Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

پاک فضائیہ کے تاریخی معرکے۔۔۔

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا‘ تو پاک فضائیہ صرف 2332 افراد اور ...
اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2020 08:33am

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا‘ تو پاک فضائیہ صرف 2332 افراد اور 42 لڑاکا بمبار طیاروں پر مشتمل تھی۔ 23 جولائی 1957ء کو ائر مارشل اصغر خان پاک فضائیہ کے پہلے مقامی چیف مقرر ہوئے۔ ان کے دور میں پاک فضائیہ نے ترقی کی اور وہ ایک منظم فضائی قوت میں ڈھل گئی۔ جنگ ستمبر سے کچھ عرصہ قبل 23 جولائی 1965ء کو ائر مارشل نور خان نے پاک فضائیہ کی باگ دوڑ سنبھالی۔وہ بھی ایک عمدہ قائد ثابت ہوئے۔

جنگ کا آغاز

مقبوضہ کشمیر میں آباد لاکھوں مسلمان صدیوں سے غیر مسلم حکمرانوں کے مظالم سہ رہے تھے۔ پاکستان نے انہیں آزاد کرانے کی خاطر ایک خفیہ منصوبے ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ کا آغاز کیا۔24 جولائی 1965ء کو آزاد کشمیر سے ہزارہا رضا کار اور پاکستانی فوجی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو گئے۔ نیت نیک تھی مگر بووجوہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ماہ اگست کے اواخر میں بھارتی فوج نے آزاد کشمیر پر جوابی حملہ کر دیا۔ پاک فوج یکم ستمبر کی صبح 3 بجے اس منصوبے کے دوسرے مرحلے ’’آپریشن گرینڈ سلام‘‘ کا آغاز ہوا۔ مدعا اکھنور پر قبضہ کرنا تھا۔ یوں مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارتی فوج کارابطہ ہیڈ کوارٹر سے کٹ جاتا۔

انہی دنوں نور خان پاک فضائیہ میں ’’ریڈالرٹ‘‘ جاری کر چکے تھے۔ چناں چہ ائرفورس ہر خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار تھی۔ بھارتی اور پاکستانی پائلٹوں کا پہلا دو بدو مقابلہ بھی جلد آن پہنچا۔ پاک فوج نے اکھنور پر زبردست حملہ کیا تھا۔ وہا ں محصور بھارتی فوجی افسروں نے اپنی فضائیہ سے مدد مانگی لہٰذا جلد ہی بھارتی طیارے چھمب میں موجود پاکستانی توپوں اور مورچوں پر حملہ آور ہو گئے۔

اس وقت بھارتی فضائیہ 729 جنگی طیاروں پر مشتمل تھی جو برطانوی ‘ فرانسیسی یا روسی ساختہ تھے۔ ان میں لڑاکا مگ۔ 21(9) ‘ لڑاکا و بمبار ہاکر ہنٹر (160) ‘ بمبار انگلش الیکٹرک کینبرا(17)‘ لڑاکا فولینڈ نیٹ (80)‘ لڑاکا و بمبار دسولت مسٹیر (110) ‘ لڑاکا ویمپائر (200) اور لڑاکا و بمبار دسولت اوریگان (100) شامل تھے جسے بھارتیوں نے ’’طوفان‘‘ کانام دیا تھا۔یہ طیارے 28 سکوارڈنوں میں تقسیم تھے۔

درج بالا بھارتی جنگی طیاروں میں روسی مگ 21جدید ترین اور تیز رفتار تھے مگر بھارتی پائلٹ اسے چلانے کی تربیت نہیں رکھتے تھے‘ اسی لیے جنگ ستمبر میں بھارتیوں نے انہیں بہت کم استعمال کیا۔ دوسرے نمبر پر برطانوی ہاکر ہنٹر اور تیسرے پر فرانسیسی فولینڈ نیٹ (Folland Gnat) آتے۔ بھارتیوں نے انہی کو دوران جنگ زیادہ استعمال کیا۔

پاک فضائیہ کا جنگی بیڑا 230طیاروں پر مشتمل تھا۔ یہ سبھی امریکی ساختہ تھے۔ ان میں لڑکا ایف۔ 86سیبر (102)‘ لڑاکا ایف۔104‘ سٹارفائٹر(12) اور بمبار بی 57کینبرا(26) شامل تھے۔ ان میں ایف۔ 104اور ایف۔ 86‘ دونوں جنگی طیاروں کی جدید نسل میں شامل اور مگ 21و ہاکر ہنٹر کے ہم پلّہ تھے۔ انھیں 11 سکوارڈنوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

