Aaj Logo

شائع 15 نومبر 2022 03:50pm

ریکوڈک صدارتی ریفرنس: اسی قانون کا غلبہ ہو گا جو وفاق اور صوبائی سطح پر مماثل ہوں، جسٹس منیب

سپریم کورٹ میں ریکوڈک معاہدے پر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دٸیے کہ ریفرنس میں سپریم کورٹ کو صرف قانونی گزارشات پر رائے دینا ہوگی۔

دورانِ سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر معدنیات ایکٹ میں ترمیم سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے تو عدالت مداخلت کرے گی ، جبکہ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ قانون جادو کی طرح لاگو نہیں ہو جاتے۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ریکوڈک معاہدے پر صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ معدنیات ایکٹ 1948 کو 1973 کے آئین میں نہ وفاقی نہ ہی صوبائی قانون کی لسٹ میں شامل کیا گیا۔ معدنیات ایکٹ کی کچھ شقیں وفاق اور کچھ صوبوں کے اختیار میں چلی گئیں۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ کیا بیک وقت ایک قانون وفاق اور صوبے دونوں کے اختیار میں ہو گا؟

جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کیا حکومت معدنیات رولز میں ترامیم نہیں کر سکتی تھی؟ معدنیات ایکٹ 1948 میں ترامیم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ قانون جادو کی طرح لاگو نہیں ہو جاتے، اسی قانون کا غلبہ ہو گا جو وفاق اور صوبائی سطح پر مماثلت رکھتے ہوں گے۔

اس موقع پر بلوچستان حکومت کے وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ ریفرنس کے قابل سماعت ہونے پر فاضل بنچ نے سوال اٹھایا ہے۔ ریکوڈک معاہدہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے جس پر صدر ریفرنس بھیجنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات مبہم ہیں، ضروری نہیں کہ سوالات بلکل ٹھیک نکتے پر بنائے گئے ہوں۔ بھارتی سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ دلائل میں اٹھائے گئے نکتوں پر سپریم کورٹ رائے دے سکتی ہے۔

وکیل صلاح الدین احمد نے کہا بہتر یہی ہے کہ عدالت ایسی رائے سے گریز کرے جو تمام سرمایہ کاروں کی سہولت کاری کی وجہ ہو۔

عدالت نے کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کردی۔

Read Comments