Aaj News

ہفتہ, جولائ 27, 2024  
20 Muharram 1446  

سائفر کیس: چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کے خلاف کافی ناقابل تردید شواہد ہیں، تحریری فیصلہ

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا
اپ ڈیٹ 14 ستمبر 2023 06:47pm
فوٹو ــ فائل
فوٹو ــ فائل

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردی ہیں۔

سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں مسترد ہونے کا 7 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری ہوچکا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی مقدمے میں ایک کردار کے تحت نامزد ہیں، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف ناقابل تردید شواہد ان کا کیس سے لنک ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ریکارڈ کے مطابق ملزمان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 اور 9 اور ناقابل ضمانت دفعات کے جرم کے مرتکب ٹھہرے ہیں، ضمانتیں خارج کرنے کے لیے کافی مجرمانہ مواد ہے۔

فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے یہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا ٹاپ سیکرٹ کیس ہے، آئندہ سماعت پر غیر متعلقہ افراد پر دوران سماعت پابندی ہوگی۔

فیصلے کے مطابق عدالتی ہدایت کے باوجود پٹشنرز کی جانب سے سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا، میرٹ اور سرٹیفکیٹ دینے کے عدالتی آرڈر پر عمل نا کرنے کی وجہ سے ضمانت خارج کی جاتی ہے۔

عدالت نے اپنے آرڈر میں ایف آئی اے پراسیکیوٹرز کے دلائل لکھتے ہوئے کہا کہ ’پراسیکیوشن کے مطابق 161 کے بیانات کے مطابق عمران خان کی جانب سے سائفر کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنا ثابت ہے اور انہوں نے غیر متعلقہ افراد کے سامنے سائفر معلومات گھما پھرا کر شئیر کیں جس نے بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچایا اور پاکستان کی سیکیورٹی کو متاثرہ کیا‘۔

چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود اور اسدعمر کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت

اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں سائفر کیس میں نامزد چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی اور اسدعمر کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقارنقوی خصوصی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت شروع ہوئی تو ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف پیش کیا کہ ہم نے سپریم کورٹ جانا ہے، سماعت میں وقفہ کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب یہ لوگ مصروف ہوتے ہیں تو ہم عدالت میں موجود ہوتے ہیں، اور جب یہ فری ہوں گے تو اس وقت ہم ہائیکورٹ میں مصروف ہوں گے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ پروسیکویشن فری ہوگی تو جوڈیشل کمپلیکس پہنچ جائےگی۔

عدالت نے پراسیکیوٹر ذوالفقار کی سماعت میں وقفے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی وکلا کو درخواست ضمانت پر دلائل دینے کی ہدایت جاری کردی، اور ضمانتوں کی درخواستوں پر دلائل کیلئے 10بج کر 15منٹ کا وقت مقرر کردیا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے آج اگر دلائل نہ بھی دیئے تو ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کردوں گا، آج ہر صورت اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے۔

پراسیکوشن ذوالفقار نقوی نے عدالت سے کہا کہ ملزم شامل تفتیش ہوتے ہیں، تفتیشی کسی کے پیچھے نہیں جاتے، یہ ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے، اگر یہ شامل تفتیش ہوتے تو ہوسکتا ہے یہ گناہ گار قرار دئیے جاتے۔

عدالت نے پراسیکوشن سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس موقع تھا تو آپ نے یہ کیوں نہیں کیا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی آر میں تو ان کا نام بھی واضح نہیں ہے، اسدعمر کی ضمانت کو الگ اور باقی 2 کا الگ فیصلہ کرنا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابراعوان نے پروسیکوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے بلائے تو میں آجاؤں گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر وکیل سلمان صفدر کے دلائل

خصوصی عدالت میں سائفر گمشدگی کیس میں قید چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت پر دلائل شروع ہوئے تو وکیل سلمان صدر نے مؤقف اختیار کیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر ذاتی مفادات حاصل کرنے کا الزام ہے۔

مزید پڑھیں: سائفر لیک ہونا بہت بڑا جرم، ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے، شہباز شریف