درج بالا اعداد و شمار سے عیاں ہے کہ طیاروں کی کثرت و جدت کے شعبوں میں بھارتی فضائیہ پاک ایئرفورس پر بہت زیادہ برتری رکھتی تھی۔ مگر جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ فتح کا دارومدار صرف عددی برتری پر نہیں ہوتا۔ جنگ ستمبر کے آغاز میں قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال پاک فضائیہ کے چیف‘ نور خان نے یہی حقیقت صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کچھ یوں بیان کی :

’’فضا میں برتری محض فضائی لڑائیوں سے نہیں ملتی‘ بہترین تربیت‘ حوصلہ اور سب سے بڑھ کر لڑنے کا بھرپور جذبہ جیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔‘‘

پہلا مجادلہ

آپریشن گرینڈ سلام کے کمانڈنگ آفیسر ‘ میجر جنرل اختر حسین ملک راوی ہیں: ’’ جب بھارتی گھیرے میں آ گئے‘ تو ان کے افسر نے ہیڈ کوارٹر سے کہا کہ جلد ’’وہسکی‘‘ بھجواؤ۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ہماری پوزیشنوں پر فضائی حملہ چاہتا ہے ۔ چناں چہ ہم نے بھی فوراً سرگودھا(ایئر بیس) سے رابطہ کر لیا۔‘‘

شام پانچ بجے ویمپائر طیارے ٹکڑیوں کی صورت پاکستانی پوزیشنوں پر حملہ آور ہوئے۔ جلد ہی سرگودھا سے دو ایف۔ 86 ان کا مقابلہ کرنے آ پہنچے۔ ان پر سکواڈرن لیڈر سرفراز احمد رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز احمد بھٹی سوار تھے۔ انہوںنے دیکھتے ہی دیکھتے چار ویمپائر مار گرائے‘ بقیہ فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ اس پہلی فضائی جیت نے دو اہم اثرات مرتب کیے۔ اول سبھی پاکستانی فوجیوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔ دوم بھارتی فضائیہ نے اپنے سارے ویمپائر اور ’’طوفانی‘‘ (دسولت اور یگان) گراؤنڈ کر دیئے‘ یعنی انہیں میدان جنگ میں نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ یوں پاک بھارت کے پہلے فضائی مجادلے میں پاکستانیوں کو عسکری و نفسیاتی لحاظ سے فتح حاصل ہوئی۔

پاک فضائیہ کے سرکاری اعداد و شمار کی رو سے جنگ ستمبر کے دوران شاہینوں نے ’’2380‘‘ بار اڑان بھری۔ ان میں سے 1303اڑانوں کا مقصد پاک وطن کی فضاؤں کا دفاع کرنا تھا۔ پاک بری یا بحری فوج کی مدد کے لیے پاکستانی پائلٹوں نے 547 دفعہ اڑان بھری۔ دن کے وقت دشمن پر100 جبکہ رات کو 165حملے کیے گئے۔ 148بار دشمن کی ریکی (جاسوسی) کرنے یا عسکری تنصیبات کی تصاویر اتارنے کے لیے پروازکی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ 2380اڑانوں میں سے ہر اڑان اپنی ایک منفرد تاریخ رکھتی ہے۔ ذیل میں بعض بڑے مقابلوں کی داستان پیش خدمت ہے۔

امرتسر۔واہگہ روڈ پر حملہ

پاک فضائیہ کا سکواڈرن 19 پشاور میں تعینات تھا۔ 6ستمبر کی صبح اس کے چھ ایف ۔86سیالکوٹ کی فضاؤں میں دفاعی مشن پر محو پرواز تھے۔ اسی دوران انہیں حکم ملا کہ دشمن نے لاہور پر حملہ کر دیا ہے‘ انہیں جا کر سبق سکھاؤ۔ چنانچہ سوا نو بجے پاکستانی شاہین امرتسر۔ واہگہ روڈ پر جا پہنچے۔

وہ سڑک بھارتی ٹینکوں‘ توپوں اور بکتر بند گاڑیوں سے بھری پڑی تھی۔بھارتی تیزی سے بی آر بی نہر کی سمت بڑھ رہے تھے تاکہ باٹا پور پل پار کر کے لاہور پہنچ جائیں۔ ادھر کثرت سے شکار دیکھ کر پاکستانی پائلٹوں کے منہ میںپانی بھر آیا ۔ ان کے طیارے راکٹوں سے لیس تھے۔ چنانچہ وہ اگلے بیس منٹ تک بھاری اسلحے پر تاک تاک کر راکٹ پھینکتے رہے۔ جب مشن تکمیل کو پہنچا تو فلک نے دیکھا، امرتسر۔ واہگہ روڈ پر کئی ٹینک اور توپیں جل رہی ہیں۔ یوں شاہینوں نے بھارتیوں کا بھاری اسلحہ تباہ کر کے شہر لاہور کو محفوظ و مامون بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد یہ پیش قدمی کرتے دشمن پہ پہلا باقاعدہ فضائی حملہ تھا۔اس فضائی ٹکڑی کے قائد سکوارڈن لیڈرسید سجاد حیدر تھے جبکہ دیگر پائلٹوں میں فلائٹ لیفٹیننٹ محمد اکبر،دلاور حسین، غنی اکبر اور فلائنگ آفیسر محمد ارشد چودھری اور خالد لطیف خان شامل تھے۔

