شام میں نئی حکومت کے خلاف بشارالاسد کے ارب پتی کزن کی خفیہ پلاننگ بے نقاب

سابق انٹیلی جنس چیف اور بشارالاسد کے ارب پتی کزن شام میں بغاوت بھڑکانے کے لیے متحرک ہیں، رائٹرز
اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2025 09:55am

روسی دارالحکومت ماسکو سے شام کے سابق انٹیلی جنس سربراہ کمال حسن اور بشارالاسد کے ارب پتی کزن رامی مخلوف ملک میں بغاوت بھڑکانے کے لیے شامی عسکری گروہوں کو فنڈنگ کر رہے ہیں۔ دونوں سابق طاقتور شخصیات نہ صرف مسلح گروہوں کی تشکیل میں مصروف ہیں بلکہ دونوں کے درمیان بشارالاسد دور کے آخری دنوں میں بنائے گئے 14 زیرِ زمین کمانڈ مراکز پر کنٹرول کے لیے بھی آمنے سامنے ہیں۔

رائٹرز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق بشارالاسد کے وہ قریبی ساتھی جو گزشتہ سال انکی حکومت کے خاتمے کے بعد شام سے فرار ہوئے، اب ماسکو سے کروڑوں ڈالر ان افراد تک پہنچا رہے ہیں جنہیں وہ ممکنہ باغی فورس کے طور پر دوبارہ منظم کرنا چاہتے ہیں۔

ان اقدامات کا مقصد نئے شامی صدر احمد الشرع کی حکومت کے خلاف تحریکیں کھڑی کرکے اپنے کھوئے ہوئے اثر و رسوخ کو بحال کرنا ہے۔


رپورٹ کے مطابق سابق صدر بشارالاسد خود ماسکو میں خاموشی کی زندگی گزار رہے ہیں، مگر انکے قریبی حلقوں میں شامل کئی طاقتور افراد، بشمول ان کے بھائی ماہر الاسد، اقتدار سے محرومی کو قبول نہیں کر پائے۔

سابق ملٹری انٹیلی جنس چیف میجر جنرل کمال حسن اور بشارالاسد کے بااثر کزن رامی مخلوف ساحلی شام اور لبنان میں اپنی اپنی ملیشیا بنانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔

یہ دونوں شخصیات علوی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں جنگجوؤں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مجموعی طور پر پچاس ہزار سے زائد جنگجوؤں کو مالی مدد دی جارہی ہے۔

AAJ News Whatsapp


ماہر الاسد بھی ماسکو میں موجود ہیں اور ہزاروں سابق فوجیوں پر اثرو رسوخ رکھتے ہیں، مگر اب تک انہوں نے کوئی براہِ راست حکم یا فنڈنگ نہیں کی۔ ان کا ایک بڑا ہدف ان جلاوطن رہنماؤں کے لیے وہ 14 خفیہ کمانڈ روم ہیں جو بشارالاسد کے دور کے آخر میں ساحلی علاقوں میں بنائے گئے تھے۔ ان کمروں میں اسلحہ، گولہ بارود اور دیگر آلات موجود ہیں۔

ماہرین کے مطابق اب یہ مقابلہ بشارالاسد کو خوش کرنے کے بجائے اسکے ممکنہ متبادل کی تلاش اور علوی برادری پر کنٹرول کے گرد گھوم رہا ہے۔ کمال حسن مسلسل کمانڈروں کو پیغامات بھیج رہے ہیں جن میں وہ اثر و رسوخ کے کھو جانے پر غصے کا اظہار اور شام کے ساحلی علاقوں پر اپنے مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

 شام کے سابق انٹیلی جنس سربراہ کمال حسن
شام کے سابق انٹیلی جنس سربراہ کمال حسن


دوسری جانب رامی مخلوف، جو کبھی شامی معیشت کے سب سے طاقتور فرد تھے، اب خود کو ایک مذہبی و ’مسیحائی‘ کردار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ وہ حتمی معرکے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آئیں گے۔

رامی مخلوف برسوں نظر بندی میں رہے اور اس دوران مذہبی رجحان اختیار کرلیا۔ اب وہ ماسکو کے ایک لگژری ہوٹل کی ایک منزل پر سخت سیکیورٹی میں رہائش پذیر ہیں اور سابق اتحادیوں کا پیسہ روس، لبنان اور متحدہ عرب امارات میں موجود نمائندے جنگجوؤں تک پہنچا رہے ہیں۔

 بشارالاسد کے ارب پتی کزن رامی مخلوف
بشارالاسد کے ارب پتی کزن رامی مخلوف


رائٹرز کے مطابق مخلوف نے اب تک کم از کم 60 لاکھ ڈالر تنخواہوں میں خرچ کیے ہیں جبکہ دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ کچھ گروہوں کو ماہانہ چند ڈالر ملتے ہیں۔ کئی مقامی کمانڈروں نے اعتراف کیا کہ وہ فنڈز کمال حسن اور رامی مخلوف، دونوں سے لیتے ہیں۔

