اب عشق کے اصول ہیں آساں بہت
تحریر: مہدی قاضی
اب عشق کے اصول ہیں آساں بہت
وہ قیمت ِ اقرار تھی جو گر گئی
شہریار ابرار انصاری اور سعدشکیل دہلوی میرے ہردلعزیز رفقاء ہیں اور شاید دنیا میں ان دو کی وہ واحد جوڑی ہوگی کو کبھی کبھار میرے لکھے اشعار کو موضوعِ بحث بناتی ہو۔ اور اتفاق کی بات یہ ہے کافی حد تک شعر کی تشریح وہ کرتے ہیں جو دراصل میرے کہنے کا مقصد ہوتا ہے۔
درج بالا شعر بھی ان ہی خوش قسمت اشعار میں سے ہے جس پر صاحبان نے وقت صرف کیااور خوب رائے قائم کی۔ حضرات کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اب عشق کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے اور اس کا سبب زندگی میں مہیا ہونے والی آسانیاں ہیں۔ نہایت شائستہ مگر افسوس ناک بات ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچا جائے تواس بات سے اتفاق کیے بنا نہ رہ سکیں گے کہ عشق سے متعلق یا اس سے منسوب جتنے بھی مراحل ہیں باآسانی طے پا جاتے ہیں آج کل۔ جس ماحول میں عشق ہوتا ہے وہ بھی مہیا ہے،جن زرائع سے ہوتا ہے وہ بھی جدید ہیں اور جس سے ہوتا ہی وہ بھی میسر ہیں۔ اس ہی لیے یہ جذبہ آسانی سے پنپتا بھی ہے اور پھر آسانی سے کھٹکنے بھی لگ جاتا ہے، کیونکہ اسکی مثال پپیتے اور سفیدے کے درخت کی سی ہے جن کی چڑھان بہت تیز ہوتی ہے مگر انکے تنے اتنے ہی نازک ہوتے ہیں۔
آسانی کی ایک مثال یہ بھی لے لیجئے کہ ان معاملات میں زبان کا اعتبار بھی بخوبی کر لیا جاتا ہے ،جو جتنا بڑا رقہ کسی کی محبت میں لکھتا ہے اسکے اندر اتنی ہی محبت سمجھی جاتی ہے۔ اجی ہم تو یہ سنتے آئے تھے خوشی ہو یا غم گویااحساسات کا الفاظ میں بیان ممکن نہیں۔ مگر آج کل زرا معاملات مختلف ہیں۔ برابر میں بیٹھے محبوب کی زباں سے نکلی ایک سطر کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں اس لمبے چوڑے پیغام سے جس کی تشہیر کوچہ کوچہ کی گئی ہو۔ مطلب صاف ظاہر ہے آپ میں ایک بات گھما گھما کر کرنے کا فن ہوتو آپ سے زیادہ محبت کرنے والا دنیا میں کوئی نہ ہوگا۔
ظاہر یہ ہوا کہ لفاظی ہماری محبت کا منہ بولتا ثبوت بن سکتی ہے۔ مگر جو کچھ پڑھا اور جو کچھ سنا اس کا کیا کروں۔ ہم تو یہی پڑھتے آئے ہیں کہ کرنے والے کچھ کہا نہیں کرتے بلکہ عشق تو انکے عمل سے ظاہر ہو جایا کرتا ہے۔نہیں معلوم اس میں کتنی صداقت ہے مگر ونسنٹ وین گوف نے اپنے دوست کی خاطر اپنا کان کاٹ ڈالا تھا۔ اور شاید یہی اسکے اپنے دوست سے عشق کی پائیداری کی مثال بھی ہے جو میں اسکا حوالہ دے رہا ہوں۔میرے نذدیک بہترین عمل وہ ہو تا ہے جس کو لفظی طور پر جتایا نہ گیا ہو۔ کسی بھی چیز کی صداقت اس چیز کی از خود رفتگی سے پرکھ لی جاتی ہے۔ کیونکہ جہاں پر سوچ سمجھ آجائے وہاں سود و زیاں کے سوالات اٹھنے لگ جاتے ہیں اور جو سچے عشق میں گرفتار ہو اسے اپنے عمل سے نہ سود زیاں سروکار ہوتا ہے نہ اپنے عمل کے لیے مخصوص اوقات کا تعین کرتا ہے۔بس امتحان کی گھڑی جب اور جہاں آجائے امیدوار بلا جھجک میدان میں اتر جائے۔ اصل امتحان در حقیقت ہوتا ہی وہی ہے جسکے ہونے کا علم نہ ہو اور اچانک ہو جائے۔ اسکی بہترین مثال موت ہے اور اگر موت کے بعد زندگی پر ایمان ہے تو یہ ہمارا اپنے رب سے عشق ہی تو ہے جو ہم روز رات کو سوتے ہیں اور روز صبح اٹھتے ہیں لیکن پھر بھی یہ خیال کرتے ہیں عزرائیل کسی وقت بھی آسکتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ پوری طرح نہیں مگر ہمارے معاملات زبانی کلامی ہو گئے ہیں۔ ایکشن اسپیکس لاوٴڈر دین ورڈز کہیے تو بہت بہتر ہوگا۔ لیکن بد قسمتی سے اب پہلے وعدے ہوتے ہیں اور پھر انکے نبھنے کا انتظار۔ انسان عمل ہی پہلے ایسا کرلے جو اسکے الفاظ بچالے۔ کیونکہ الفاظ کہہ کر اس کا بار اٹھانا نہایت مشکل جبکہ اس سے فرار اختیار کرنا انسان ہونے کی تذلیل ہے۔
نوٹ:وین گوف کے حوالے سے کئی روایات ہیں۔ یہ واقعہ ہو سکتا ہے حتمی نہ ہو۔
مذہبی اشخاص کا تذکرہ قصداً نہیں کیا گیا ۔

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