اس وقت کے بھارتی وزیر دفاع‘ یشونت راؤ چاون نے جنگ ستمبر کی یاد داشتیں لکھی تھیں جو 2007ء میں بہ عنوان”1965 War – the Inside Story: Defence Ministers Diary of the India-Pakistan War” شائع ہوئیں۔ اس میں بھارتی وزیردفاع لکھتا ہے:’’شام کو لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ کمانڈر مغربی کمان اپنی جیپ پہ سوار ہو کر امرتسر۔ واہگہ روڈ پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ دشمن کا ہوائی حملہ سڑک پر قیامت مچا چکا ہے۔ کئی ٹینک و بکتر بند گاڑیاں تباہ ہو چکی تھیں۔ بہت سی گاڑیوں کے ڈرائیور فرار ہو گئے حتیٰ کہ چند بکتر بند گاڑیوں کے انجن ابھی تک چل رہے تھے۔‘‘

چھ کے مقابلے پہ ایک

3 ستمبر کی صبح سرگودھا سے دو ایف ۔86چھمب کی فضاؤں میںجا پہنچے اور دشمن کے مورچے تلاش کرنے لگے۔ ان پر فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف علی خان اور فلائنگ آفیسر عبدالخالق سوار تھے۔ بھارتی فضائیہ نے انہیں مار گرانے کی خاطر ایک چال چلی۔ وہ یہ کہ پہلے چار مسٹیر طیارے بھیجے ۔ پاکستانی طیارے ان کا مقابلہ کرنے کی خاطر بھارتی علاقے کے خاصے اندر چلے گئے۔ وہاں اچانک مسٹیر مقابلے سے منہ موڑ کر بھاگ گئے اور چار نیٹ نمودار ہوئے۔

اب ان کی ’’ڈاگ فائٹ‘‘ کا آغاز ہوا۔ بدقسمتی سے عبدالخالق کے طیارے میں ایندھن کی فاضل ٹینکیاں پھینکنے کا نظام خراب ہو گیا۔ چناںچہ یوسف نے انہیں واپس جانے کا کہا اور خود دلیری سے چار دشمنوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ وہ پھرتی سے دو نیٹ طیاروں کے پیچھے جا پہنچے۔ وہ ابھی نشانہ باندھ ہی رہے تھے کہ پیچھے سے دو اورنیٹ نموار ہوئے۔ انہوں نے فوراً پاکستانی طیارے پر فائرنگ کر دی۔

گولیاں لگنے سے یوسف علی کے طیارے کے پچھلے حصے کو شدید نقصان پہنچا اور وہ لرزنے لگا۔ تاہم وہ پوری مہارت وتجربہ استعما ل کر کے طیارے اڑاتے رہے۔ سون سیکسر میں واقع پاک فضائیہ کے ریڈار اسٹیشن پر بیٹھے فلائٹ لیفٹیننٹ فاروق حیدر پاکستانی پائلٹوں کو دشمن کی پوزیشن بتا رہے تھے۔ جب انہیں احساس ہوا کہ یوسف علی کی جان خطرے میں ہے‘توانہوںنے فوراً فلائنگ آفیسر عباس مرزا (بعدازاں ائروائس مارشل) کو حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھی کی مدد کو پہنچ جائیں۔

اس وقت عباس مرزاایف۔ 104پر سوار دفاعی مشن انجام دے رہے تھے۔ وہ فوراً میدان جنگ میں جا پہنچے۔ ایف۔ 104کی تیز رفتاری سے بھارتی پائلٹ خوفزدہ تھے۔ اسی لیے جیسے ہی وہ وہاں پہنچا‘ ایک بھارتی پائلٹ ،سکواڈران لیڈر برج پال سنگھ نے ریڈیو پہ چیخ کر پنجابی میں ساتھیوں سے کہا ’’پج اوئے … 104ای ی ی ی ی!‘‘(ارے بھاگو‘ 104آ گیا)۔

