خاتون بینک منیجر کو ہراساں کرنے کا الزام، انٹرن کو 5 لاکھ روپے جرمانہ
وفاقی محتسب انسداد ہراسیت نے سندھ بینک کی خاتون منیجر کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہونے پر انٹرن سعود الرحمان کو قصور وار قرار دے دیا، فوسپاہ نے انٹرن پر 5 لاکھ جرمانہ عائد کر دیا۔
ایک اہم فیصلے میں، جس نے یہ حقیقت اجاگر کی کہ ہراسانی کا تعلق صرف طاقت یا عہدے سے نہیں ہوتا، وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسیت نے ناہید صغیر بنام سعود الرحمٰن کیس میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے سے واضح ہو گیا ہے کہ اعلیٰ عہدے پر فائز افراد بھی ماتحتوں کی جانب سے ہراسانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ کیس ناہید صغیر بنام سعود الرحمٰن تھا۔ ناہید صغیر، جو سندھ بینک میں برانچ مینیجر ہیں، انہوں نے اپنے سابقہ انٹرن سعود الرحمان کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔ انٹرن شپ 2017 میں ہوئی تھی اور اس دوران سعود ان کے ماتحت کام کر رہا تھا۔
ناہید صغیر کے مطابق سعود نے انہیں بار بار تنگ کیا، ان کو نامناسب میسجز بھیجے، دفتر میں بلاوجہ آتا رہا اور ان پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی یہاں تک کہ انٹرن شپ کے ختم ہونے کے بعد بھی کئی سال تک انہیں ڈیجیٹل طریقوں سے ہراساں کرتا رہا اور بعد میں الٹا ناہید کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کی کوشش کی۔
عدالت نے تمام شواہد جیسے واٹس ایپ میسجز، ویڈیوز، گواہوں کے بیانات اور ایف آئی اے کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ ناہید صغیر کے حق میں دیا۔
رپورٹ میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ملزم جن فون نمبرز کے ذریعے پیغامات بھیجے تھے ، وہ سعود کے ہی تھے۔
سعود الرحمان کو قصوروار قرار دے کر فوسپاہ نے اس پر 5 لاکھ روپے جرمانہ کیا، جس میں سے 4 لاکھ 50 ہزار روپے ناہید صغیر کو بطور ہرجانہ دیے جائیں گے۔
یہ کیس اس بات کا ثبوت ہے کہ ہراسانی صرف سینئر افسر کی طرف سے نہیں ہوتی، بلکہ ماتحت افراد بھی یہ جرم کر سکتے ہیں، خواتین چاہے کسی بھی عہدے پر ہوں، وہ بھی ہراسانی کا شکار ہو سکتی ہیں، اسی لیے ایسے واقعات کے لیے مضبوط اور مؤثر قانون کا ہونا بہت ضروری ہے۔
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