خیبرپختونخوا کی تاریخی جامعہ پشاور میں زوال، کیا اعلیٰ تعلیم کا مستقبل خطرے میں؟
پشاور کی تاریخی جامعہ پشاور میں اعلیٰ تعلیم کا گراف تیزی سے نیچے آنے لگا ہے۔ مختلف شعبوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے، جبکہ جدید علوم کے کئی پروگرامز میں گزشتہ پانچ سالوں سے کوئی ڈگری یافتہ سامنے نہیں آیا۔
خیبرپختونخوا کی تاریخی جامعہ پشاور میں اعلیٰ تعلیم کا گراف تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ 2020 میں پی ایچ ڈی میں 178 طلبہ زیر تعلیم تھے، جو 2025 میں کم ہو کر صرف 66 رہ گئے ہیں۔ جدید علوم کے شعبے خالی پڑے ہیں، اور مالی بحران نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق، 2020 میں پی ایچ ڈی کے 178 طلبہ زیر تعلیم تھے، جو 2025 تک کم ہو کر صرف 66 رہ گئے۔ اسی طرح 2022 میں اعلیٰ تعلیم کے طلبہ کی مجموعی تعداد 4,708 تھی، جو اب کم ہو کر صرف 4,081 رہ گئی ہے۔
زیادہ تر شعبوں میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے پروگرامز طلبہ سے خالی پڑے ہیں۔ شعبہ کمپیوٹر سائنس میں 2020 سے صرف ایک طالب علم زیر تعلیم ہے، جب کہ ڈیٹا سائنس، سافٹ ویئر انجینئرنگ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، فیشن ڈیزائننگ اور انٹیریئر ڈیزائن جیسے جدید شعبوں میں گزشتہ پانچ سال سے کوئی طالب علم ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل نہ کر سکا۔

روایتی اور اہم شعبوں کا حال بھی مختلف نہیں۔ پولیٹیکل سائنس، سائیکالوجی، اردو، ریجنل اسٹڈیز اور دیگر شعبوں میں بھی داخلوں کی شرح تشویشناک حد تک کم ہو چکی ہے۔ پشتو، فلسفہ اور ریجنل اسٹڈیز کے تمام پروگرامز اس وقت مکمل طور پر خالی ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق، اس زوال کی بڑی وجوہات میں صوبے میں جامعات کی بڑھتی ہوئی تعداد، اسکالرشپ میں کمی، اور فیسوں میں اضافہ شامل ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔
سابق مرکزی سیکرٹری جنرل فپواسا ڈاکٹر عزیر نے ”آج نیوز“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے جامعات کے لیے کوئی اسپیشل گرانٹ مختص نہیں کی، جس کی وجہ سے تعلیمی ادارے شدید مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فیسوں میں اضافہ، ریسرچ فنڈز کی عدم فراہمی اور اسکالرشپس کی کمی جیسے عوامل نے طلبہ کو اعلیٰ تعلیم سے دور کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت فوری اقدامات نہ کرے اور داخلے کے نظام میں لچک پیدا نہ کی جائے، تو ہائر ایجوکیشن کا رحجان مزید کم ہوتا جائے گا۔
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