طالبان حکومت کی جانب سے 11 افراد کو سرِعام کوڑے مارنے کی سزا
افغانستان میں طالبان حکومت کے زیرِ انتظام عدالتوں نے منشیات اور شراب کی فروخت و اسمگلنگ کے مقدمات میں کم از کم گیارہ افراد کو سرِعام کوڑے مارنے کی سزا دی ہے۔
طالبان کی سپریم کورٹ کی جانب سے پیر کو جاری بیان کے مطابق یہ سزائیں کابل کی پرائمری عدالت برائے انسدادِ منشیات نے سنائیں، ملزمان پر نشہ آور گولیوں، میتھ ایمفیٹامین، چرس اور شراب کی فروخت اور اسمگلنگ کے الزامات ثابت ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔
عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کو 10 سے 39 کوڑوں تک کی سزا سنائی گئی جبکہ ان پر سات ماہ سے تین سال تک قید کی سزا بھی عائد کی گئی۔ یہ سزائیں عوامی مقامات پر دی گئیں، جسے طالبان حکام اسلامی شریعت کے نفاذ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
میڈیا ادارے ’افغانستان انٹرنیشنل‘ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 دنوں کے دوران ملک بھر میں کم از کم 106 افراد کو، جن میں 13 خواتین بھی شامل ہیں، سرِعام کوڑے مارے گئے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یکم اگست سے 31 اکتوبر کے درمیان مختلف صوبوں میں کم از کم 215 افراد کو، بشمول 44 خواتین اور 171 مرد، جسمانی سزائیں دی گئیں۔
بعض مقامی رپورٹس میں گزشتہ چند ماہ کے دوران سزا پانے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے، تاہم ان اعداد و شمار میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
طالبان حکومت پر عالمی تنظیموں کی جانب سے مسلسل تنقید کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ سرِعام جسمانی سزائیں اور زیرِ حراست افراد کے ساتھ مبینہ بدسلوکی بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔
اس کے باوجود طالبان حکام کا موقف ہے کہ عدالتوں کی جانب سے دی جانے والی یہ سزائیں ان کے قانونی اور مذہبی نظام کے مطابق ہیں اور ان پر عمل درآمد جاری رہے گا۔