عباس مرزا ماخ دو (دو ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ) کی رفتار سے بھارتی طیاروں کے قریب سے گزرے تھے۔ اس ’’سپر سونک‘‘ رفتار ہی نے بھارتیوں کو اتنا خوفزدہ کر دیا کہ وہ یوسف علی کا پیچھا چھوڑ کر بھاگ اٹھے۔ برج پال کی بدقسمتی کہ گھبراہٹ میں اس نے اپنے نیٹ کا رخ پاکستان کی طرف کر دیا۔ اور جلد ہی اس کا ساتھیوں سے ریڈیائی رابطہ ٹوٹ گیا۔عباس مرزا ایف 104کی تیز رفتاری دکھاکر دشمن کو خوفزدہ کرنا چاہتے تھے اور وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔ انہوںنے دو چکر لگائے اور واپس سرگودھا چلے گئے۔ اسی دوران فاروق حیدر کی فرمائش پر ایک اور ایف۔ 104وہاں پہنچ گیا جسے حکیم اللہ خان (بعدازاں چیف پاک فضائیہ) اُڑا رہے تھے۔

حکیم اللہ نے دیکھا کہ ایک نیٹ عجیب و غریب ا نداز میں اڑ رہا ہے۔ کبھی وہ پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتا کبھی اس کا رخ بھارت کی سمت ہو جاتا۔ وہ اس کے سر پہ پہنچ گئے۔ برج پال سنگھ ہی یہ نیٹ اُڑا رہا تھا۔ اسے یہ گمان ہوا کہ دو ایف۔ 104اس کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ وہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور پسرور کے متروک رن وے پر جا اترا۔ برج پال سنگھ کو گرفتار کر لیا گیا۔اس کا بھارتی طیارہ آج ٹرافی کی صورت پاک فضائیہ کے عجائب گھر میں محفوظ ہے۔

اُدھر یوسف علی خان اپنے مضروب طیارے کو سرگودھا اتارنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ چاہتے تو پیرا شوٹ کھول سکتے تھے‘ مگر انہوںنے ایک ایف ۔86 کو تباہ ہوتا دیکھنا گوارا نہ کیا۔ یکا و تنہا چھ نیٹ طیاروں کا مقابلہ کرنے اور شاندار جذبہ حب الوطنی دکھانے پر انہیں تیسرے بڑے عسکری تمغے‘ ستارہ جرات سے نوازا گیا۔

بھارتی پائلٹ‘ فلائٹ لیفٹیننٹ ٹریور کیلور نے یوسف علی کے ایف ۔86 کو نشانہ بنایا تھا۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ پاکستانی طیارہ آگے کہیں گر کر تباہ ہو چکا ہوگا۔ اسی لیے انہوںنے پہلا ’’پاکستانی شکار‘‘ کرنے پر خوشیاں منائیں۔ حتیٰ کہ بھارتی حکومت نے کیلور کو تیسرا بڑا عسکری تحفہ‘ ویر چکر دے ڈالا مگر بعدازاں انکشاف ہوا کہ یوسف علی اپنا بری طرح زخمی طیارہ لیے سرگودھا پہنچ گئے تھے۔

پٹھان کوٹ پہ یلغار

دشمن کی فضائیہ عددی برتری رکھتی تھی ۔ اسی لیے پاک فضائیہ کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ بھارتی ایئرفورس کے اڈوں پر پیشگی حملے کیے جائیں تاکہ دشمن کے زیادہ سے زیادہ جنگی طیارے تباہ ہو سکیں۔6ستمبر کو صبح گیارہ بجے ائر مارشل نور خان نے منصوبے کی منظوری دی۔ اس کے مطابق بھارتی فضائیہ کے چار جنگی فضائی ا ڈوں … ہلواڑہ‘ پٹھان کوٹ‘ آدم پور اور جام پور کو نشانہ بنانا مقصود تھا۔ ساتھ ہی امرتسر‘ فیروز پور اور پور بندر(ریاست گجرات) پر واقع بھارتی فضائیہ کے ریڈار اسٹیشنوں پر بھی حملہ ہونا طے پایا۔ شام 5 بجے حملے کا وقت تھا۔ہر حملے میں آٹھ ایف۔86 اور دو ایف۔ 104 شریک ہوتے۔ ان میں سے ایف۔ 104 تو نگرانی کرتے تاکہ دشمن طیارے حملہ ہوں تو ان سے نپٹ سکیں۔ بقیہ آٹھ اپنے ہدف کو نشانہ بناتے۔

