مری: جہاں برفباری نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑلیا

مری ملک کا وہ واحد سیاحتی مقام ہے، جہاں سب سے زیادہ سیاح آتے ہیں۔ اس کا قدرتی حسن اور نظارے، سرسبز اور شاداب درخت، اونچے نیچےراستے، خوبصورت ہوٹل، کبابوں کا دھواں چھوڑتے ریستوران اور خاص طور پر سردیوں میں برفباری کے حسین مناظر نے سب کو اس کا دیوانہ بنا دیا ہے۔
ان دنوں سرد موسم میں پوری وادی برف میں ڈھکی ہوئی ہے۔ لمبے لمبے چیڑ کے درختوں پر برف، سڑکوں پر، عمارتوں کی چھتوں پر اور دور دور تک برف ہی برف ہے ۔ برفباری کے متوالے سیاح پورے ملک سے کوہ مری کا رخ کررہے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب اور اس میں بھی راولپنڈی اسلام آباد سے آنے والے سیاحوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگرچہ شدید برفباری میں سڑکیں تک برف کی سفید اور دلکش چادر اوڑھ لیتی ہیں اور سڑکوں سے برف کو ہٹانے کے کام کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ گاڑیاں برف پر پھسلنے لگتی ہیں اور بعض دفعہ خدشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کہیں گاڑیاں اپنے سواروں سمیت کسی گہری کھائی میں نہ جاگریں اور بعض دفعہ اس قسم کے حادثات لوگوں کی جانیں بھی لے لیتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی منچلے مری کا رخ کرتے ہیں۔
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ سڑکوں سے برف صاف کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں اور سیاحوں کو پوری پوری رات اپنی گاڑیوں میں سکڑتے سمٹتے گزارنی پڑتی ہے ۔ ایسے موسم میں ہوٹل والے اپنے کمروں کے کرایوں میں دس گنا تک اضافہ کردیتے ہیں۔ لیکن برف پوش مناظر اور برفباری سے لطفاندوز ہونے والے کسی بات کی فکر ہی نہیں کرتے ۔

کوہ مری میں اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کے آنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ پنڈی سے بہت قریب یعنی صرف 54کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور پنڈی سے مری پہنچنے میں بمشکل ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ یہ پرفضا مقام ضلع راولپنڈی کی تحصیل ہے۔ البتہ اس کا کچھ حصہ یعنی ایوبیہ وغیرہ خیبر پختونخواصوبے میں ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی ساڑھے سات ہزار فٹ ہے۔
1849ء میں پنجاب پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں کو کسی سرد مقام کی تلاش ہوئی تو مری کے قریب ایک جگہ منتخب کی گئی۔اس طرح 1851ء میں پہلی فوجی بیر ک تعمیر کی گئی۔ 1907تک پنڈی سے مری تانگوں پرسفرکیا جاتا تھا۔ جس میں دو دن صرف ہوتے تھے جبکہ اب وہاں جانے کے لئے ایک شاندار ایکسپریس وے ہے ۔مری برطانوی حکومت کا صوبہ پنجاب کا صدر مقام بھی رہا۔ایک عظیم الشان چرچ شہر کے مرکز کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیئے:گورکھ ہل: سندھ کا خوبصورت سیاحتی مقام
چرچ 1857میں تعمیر ہوا۔جس کے ساتھ شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جسے‘‘مال روڈ’’کہا جاتا ہے۔ جہاں بازار اور بڑی تعداد میں ہوٹل اور ریستوران ہیں۔ ان میں اب بھی انگریز دور کے بعض ریستوران ہیں۔ مال روڈ کے نیچے مری کے رہائشی علاقے اور بازار ہیں۔ 1947ء تک غیر یورپی افراد کا مال
روڈ پر آنا ممنوع تھا۔وہاں دسمبر، جنوری اور فروری سرد ترین مہینے ہیں۔ مری کا سیزن مئی سے شروع ہوتا ہے اور عموما ستمبر تک سیاح وہاں رہتے ہیں۔مری کی اک علیحدہ سی کشش ہے۔ یھاں پہنچ کر آپ فطرت کو اپنے قدموں تلے محصوص کرتے ہیں۔ یہاں سے آپ موسمِ گرما میں کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں کا نظارہ کر سکتے ہیں جبکہ بارشوں کے دنوں میں(جولائی سے اگست)بادلوں کے کھیل تماشے اور سورج کے غروب ہونے کا منظر تو روز ہی نظر آتا ہے۔ اس پہاڑی تفریح گاہ کے بعض حصے خصوصاًکشمیر پوائنٹ جنگلات سے بھرپور اور انتہائی خوبصورت ہیں۔
زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاًفیملیاں، طالبعلم، اور سیاح سینکڑوں میل دور جنوب میں لاھور، فیصل آباد اور کراچی سے یہاں گرمیاں اور سردیاں گزارنے آتے ہیں۔ آپ یہاں پہ سردیوں میں برفباری، اور بارش سے سارا سال محظوظ ہو سکتے ہیں۔
