی نظام مضبوط کرتا ہے۔

انفلوئنزا کی علامات ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر سے رابطہ کریں، کیونکہ کچھ دوائیں بیماری کے شروع میں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔ ویکسین لگوانا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔

Read Comments