ان حملوں میں پٹھان کوٹ پر حملہ سب سے زیادہ کامیاب رہا۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ حملہ بھی اسی سکواڈرن 19نے کیا جو صبح واہگہ روڈ پہ میں بھارتی بھاری اسلحے کا قبرستان بنا چکاتھا۔لاہور میں بھارتیوں سے دو دو ہاتھ کرکے یہ فضائی بیڑا سرگودھا بیس پہنچا۔ وہاں اپنے طیاروں میں ایندھن بھروایا اور کچھ آرام کیا۔ پھر اپنے اصل مستقر، پشاور ایئربیس پہنچ گیا۔ جب شام کو بیڑا پٹھان کوٹ کی طرف اڑا، تو اس میں مظہر عباس اور عباس خٹک بھی شامل تھے۔ جبکہ محمد غلام تواب اور ارشد سمیع خان ایف۔ 104 پر سوار ان کے مددگار بنے ہوئے تھے۔

ریاست پنجاب میں جموں کی سرحد کے نزدیک واقع پٹھان کوٹ ایئربیس بھارتی فضائیہ کا بڑا جنگی اڈہ ہے۔ مگر وہ پشاور سے 200 میل دور تھا۔ اس لیے پاکستانی طیاروں کو فاضل ایندھن لینا پڑا اور گولہ بارود کی مقدار خود بخود کم ہوگئی۔ اب طیاروں کو صرف گولیوں کے ذریعے پٹھان کوٹ میں کھڑے بھارتی طیارے تباہ کرنے تھے۔ اور ان کا مشن بھی یہی تھا۔

اڑان سے قبل حملہ آور پاکستانی بیڑے کے کمانڈر، سید سجاد حیدر نے جیب سے خوشبو کی شیشی نکالی اور ساری پانی سے بھری بالٹی میں انڈیل دی۔ پھر چھوٹے چھوٹے سفید تولیے نکالے، انہیں پانی میں ڈبویا، ہر تولیہ اپنے نو ساتھیوں کو دیا اور مسکراتے ہوئے بولے ’’یہ ہماری زندگیوں کا آخری مشن ہوسکتا ہے۔ اس لیے جب ہم اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں، تو ہمیں خوشبو میں بسا ہونا چاہیے۔‘‘سبھی شاہینوں نے مسکراتے ہوئے تولیے لیے، جیبوں میں ڈالے اور پوری دلیری سے دشمن پر جھپٹنے کو تیار ہوگئے۔

جب انہوں نے پٹھان کوٹ پر حملہ کیا، تو وہاں ونگ کمانڈر، سبرامینم رگھاوند ران بھی موجود تھا۔ موصوف بعدازاں ایئر مارشل کے عہدے تک پہنچا اور بھارتی فضائیہ کا وائس چیف آف ایئر سٹاف مقرر ہوا۔ وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے :

’’پٹھان کوٹ میں دن بھر سکوارڈرن لیڈر پاکستانی فضائی جنگی اڈوں پر حملے کرنے کے منصوبے بناتے رہے، مگر عملی قدم ایک بھی نہ اٹھایا گیا۔ مجھے بہت تعجب ہوا۔ پھر ہمارے کمانڈر نے یہ تجویز دی کہ بھارتی مگ۔ 21 طیاروں کو سپرسونک رفتار سے پاکستانی اڈوں پر اڑایا جائے۔ ’’یوں پاکستانی خوفزدہ ہوجائیں گے اور ہم پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔‘‘ مجھے یہ تجویز احمقانہ و بچکانہ لگی۔بہرحال یہ تجویز قبول کرلی گئی۔ چنانچہ مگ، 21 کے پائلٹوں نے ہیلمٹ اٹھائے اور اپنے طیاروں کی سمت بڑھنے لگے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ طیاروں میں بیٹھتے، پاکستانیوں نے حملہ کردیا۔ (اس وقت شام کے پانچ بج کر آٹھ منٹ ہوئے تھے)

’’ہمارے بیس میں ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ ایف۔86 طیاروں سے نکلی گولیاں ہر طرف اڑ رہی تھیں۔ میں دیگر پائلٹوں کے ساتھ نزدیکی خندق کی طرف دوڑ پڑا۔ ہم سب وہاں ایک دوسرے پر لاشوں کی طرح ڈھیر ہوگئے۔ہم نے دیکھا کہ پاکستانی سیبر آتے، بیس پر کھڑے ہمارے طیاروں پر گولیاں برساتے اور چلے جاتے۔ لگ رہا تھا کہ وہ چاند ماری کی مشق میں مصروف ہیں۔ ہماری طیارہ شکن توپیں چل رہی تھیں مگر پاکستانیوں کو جیسے ان کی پروا ہی نہیں تھی۔‘‘

