پی آئی اے: مثالی ایئرلائن سے بحران اور نجکاری تک کا سفر
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا ماضی قومی وقار، جدید سہولیات اور عالمی ریکارڈ سے بھرپور رہا ہے۔ ایک ایسا دور بھی تھا جب پی آئی اے نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا کی بہترین ایئرلائنز میں شمار ہوتی تھی اور اس نے کئی ایسی سہولیات متعارف کرائیں جو دنیا بھر کی ایئرلائنز کے لیے مثال بن گئی۔
پی آئی اے کے عروج اور سنہری دور کی تاریخ ایوی ایشن کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ دورانِ سفر مسافروں کو فلمیں دکھانے کا آغاز، ایئرہوسٹسز کے لیے باقاعدہ یونیفارم، ایشیا میں جیٹ طیاروں کا استعمال اور ٹکٹ ریزرویشن کے لیے کمپیوٹرائزڈ سسٹم متعارف کرانا، یہ تمام سہولیات سب سے پہلے پی آئی اے نے فراہم کیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی بنیاد 23 اکتوبر 1946 کو ’اورینٹ ایئرویز‘ کے نام سے کولکتہ میں رکھی گئی، جس کی ہدایت قائد اعظم محمد علی جناح نے دی تھی۔
اورینٹ ایئرویز ایک نجی کمپنی تھی، جس کے لیے مرزا احمد اصفہانی اور آدم جی حاجی داؤد جیسے معروف صنعت کاروں نے سرمایہ فراہم کیا۔ یہ برصغیر کی پہلی اور واحد ایئرلائن تھی جس کی ملکیت مسلمانوں کے پاس تھی۔
قیامِ پاکستان کے بعد 1951 میں پی آئی اے کو ایک سرکاری محکمے کے طور پر قائم کیا گیا، جبکہ 11 مارچ 1955 کو اورینٹ ایئرویز کا پی آئی اے میں انضمام کر دیا گیا، جس کے بعد یہ ادارہ ’پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن‘ (PIAC) کہلایا۔
اسی برس پی آئی اے نے کراچی سے لندن (براستہ قاہرہ اور روم) اپنی پہلی بین الاقوامی پرواز کا آغاز کیا۔ پاکستانی فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل نور خان نے دو مختلف ادوار میں پی آئی اے کی قیادت کی، جسے ایوی ایشن ماہرین قومی ایئرلائن کا سنہری دور قرار دیتے ہیں۔
ایئر مارشل نور خان کا وہ واقعہ بھی خاصا مشہور ہے جب انہوں نے ایک طیارے کو ہائی جیکنگ سے بچانے کے لیے خود جہاز میں جا کر ہائی جیکر سے مذاکرات کیے اور صورتحال پر قابو پایا۔
پی آئی اے نے قیام کے بعد پہلے ہی عشرے میں عالمی سطح پر غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ 1960 میں ڈھاکہ، کراچی اور لندن کے درمیان بوئنگ 707 طیاروں کے ذریعے پروازیں شروع کر کے پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئرلائن بنی جس نے جیٹ طیارے آپریٹ کیے۔
1962 میں لندن سے کراچی تک صرف 6 گھنٹے 43 منٹ میں پرواز مکمل کر کے پی آئی اے نے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک برقرار ہے۔ اسی سال نیویارک کے لیے بھی پروازوں کا آغاز کیا گیا، جس سے قومی ایئرلائن کی عالمی شہرت میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اس دور میں پی آئی اے نے نہ صرف سروس اور وقت کی پابندی میں نام بنایا بلکہ غیر ملکی ایئرلائنز کو تکنیکی اور انتظامی معاونت بھی فراہم کی۔ ایئر چائنا، ایئر مالٹا، چو سون مین ہینگ، فلپائن ایئر لائنز، صومالی ایئر لائنز اور یمنیہ سمیت کئی ایئرلائنز کو طیارے لیز پر دیے گئے۔