اسی دوران شام کی نئی حکومت ان منصوبوں کا توڑ کرنے کے لیے سابق حکومت کے ایک اور اتحادی خالد الاحمد کو متحرک کر رہی ہے۔ وہ موجودہ صدر الشرع کے بچپن کے دوست ہیں اور ان کا کام علوی کمیونٹی کو یقین دلانا ہے کہ ان کا مستقبل نئی حکومت کے ساتھ ہے۔

شام کے ایک شہر تارتوس کے گورنر احمد الشامی نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ شام کی حکومت ان سازشوں سے آگاہ ہے اور انہیں غیر مؤثر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق زیرِ زمین کمانڈ مراکز موجود تو ہیں، مگر اب زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔


رپورٹ کے مطابق ممکنہ بغاوت اس مرحلے پر کمزور دکھائی دیتی ہے۔ حسن اور مخلوف ایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں، اور انہیں روس کی حمایت حاصل نہیں، اور بہت سے علوی جو اسد دور میں خود مشکلوں کا شکار رہے، دونوں رہنماؤں پر اعتماد نہیں کرتے۔

 شام کے عبوری صدر احمدالشرع کی امریکی صدر سے ملاقات کی تصویر
شام کے عبوری صدر احمدالشرع کی امریکی صدر سے ملاقات کی تصویر


مارچ میں ہونے والی ناکام بغاوت اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات نے شام میں کشیدگی میں مزید اضافہ کیا۔ اس دوران تقریباً 1500 علوی شہری مارے گئے، جبکہ ہزاروں لوگ بے روزگار اور عدم تحفظ کا شکار ہوئے۔ 25 نومبر کو حمص اور ساحلی شہروں میں بڑے پیمانے پر ہونے والے علوی احتجاج نے حکومت کو نئے چیلنجز سے دوچار کیا۔ ان مطالبات میں خواتین کی بازیابی، قیدیوں کی رہائی اور زیادہ علاقائی خودمختاری شامل تھی۔

اگرچہ ان مظاہروں میں حسن اور مخلوف کا ہاتھ نہیں تھا، مگر دونوں نے عوامی غصے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی۔


دستاویزات کے مطابق بشارالاسد کے حامیوں نے رواں سال کے آغاز میں 5,780 افراد پر مشتمل ایک نئی فورس بنانے کی کوشش کی تھی، جسے زیرِ زمین کمروں سے اسلحہ فراہم کیا جانا تھا۔ تاہم یہ منصوبہ عملی شکل نہ اختیار کر سکا۔

مارچ کی بغاوت کے بعد شام میں طاقت کی نئی جدوجہد میں کمال حسن اور مخلوف نے اپنے حلقے منظم کرنا شروع کیے۔ مخلوف نے خود کو ’ساحل کا بیٹا‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ اسے علویوں کی رہنمائی کے لیے ’الہٰی مشن‘ ملا ہے۔


مخلوف نے لبنان، روس اور یو اے ای میں موجود اپنے نمائندوں کے ذریعے رقوم منتقل کیں۔ ان کے مطابق ان کے 80 گروہوں میں 54 ہزار سے زیادہ جنگجو موجود ہیں۔ تاہم مقامی کمانڈروں نے بتایا کہ جنگجوؤں کی بڑی تعداد حقیقی جنگ کے لیے تیار نہیں۔

کمانڈ پوسٹوں کی کمزوری کے ساتھ ساتھ دونوں رہنماؤں کے درمیان شدید باہمی عدم اعتماد بھی اس منصوبے کو متاثر کر رہا ہے۔ حسن نے سائبر حملوں کے لیے ہیکرز بھرتی کیے جبکہ مخلوف پر معاشی بندشوں کے باعث مالی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں۔

دوسری طرف شامی حکومت نے حالیہ مہینوں میں مخلوف اور حسن سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ تارتوس کے گورنر کے مطابق ساحلی علاقوں میں ان کے عزائم ناکام بنانے کی بھرپور تیاری موجود ہے۔

فیلڈ کمانڈروں کے بقول اگرچہ اسلحہ موجود ہے مگر ابھی تک کوئی واضح فریق ظاہر نہیں ہوا جس کے لیے یہ قوت استعمال کی جائے۔ یوں شام کا ساحل ایک نئی مگر کمزور ہوتی بغاوت کے احتمال کی زد میں ہے، جبکہ ماسکو میں موجود دونوں سابق بااثر شخصیات اپنے اپنے وقت کا انتظار کر رہی ہیں۔

russia

Syria

Moscow

bashar al assad

syrian president

Kamal Hassan

Rami Makhlouf