جج ابوالحسنات نے استفسار کیا کہ سائفر ہے کیا؟ اس پر ضرور بات کرنی ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کیلئے کوئی کام نہیں کیا، سائفر ہے کیا؟ بے شک کوڈڈ دستاویز ہوتا ہے جس میں کمیونیکیشن ہوتی ہے، سائفر ٹریننگ شدہ افراد کے پاس آتا ہے، اور اسے عام انسان نہیں پڑھ سکتا۔ سائفرکیس کا مدعی وزارت داخلہ کا افسرہے، وزارت داخلہ نے سایفرکیس ہائی جیک کیا، سائفرواشنگٹن سے بھیجاگیا ، وصولی وزارتِ خارجہ نے کی۔

جج ابوالحسنات نے وکیل سے دوبارہ استفسار کیا کہ وزارت خارجہ سائفر کی وصولی کرتا ہے، تو سائفر آیا اور کہاں گیا۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اعظم خان کا ذکر مقدمے میں ہے، کیا اعظم خان عدالت ہیں، کیا اعظم خان کی ضمانت منظور ہوئی، یہ پروسیکیوشن نے ثابت کرنا ہے کہ سائفر کا اصلی اور نقلی ورژن کیا تھا، کیس ثابت کرنا پروسیکیوشن کا کام ہے، سائفرکیس سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج ہوا، اور کمرہ عدالت میں موجود کوئی بھی 1923میں پیدا نہیں ہوا ہوگا، چیئرمین پی ٹی آئی نے71 سال کی عمرمیں جرم کی دنیا میں پاؤں رکھا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر انسدادِ منشیات کےجج نے بطورایڈمنسٹریٹیو جج سماعت کی، تو جج نے کہا یہ تو انسدادِ منشیات کی عدالت ہے، جس پر میں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر صرف منشیات کا کیس بنانا ہی رہ گیا ہے۔

سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کیس بہت خطرناک کیس بنایا گیا ہے، آج کسی کلبھوشن یادیو یا ابھی نندن کا کیس نہیں سنا جارہا، چیئرمین پی ٹی آئی کوئی جاسوس نہیں، بلکہ سابق وزیراعظم ہیں، ہمیں ایف آئی اے سے تو کوئی امید نہیں، صرف عدالت سے امید ہے۔

جج ابوالحسنات نے ریمارکس دیئے کہ 2 کیٹیگریزکی لسٹ ہے، بہت اہم بات کرنے لگا ہوں، سیکشن 5، سیکشن 3 لاگوہوتا ہے یا نہیں؟ سائفر کیس سب اس پر ہے، اگر جرم ثابت ہوتا تو سیکشن 3 اے لاگو ہوتی ہے، سائفر کے 4 نقول آتے ہیں، جن میں آرمی چیف اور وزیراعظم شامل ہوتے ہیں، سائفر وزارتِ خارجہ سے وزیراعظم کو ملا تھا، اب سائفر کہاں ہے، وزیر اعظم، ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف اور وزارت خارجہ کا سائفر ڈاکومنٹ الگ الگ ہوتا ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے مؤقف پیش کیا کہ جرم دشمن ملک سے حساس معلومات شئیر کرنا ہے، سیکرٹ ایکٹ تو لاگو ہی نہیں ہوتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر بابر اعوان کے دلائل

وکیل بابراعوان نے چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ سائفر پر غیرمتعلقہ افراد کے ساتھ کمیونیکیشن ہوئی، سائفر وزارت خارجہ کے سیکرٹری کے پاس خصوصی طور پر ہوتا ہے، سائفر سیکرٹری وزیرخارجہ کے پاس موجود ہے، کیا سائفر چوری ہوا؟ کیا وزیرخارجہ کے سیکرٹری مدعی ہیں۔

بابراعوان نے مؤقف اختیار کیا کہ سائفر کیس کا مقدمہ تو وزیرخارجہ کو دائر کرنا بںتا ہے، سیکیورٹی اداروں میں سے کوئی بھی سائفر کیس کا مدعی نہیں، دائر مقدمے کے مطابق سائفراعظم خان کو دیا گیا جو نامزد یا گرفتارنہیں، اور پروسیکیوشن نے اعظم خان کیخلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی۔