1964 میں پی آئی اے غیر کمیونسٹ ممالک کی پہلی ایئرلائن بنی جس نے چین کے لیے کمرشل پروازیں شروع کیں۔ 1985 میں ایمریٹس ایئرلائن کے قیام میں بھی پی آئی اے نے تکنیکی اور انتظامی کردار ادا کیا۔
1960 اور 1970 کی دہائیوں میں پی آئی اے کا شمار دنیا کی 10 بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا۔ اس کی معیاری سروس، جدید بیڑا اور وقت کی پابندی کی مثالیں دی جاتی تھیں۔
اسی دور میں ’گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد‘ کا سلوگن پی آئی اے کی عالمی پہچان بنا۔ کہا جاتا ہے کہ 1962 میں امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی نے پی آئی اے کے ذریعے سفر کے بعد عملے کی پیشہ ورانہ مہارت سے متاثر ہو کر یہ الفاظ ادا کیے، جو بعد ازاں قومی ایئرلائن کا سلوگن بن گئے۔
پی آئی اے دنیا کی پہلی ایئرلائن تھی جس نے پروازوں کے دوران باقاعدہ فلمیں دکھانے کا آغاز کیا۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی ڈیزائنر پیئر کارڈن سے ایئرہوسٹسز کے یونیفارم ڈیزائن کروانا بھی پی آئی اے کا ایک انقلابی قدم تھا۔
اس کے علاوہ ایشیا کی چند ایئرلائنز میں پی آئی اے شامل تھی جس نے ابتدائی دور میں ہی اپنا ریزرویشن سسٹم کمپیوٹرائزڈ کر لیا تھا۔
عروج کے زمانے میں پی آئی اے کا فضائی نیٹ ورک ٹوکیو سے نیویارک اور افریقہ سے یورپ تک پھیلا ہوا تھا، جبکہ ادارے کے تشہیری دعوے کے مطابق ہر ساتویں منٹ میں پی آئی اے کی ایک پرواز دنیا کے کسی نہ کسی حصے میں اترتی یا روانہ ہوتی تھی۔
ایوی ایشن ماہرین کے مطابق پی آئی اے کا زوال 1990 کی دہائی میں شروع ہوا اور 2000 کے بعد شدت اختیار کر گیا۔ سیاسی مداخلت، ضرورت سے زائد بھرتیاں، یونین سازی کے منفی اثرات اور پرانے طیاروں کے بیڑے نے ادارے کو شدید مالی بحران میں مبتلا کر دیا۔
1991 میں خلیجی جنگ کے باعث قومی ایئرلائن کو پہلا بڑا سالانہ خسارہ ہوا، جبکہ 2000 تک حکومت کو 20 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج دینا پڑا۔
رپورٹس کے مطابق 2024 کے آخر تک پی آئی اے پر مجموعی قرضہ 830 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ مسلسل نقصانات کے باعث ادارہ حکومتی بیل آؤٹ پیکجز پر انحصار کرنے لگا۔
2020 میں کراچی طیارہ حادثے کے بعد مشکوک پائلٹ لائسنسوں کے انکشاف پر یورپی یونین، برطانیہ اور امریکا نے پی آئی اے پر پابندی عائد کی، جس سے ادارے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، تاہم یہ پابندیاں بعد ازاں ختم کر دی گئیں۔
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کے تحت حکومتِ پاکستان آج پی آئی اے کی نجکاری کا عمل جاری ہے۔
نجکاری کمیشن کے مطابق ادارے کے 72 فیصد حصص (شیئرز) فروخت کیے جارہے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد یہ بتایا جارہا ہے کہ زیادہ تر سرمایہ براہِ راست قومی ائرلائن کی بحالی اور ترقی پر خرچ ہو۔ نجکاری کمیشن کے مطابق کامیاب بولی دہندہ کے تعین کے بعد باقی حصص کی خریداری کا مرحلہ شروع ہوگا۔
اس نیلامی کے عمل میں پی آئی اے کے ملازمین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک سال تک ملازمتوں کے تحفظ کی شرط رکھی گئی ہے، جبکہ پنشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد کے فوائد کی ذمہ داری ہولڈنگ کمپنی پر ہوگی۔