پاکستانی اپنے حملے میں محض گولیوں سے سات مگ ۔21، پانچ مسٹیر اور ایک ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔ نیز ایئرٹریفک کنٹرول بلڈنگ کو بھی نقصان پہنچایا ۔ اس حملے کے بعد بھارتیوں کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ مگ ۔21 سپرسونک رفتار پر اڑا کر پاکستانیوں کو خوفزدہ کرتے۔حملے میں شریک چھ پاکستانی پائلٹوں کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ عباس خٹک بعدازاں پاک فضائیہ کے چیف (1994ء تا 1997ء) مقرر ہوئے ۔جبکہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے محمد تواب بنگلہ دیشی فضائیہ کے دوسرے سربراہ بنے۔ ارشد سمیع خان ریٹائرڈ ہوکر نامور سفیر رہے۔

بدقسمتی سے 6 ستمبر کو دیگر بھارتی فضائی اڈوں پر حملے کامیاب ثابت نہیں ہوئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ سرگودھا میں ایک ساتھ کئی جنگی طیارے کھڑے ہوگئے جس نے خاصی بدنظمی کو جنم دیا۔یہی وجہ ہے، آدم پور اور ہلواڑہ پر منصوبہ بندی کے مطابق حملے نہیں ہوسکے۔ آدم پور ایئربیس پر سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم کی قیادت میں آٹھ ایف 86 نے حملہ آور ہونا تھا۔ یہ بیس ہوشیار پور کے نزدیک واقع ہے۔ مگر مشن پر صرف تین سیبر ہی جاسکے۔راہ میں چار ہنٹر طیاروں سے ان کا تصادم ہوگیا۔ ایم ایم عالم نے دو بھارتی طیارے مار گرائے جبکہ ان کے ساتھیوں، فلائٹ لیفٹیننٹ سعد حاتمی اور علاؤالدین ’’بُچ‘‘ نے بھی ایک ایک دشمن کا شکار کیا۔ تاہم وہ آدم پور پر دھاوا بولنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور واپس آگئے۔

اسی طرح ہلواڑہ پر بھی آٹھ ایف۔86 نے یلغار کرنا تھی، مگر صرف تین طیارے ہی جاسکے۔ یہ بیس لدھیانہ شہر کے نزدیک واقع ہے۔ جب پاکستانی تقریباً چھ بجے وہاں پہنچے، تو روشنی خاصی گھٹ چکی تھی، اسی واسطے ٹارگٹ نظرنہیں آئے۔ بہرحال وہ حملے کے لیے پرتول رہے تھے کہ بارہ ہنٹروں نے ان پر ہلہ بول دیا۔ٹیم کے قائد، سکوارڈن لیڈر سرفراز احمد رفیقی نے فائرنگ کرکے پہلا ہنٹر مار گرایا۔بدقسمتی سے پھر طیارے کی توپیں جام ہوگئیں۔ تب وہ چاہتے، تو واپس سرگودھا جاسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ساتھیوں سے الگ ہونا گوارا نہ کیا۔

سرفراز رفیقی نے مشن کی کمانڈ فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری کے حوالے کردی اور خودان کے عقب کی حفاظت کرنے لگے۔ اسی دوران ایک بھارتی ہنٹر نے رفیقی کے طیارے پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ چناں چہ ان کا طیارہ تباہ ہوگیا اور انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔میدان جنگ میں انتہائی دلیری سے ثابت قدم رہنے پر شہید رفیقی کو پاکستان کے دوسرے بڑے عسکری اعزاز، ہلال جرأت سے نوازا گیا۔

جس ہنٹر نے رفیقی کے جہاز پرحملہ کیا تھا، اسے سیسل چودھری نے مار گرایا۔ اس دوران ٹیم کے تیسرے ہوا باز فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن بھی دو ہنٹر شکار کرچکے تھے۔ مگر بقیہ ہنٹروں نے یونس کے طیارے کو گھیر کر نشانہ بنا لیا۔ یوں انہوں نے بھی جام شہادت نوش کیا اور وطن پر قربان ہوگئے۔ شہید یونس حسن کو ستارہ جرأت عطا کیا گیا۔

