شائع 02 دسمبر 2025 11:18am

پاکستان کا نیا سیف سٹی کیمرا فیچر پرائیویسی کے لیے بھیانک خواب بن گیا

پنجاب حکومت نے حال ہی میں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کی پبلک سیفٹی ایپ میں ایک نیا فیچر متعارف کرایا ہے، جس نے عوام میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ اس اپ ڈیٹ کے ذریعے شہری اپنے موبائل فونز کو ایمرجنسی یا ہنگامی صورتِ حال میں سیف سٹی کنٹرول روم کے ساتھ براہِ راست ویڈیو اسٹریمنگ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

نجی ویب سائٹ پرو پاکستانی نے حکام کے حوالے سے کہا کہ اگر کوئی شہری ایمرجنسی ہیلپ لائن 15 پر کال کرتا ہے تو اسے ایک خصوصی لائیو فیڈ لنک فراہم کیا جاتا ہے، جس کے کھلتے ہی موبائل کیمرہ اُسی وقت فوری طور پر فوٹیج کنٹرول روم کو بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس فیچر کا مقصد ہنگامی صورتحال کی جلد تصدیق اور فوری مدد فراہم کرنا ہے، جو بظاہر جان بچانے والا اقدام ہو سکتا ہے۔ تاہم، ماہرین اور پرسنل پرائیویسی کے حامی افراد اس پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ یہ نظام کس حد تک شہریوں کی پرائیویسی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

’سڑکیں ٹوٹی پھوٹی، چالان یورپ والے‘: کراچی میں ای چالان پر عوام کا ردعمل

اس فیچر کے نفاذ سے بڑے پیمانے پر نگرانی کا امکان بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر ایسے ملک میں جہاں پہلے ہی ٹریفک اور دیگر سیکیورٹی کیمروں سے حاصل شدہ فوٹیج اکثر لیک یا آن لائن شیئر ہو چکی ہے۔

موبائل فون کو ”موبائل سیف سٹی کیمرہ“ بنانے سے نہ صرف ویڈیو یا فوٹیج بغیر قانونی اجازت یا شہری کی رضامندی کے کسی اور کے ساتھ شیئر یا پھیلائی جا سکتی ہے۔ جس میں اسے آن لائن پوسٹ کرنا، کسی کو بیچنا، یا دوسروں کے لیے دستیاب کرنا ممکن ہو سکتا ہے، جو پرائیویسی کی خلاف ورزی اور قانونی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

اب ڈرونز کریں گے مجرموں کا پیچھا، پنجاب سیف سٹی کا نیا سیکیورٹی پلان تیار

ماہرین کے مطابق اس فیچر کے ممکنہ خطرات میں شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی شامل ہے، جیسے بغیر اجازت دوسروں کی ریکارڈنگ کرنا، ہنگامی یا عام مناظر کو غیر ضروری طور پر ریکارڈ کرنا، اور فوٹیج کا آن لائن یا غیر قانونی استعمال۔ اگر اس کے لیے واضح قانونی فریم ورک، رسائی کے ضابطے، ڈیٹا محفوظ کرنے کے اصول اور حذف کرنے کے قوانین موجود نہ ہوں تو یہ عوامی حفاظت کے بجائے ایک وسیع اور غیر کنٹرول شدہ نگرانی کا نظام بن سکتا ہے۔

شہریوں کی حفاظت کے لیے یہ ٹیکنالوجی مددگار ثابت ہو سکتی ہے، مگر اس کے لیے سخت حفاظتی اقدامات ضروری ہیں۔ ان میں صرف حقیقی ہنگامی صورتحال میں اسٹریمنگ کی اجازت، ریکارڈز کی مختصر قانونی مدت، شفاف دستاویزات کہ کس نے کب فوٹیج دیکھی، اور غلط استعمال یا لیک کے خلاف سخت سزائیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، آزاد نگران اداروں کے ذریعے اس سسٹم کی باقاعدہ جانچ پڑتال بھی لازمی ہے تاکہ فوٹیج کا استعمال صرف جائز حالات میں ہو۔

بلاول ہاؤس چورنگی کے قریب سے چوری ہونے والا سیف سٹی بکس خالی پلاٹ سے برآمد

بغیر ان واضح قواعد و ضوابط کے، یہ جدید ایپ شہریوں کے فونز کو نگرانی کا آلہ بنا سکتی ہے، نہ کہ صرف تحفظ کا ذریعہ۔ عوامی سلامتی کی فلاح کے بجائے، ہر شہری کا فون ممکنہ طور پر غیر محدود نگرانی کا حصہ بن سکتا ہے۔

Read Comments