پاکستان کا دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی امداد کے لیے افغانستان کی سرحد کھولنے کا فیصلہ
تقریباً دو ماہ تک پاک افغان سرحدوں پر تجارتی آمدورفت بند رہنے کے بعد حکومتِ پاکستان نے افغانستان کے لیے انسانی امداد کے کنٹینرز کی کلیئرنس دوبارہ شروع کر دی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اکتوبر میں معمول کی تجارت بند ہونے کے بعد ٹرانزٹ ٹریڈ کی یہ پہلی محدود اور کنٹرولڈ بحالی ہے۔
حکومت نے 12 اکتوبر سے طورخم، غلام خان، خرلاچی اور انگور اڈہ سمیت اہم بارڈر پوائنٹس پر برآمدات، درآمدات اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی کلیئرنس مکمل طور پر روک دی تھی، جبکہ چمن بارڈر پر یہ پابندی 15 اکتوبر سے نافذ ہوئی۔ اس دوران سیکڑوں گاڑیاں سرحد کے دونوں جانب کھڑی رہیں۔
حالیہ پیش رفت کے مطابق حکومت نے ایف بی آر اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹرانزٹ ٹریڈ کو ایک باضابطہ خط جاری کیا ہے جس میں ہدایت دی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی تین ایجنسیوں کی انسانی امدادی کھیپ کو چمن اور طورخم کے راستے افغانستان جانے کی اجازت دی جائے۔
پہلے مرحلے میں 143 کنٹینرز کی کلیئرنس کی جائے گی جن میں عالمی خوراک پروگرام کے 67 کنٹینرز میں غذائی امداد، یونیسف کے 74 کنٹینرز میں بچوں کے لیے سامان اور یو این ایف پی اے کے دو کنٹینرز میں صحت اور فیملی ایڈ کا سامان شامل ہے۔
امریکہ میں پاکستانی نژاد نوجوان گرفتار، پولیس اسٹیشن پر حملے کی مبینہ منصوبہ بندی کا الزام
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امدادی کارگو تین مرحلوں میں آگے بڑھے گا۔ پہلے مرحلے میں خوراک، دوسرے میں ادویات اور طبی آلات اور تیسرے مرحلے میں تعلیمی خدمات کا سامان افغانستان بھیجا جائے گا۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی جانب سے مزید فہرستیں فراہم ہونے کے بعد اگلے مرحلے کی کھیپ بھیجنے کا عمل جاری رکھا جائے گا۔
ایف بی آر اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹرانزٹ ٹریڈ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے اور اے ٹی ٹی رولز کے مطابق ان کنٹینرز کی کلیئرنس اور آگے ترسیل کے لیے ضروری اقدامات کریں۔
خیال رہے کہ سیکڑوں ٹرک اب بھی سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں، جن میں سے 412 گاڑیاں چمن اور 83 طورخم پر اپنی باری کی منتظر ہیں۔
مالی سال 2024-25 میں پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی درآمدات ریکارڈ کیں، جن میں مجموعی طور پر 42 ہزار 959 کنٹینرز شامل تھے۔