بھارتیوں کا سرگودھا پر دھاوا

اس زمانے میں سرگودھا ایئربیس پاک فضائیہ کا سب سے بڑا جنگی اڈا تھا۔ وہاں چھ سکواڈرنوں کے اسّی سے زائد جنگی طیارے موجود تھے۔ گویا پاکستان ایئرفورس کی پچاس فیصد قوت سرگودھا میں جمع تھی۔ اسی لیے 7 ستمبر کی صبح سے بھارتی فضائیہ نے سرگودھا پر حملے شروع کردئیے۔ وہ وہاں موجود پاکستانی طیارے تباہ کرکے فضا میں اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتی تھی۔بھارتی فضائیہ جنگی طیاروں کا بڑا بیڑہ رکھتی تھی، اسی لیے اس نے مختلف اوقات میں ٹکڑیوں کی صورت جنگی طیارے سرگودھا بھیجے۔ صبح سے لے کر سہ پہر تک بھارتی طیارے وقفے وقفے سے سرگودھا ایئربیس پر حملہ آور رہے، مگر شاہینوں نے کامیابی سے دفاع کرکے دشمن کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ اسی لیے پاکستان میں 7 ستمبر کو ’’یوم فضائیہ‘‘ تز ک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔

اس دن کئی معرکتہ آلارا دوبدو مقابلے دیکھنے کو ملے۔ اہم ترین مقابلے کے ہیرو ایم ایم عالم قرار پائے۔ ہوا یہ کہ صبح چھ بجے کے قریب چھ ہنٹر طیاروں نے سرگودھا بیس پر حملہ کیا۔ دفاعی مشن پر محو پرواز ایم ایم عالم اور ان کے ساتھی فلائنگ آفیسر، مسعود اختر نے ان کی راہ روک لی ۔

دریائے چناب کے تاریخی علاقے کی فضاؤں میں دوبدو مقابلہ ہوا۔ عالم کا ایف۔86 آگے تھا۔ انہوں نے ایک ہنٹر پر میزائل دے مارا۔ اس پہ سکواڈرن لیڈر اور نکار ناتھ سوار تھا۔ وہ طیارہ تباہ ہونے سے قبل باہر نکل گیا اور برج لال نامی پاکستانی دیہہ جا اترا۔ وہاں دیہاتوں نے اسے پکڑ کر پاک فوج کے حوالے کردیا۔چند لمحوں بعد عالم بقیہ چار ہنٹر طیاروں کے پیچھے پہنچ گئے۔ وہ ہنٹر کونجوں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے اڑے چلے جارہے تھے۔ عالم نے اپنے طیارے کی چھ گنوں کے دہانے ان پر کھول دیئے اور تیس سیکنڈ میں ایک ایک کرکے چاروں کو مار گرایا۔ یوں انہوں نے تقریباً ایک منٹ میں پانچ طیارے مار گرانے کا منفرد ریکارڈ قائم کردیا۔

جیٹ طیارں کا دور شروع ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی پائلٹ نے ایک دن میں دشمن کے پانچ طیارے اور وہ بھی ساٹھ سیکنڈ کے اندر اندر تباہ کردیئے۔ ایم ایم عالم کا قائم کردہ یہ ریکارڈ آج تک کوئی پائلٹ نہیں توڑ سکا۔ زبردست شجاعت دکھانے پر انہیں ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔مرحوم ایم ایم عالم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ عالم اسلام اور ایشیا وافریقا سے تعلق رکھنے والے واحد’’ Ace in a day ‘‘ہیں…یعنی ایسے ’’طیّارِ بطل‘‘(Flying ace) جنھوں نے صرف ایک دن میں دشمن کے پانچ یا زیادہ طیارے مار گرائے۔ 7ستمبر کو کامیابی سے دفاع کرکے پاک فضائیہ نے اپنی برتری ثابت کردی۔ دوسری طرف بھارتی فضائیہ کا غرور خاک میں مل گیا اور پھر دوران جنگ وہ کبھی کھل کر پاکستانیوں کے سامنے نہیں آسکی۔

لاہور کی فضاؤں میں

19 ستمبر کی سہ پہر لاہوریوں نے پہلی بار پتنگوں کے بجائے بھارتی اور پاکستانی لڑاکا طیاروں کا پیچ پڑتے دیکھا۔ پاکستانی فضائی دستہ چار ایف۔86 پر مشتمل تھا۔ اس کی کمانڈ سکوارڈرن لیڈر، شربت علی چنگیزی کررہے تھے جبکہ بقیہ تین پر فلائٹ لیفٹیننٹ اظہار الحق ملک، سید نذیر احمد جیلانی اور امان اللہ خان سوار تھے۔یہ چاروں دفاعی مشن پہ لاہور کی فضاؤں میں محو پرواز تھے۔