مری میں گرمیوں میں اُ گائے جانے والے مشہور پھلوں میں سیب، ناشپاتی اور خوبانی وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کو یہاں ہر جگہ پہاڑی لوگوں کی ثقافت دیکھنے کو ملے گی۔یہاں کے مقامی لوگ اِنتہائی خوش اَخلاق اور ملنسار ہیں۔
یہ بھی پڑھیئے: کیا واقعی دنیا ۲۰۰ سال بعد ختم ہوجائے گی ؟
مری میں خوبصورت مال روڈ پر ریستوران اور دکانوں میں گفٹ آئٹمز کی شاپنگ کے دوران کافی کی چسکیاں لینے کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ مال روڈ سے جنوب کی طرف تھوڑے فاصلے پر پنڈی پوائنٹ ہے۔جہاں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کاری براڈ کاسٹنگ اسٹیشن اورواپڈا دفتر قائم ہے۔ پنڈی پوائنٹ پرایک پرائیوٹ کمپنی کی چئیر لفٹ بھی ہے۔ جو پنڈی پوائنٹ سے بانسرہ گلی تک جانی ہے۔
مال روڈ کے ایک کنارے پر جی پی او کی خوبصورت عمارت ہے جبکہ دوسرے کنارے پر پنڈی پوائنٹ ہے۔ مال روڈ سے نیچے کی طرف مری کے رہائشی علاقے اور بازارقائم ہیں۔ یہاں خشک میوہ جات، ملبوسات اور آرائشی سامان کی دکانیں ہیں۔ جہاں ہر وقت خریداروں کا رش رہتا ہے۔
شبیر ابن عادل / مصنفمری میں درجنوں چھوٹے اور بڑے جدید طرز کے ہوٹل، آرٹس کونسل، کیڈٹ کالج وغیرہ موجود ہیں۔ آرٹس کونسل کے ہال میں اسٹیج ڈرامے بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ مری کے قریب مشہور اور جدید پی سی بھوربن ہوٹل موجود ہے۔ مری کے قریبی تفریحی مقامات میں گلیات، ایوبیہ، نیو مری، پتریاٹہ وغیرہ بھی قابل دید ہیں۔ مری میں قیام کے دوران سیاح صبح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور سارا دن وہاں گزار کر شام کو واپس مری آ جاتے ہیں۔ ٹیکسیوں کے علاوہ پک اپ میں فی سواری کرایہ ادا کرکے بھی ان علاقوں میں جانے کی سہولت موجود ہے۔
مری کے قریب نتھیا گلی، جھیکا گلی اورگھوڑا گلی و دیگر گلیات مشہور ہیں۔ گھوڑا گلی میں ہر سال گرمیوں میں بوائے اسکاؤٹس اور گرل گائیڈزکے الگ الگ تربیتی کیمپ لگتے ہیں اور وہ یہاں تقریباً ایک ہفتہ خیموں میں رہتے اور مختلف مہارتیں سیکھتے ہیں۔ یہاں سات پہاڑیاں ہیں جنہیں سیون سسٹرز کہا جاتا ہے۔ اسکاؤٹ کیمپ کے ساتھ ہی حضرت امام بریؒ کی چلہ گاہ اور چشمہ بھی موجود ہے۔
کشمیر پوائنٹ شہر سے شمال مشرق کی طرف واقع ہے۔یہ علاقہ پنڈی پوائنٹ کی نسبت زیادہ بلند ہے اور سردی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں سے آپ ہمالیہ کے
پہاڑی سلسلوں اور کشمیر کے پہاڑوں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
پتریاٹہ مری سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور سطح سمندر سے سات ہزار 335 فٹ بلند ہے۔ یہاں پر ایشیا کی بڑی چئر لفٹ بھی ہے۔ پتریاٹہ میں محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس ہے جو 1914میں تعمیر کیا گیا۔ پتریاٹہ میں بچوں کے لئے جھولے اور مزیدار کھانوں والے ریستوران ہیں۔
مری سے 14کلومیٹر کے فاصلے پر خیرہ گلی ہے جہاں قدیم طرز کی دکانوں پر مشتمل بازار ہے۔ جو سطح سمندر سے7268 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
چھانگلہ گلی مری سے 18کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور سطح سمندر سے 8329 فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہاں کا بڑا ہوٹل ڈیزی ڈاٹ کافی فاصلے سے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر مطلع صاف ہو تو یہاں سے راولپنڈی شہر بآسانی نظر آتا ہے۔
نتھیا گلی مری اور ایبٹ آباد کے بالکل درمیان میں واقع گلیات کا سب سے بلند تفریحی مقام ہے۔ اس کے بلندی 8500فٹ بلند ہے۔ جہاں ایک قدیم چرچ اور پانی کے دیوہیکل پیالے ہیں، یہ پیالے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں بارش کا پانی اور برف جمع کرکے صاف کی جاتی ہے اور صاف ستھرا پانی پورے مری اور گلیات کو فراہم کیا جاتا ہے۔
ایوبیہ اور پتریاٹہ جاتے ہوئے راستے میں آپ کو جگہ جگہ بندر دکھائی دیتے ہیں سیاح وہاں رک کر انہیں بھٹے اور دیگر خوراک ڈالتے ہیں اور ان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔
ملکہ کہسار مری کا حسن، دلکشی اور دلفریبی آپ کو بار بار وہاں آنے پر اکساتی ہے اور فطرت کے دلفریب مناظر آپ کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