بابراعوان نے مؤقف پیش کیا کہ وزارتِ خارجہ نے کابینہ میں سائفررکھا، ڈی سیل کرکے سیل کیا گیا، سائفر چوری کی کہانی من گھڑت ہے، میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔

جج ابوالحسنات نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ سائفردکھانا چاہتے ہیں۔ جج کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

بابر اعوان نے بھی مزاحیہ انداز میں جواب دیا کہ میں آپ کو ابوالسائفر دکھانا چاہتا ہوں۔ جس پر عدالت میں دوبارہ قہقہوں کی آواز گونجی۔

وکیل بابراعوان نے موبائل پر کمرہ عدالت میں ویڈیو دکھائی اور کہا کہ ایک سماعت کے دوران آپ نے کہا تھا کہ میں دلاورنہیں دلیر ہوں۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیے کہ دلاوراور دلیر2 مختلف معنی ہیں۔

وکیل شعیب شاہین کے دلائل

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ڈاکومنٹ وزارت خارجہ سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے پاس گیا، اور سننے میں آرہا ہے وہ ڈاکومنٹ گم ہو گیا وہ ڈاکومنٹ کہاں گیا۔

وکیل شعیب شاہین نے جواب دیا کہ ڈاکومنٹ وزارت خارجہ میں ہے، ڈاکومنٹ کی ذمہ داری پرنسپل سیکرٹری کی ہے۔

جج ابوالحسنات نے ریمارکس دیئے کہ ڈاکومنٹ میرے اسٹاف کے پاس بھی آتا ہے تو مجھے دیکھنا تو ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعظم کے پاس بڑی تعداد میں روزانہ فائلیں آتی ہیں، ذمہ داری وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی ہے۔ وزیراعظم آفس میں دستاویزات سنبھالنا وزیراعظم کا کام نہیں، پرنسپل سیکرٹری کا کام ہے۔

کیس کی بقیہ سماعت ان کیمرہ کردی گئی

عدالت نے دوپہر ایک بجے کے بعد باقی سماعت ان کیمرہ کر دی اور صحافیوں اور غیرمتعلقہ وکلا کو باہر نکال دیا گیا۔

جج کی جانب سے یہ حکم اسپیشل پراسیکوٹر شاہ خاور کے اس اعتراض پر دیا گیا کہ کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی وکلا کی بڑی تعداد موجود ہے اور وہ ویڈیوز بناتے ہیں۔

پراسیکوٹر نے مطالبہ کیا کہ غیرمتعلقہ افراد کو عدالت سے نکالا جائے یا ان سے حلف لیا جائے۔

پونے دو بجے کے قریب ان کیمرہ سماعت شروع ہوئی۔ اس دوران صحافیوں کو بھی باہر نکال دیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

خصوصی عدالت میں پراسیکیوٹرز شاہ خاور نے دلائل مکمل کرلئے، جس کے بعد خصوصی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

پراسیکیوٹرشاہ خاور کا کہنا ہے کہ محفوظ فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود کی درخواست ضمانت مسترد

وقفے کے بعد خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذوالقرنین نے محفوظ فیصلہ سنا دیا اور چیئرمین پی ٹی آئی ،شاہ محمود کی درخواستیں مسترد کردیں۔

گزشتہ روز کی سماعت

گزشتہ روز 13 ستمبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ ختم ہونے پر کیس کی سماعت کی، اس دوران ایف آئی اے کی خصوصی ٹیم بھی اسلام آباد سے اٹک جیل پہنچی۔

عمران خان کو جوڈیشل ریمانڈ ختم ہونے پر عدالت میں پیش کیا گیا جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کے 9 وکلاء بھی سماعت میں موجود تھے۔

عدالت نے عمران خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کردی۔

سائفر معاملہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ مارچ 2022 میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں انہوں نے سائفر کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔

سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا تھا۔

pti

imran khan

Asad Umer

Cypher case