اسی دوران چار بھارتی ہنٹر اور چار نیٹ لاہور کی طرف آنکلے۔ دشمن دگنا طاقت ور تھا مگر یہ حقیقت پاکستانی شاہینوں کو خوفزدہ نہیں کرسکی۔ انہوں نے بڑی مہارت اور دلیری سے دشمن کا سامنا کیا اور زبردست ڈاگ فائٹ کے ذریعے انہیں مار بھگایا۔ پاکستانی دستے نے دو ہنٹر مار گرائے۔ جبکہ ایک ایف۔86 کو نقصان پہنچا۔ وہ سرگودھا واپس جاتے ہوئے راستے میں تباہ ہوگیا۔ تاہم اس کے پائلٹ، اظہار الحق بروقت نکل جانے کی وجہ سے محفوظ رہے۔

لاہور کے علاوہ سیالکوٹ،قصور،سرگودھا اور دیگر سرحدی علاقوں میں بھی فریقین کی زوردار فضائی جھڑپیں ہوئیں۔ان مقامات پہ آباد پاکستانیوں نے چھتوں پہ چڑھ کر یا میدانوں سے یہ فضائی مجادلے دیکھے اور ہمیشہ یاد رہ جانے والے حیرت انگیز لمحات سے گذرے۔آخر کار 23 ستمبر کو جنگ اختتام پر پہنچی۔

حرف آخر

جیسا کہ پہلے بتایا گیا،بھارتی فضائیہ 729 جنگی طیارے لیے میدان میں اتری تھی۔جبکہ پاک فضائیہ کے پاس صرف 230طیارے موجود تھے۔مذید براں کارکردگی وجدت کے لحاظ سے دونوں ائر فورسز ہم پلّہ طیارے رکھتی تھیں۔اسی لیے جنگی مشینوں کی کثرت کے باعث بھارتی فضائیہ کو واضح برتری حاصل تھی۔مگر وہ دو خصوصیات سے محروم رہی…اول تجربے کار پائلٹ ،دوم پائلٹوں میں پایا جانے والا جوش وجذبہ!

بیشتر پاکستانی پچھلے کئی برس سے اپنے بیڑے میں شامل مشینی اڑن پنچھی اڑا رہے تھے۔وہ ان مشینوں کی رگ رگ سے واقف تھے۔بڑی پھرتی اور مہارت سے اپنے دیوہیکل طیاروں کو انگلیوں پہ نچاتے رہتے۔پھر دشمن کے حملے نے ان میں وطن سے الفت کا جذبہ سو اکر دیا۔چناں چہ تجربے اور لافانی جذبوں کا ملاپ ہوا ،تو دوآتشہ اثر نے جنم لیا۔اسی اثر نے پاک فضائیہ میں جنگی طیاروں کی کمی والی خرابی کو زائل کر ڈالا۔

دلچسپ بات یہ کہ دوران جنگ ایف۔104 سٹارفائٹربھی ڈراؤنا خواب بن کر بھارتی پائلٹوں کے اعصاب پر سوار رہا۔ ایف۔104 بے شک اس وقت جدید اور تیز رفتار طیارہ تھا۔مگر وہ خامیاں بھی رکھتا تھا۔بھارتیوں نے ان خامیوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ یہ حکمت عملی اپنائی کہ جیسے ہیایف۔104 فضا میں نمودار ہوتا،وہ میدان چھوڑ کر فرار ہوجاتے۔پاک فضائیہ نے بھی ان کے خوف سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایف۔104کو جارحانہ و دفاعی حملوں میں بطور تزویراتی (strategic)ہتھیار استعمال کیا۔

دو ممالک کی فضائی جنگ میں دیکھا جاتا ہے کہ کس فریق نے مخالف کے زیادہ جنگی طیارے تباہ کیے۔وہی فاتح قرار پاتا ہے۔پاک فضائیہ کا دعوی ہے کہ اس نے110 تا 113بھارتی طیارے تباہ کیے۔بھارتی فضائیہ اپنے 75طیارے برباد ہونے کی ہامی بھرتی ہے۔غیر جانب دار ماہرین کی رو سے بھی 60 تا 75بھارتی طیارے نیست ونابود ہوئے۔

دوسری طرف بھارتی فضائیہ 43 تا 73پاکستانی طیارے تباہ کرنے کی دعویدار ہے۔پاکستان ائر فورس کا کہنا ہے کہ اس کے19طیارے تباہ ہوئے۔جبکہ غیر جانب دار ماہرین یہ عدد ،20 بتاتے ہیں۔اگر صر ف غیر جانب دار ماہرین کے اعداد وشمار دیکھے جائیں،تو ان سے عیاں ہے کہ جنگ ستمبر 1965ء میں میدان پاک فضائیہ کے ہاتھ میں رہا۔اس نے کہیں زیادہ طاقتور دشمن کو دانت کھٹے کر دینے والا جواب دے کر سبھی سے داد پائی۔گویا 23 دن تک چلنے والا عظیم معرکہ شاہینوں نے جیت لیا۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div