Aaj Logo

شائع 10 جنوری 2024 10:57am

بنگلا دیش الیکشن عالمی برادری نے قبول کر لیا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی راہ ہموار

بنگلا دیش کے متنازعہ انتخابات امریکہ، یورپ اور روس سمیت عالمی برادری نے قبول کر لیے۔ اور اس فیصلے کے اثرات پاکستان کے انتخابات پر بھی مرتب ہونے کا امکان ہے۔

بنگلا دیش میں اتوار سات جنوری کو انتخابات کا اپوزیشن کی مرکزی جماعت بی این پی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ پولنگ کے روز حکمران عوامی لیگ کے مخالفین پر تشدد کے الزامات بھی سامنے ائے جبکہ پولنگ اسٹیشنوں میں ٹھپے لگانے کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں۔

خیال کے جا رہا تھا کہ ان متنازع انتخابات کے نتائج عالمی برادری کے لیے قابل قبول نہیں ہوں گے اور بنگلا دیش پر امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ یہ دونوں ہی بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برامدات کے بڑے خریدار ہیں۔

لیکن نتائج کا اعلان ہونے اور شیخ حسینہ واجد کی پانچویں مرتبہ جیت کی تصدیق کے بعد امریکا اور روس کی جانب سے جو رد عمل سامنے ایا اس نے پابندیوں کے امکانات ختم کر دیے۔

تازہ ترین رد عمل یورپی یونین کی جانب سے سامنے ایا ہے جو دیگر عالمی کھلاڑیوں کی نسبت زیادہ سخت ہے اس میں انتخابات کے دوران تشدد کی مذمت کی گئی ہے تاہم بنگلہ دیش کے ساتھ پارٹنرشپ جاری رکھنے کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

نومبر دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن پاکستان اور بنگلا دیش کے انتخابات پرعالمی مبصرین کی نظریں تھیں اور ان دونوں انتخابات کو دلچسپ قرار دیا جا رہا تھا۔

اپوزیشن کے بائیکاٹ کے سبب بنگلا دیش کے انتخابات عالمی میڈیا میں زیادہ موضوع بحث رہے بالخصوص اس وقت جب امریکہ نے بعض بنگلا دیشی عہدے داروں پر ویزا پابندیاں عائد کر دی اور یورپی یونین نے بھی ان انتخابات کے حوالے تشویش کا اظہار کیا۔

پاکستان میں الیکشن پر تاحال اس طرح کے سخت بیانات سامنے نہیں ائے اور نہ ہی کسی بڑی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے۔

بنگلا دیش: عوامی لیگ نے الیکشن جیت کر ریکارڈ قائم کردیا، شیخ حسینہ کی 8ویں فتح

دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلا دیش میں انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی نگراں پاکستانی وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے حسینہ واجد کو فی الفور مبارکباد بھیجی باوجود اس کے کہ حسینہ واجد پاکستان کی نسبت بھارت کے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہیں۔

بنگلا دیش کے انتخابات پر عالمی رد عمل کے بعد اگر پاکستان میں کسی کو بین الاقوامی تنقید کا خدشہ تھا بھی تو وہ ختم ہو گیا ہوگا۔

Read Comments