ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود امریکی ہتھیاروں سے پاکستان میں دہشتگردی کررہی ہے: امریکی جریدہ
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد وہاں موجود امریکی ہتھیار خطے کی سیکیورٹی کے لیے سنگین خطرہ بن گئے ہیں۔ امریکی جریدے ’دی جیو پالیٹکس‘ کی رپورٹ کے مطابق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں موجود امریکی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں مسلسل دہشتگردی کر رہی ہے۔ فتنہ الخوارج کے دہشتگرد جدید ہتھیاروں سے خیبر پختونخوا اور دیگر علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور شہریوں پر حملے کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں موجود امریکی ہتھیاروں کی مالیت سات ارب ڈالر سے زائد ہے، جس میں ایم فور اور ایم سولہ رائفلیں، نائٹ وژن سائٹس اور دیگر فوجی ساز و سامان شامل ہیں۔
یہ ہتھیار طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان کی بلیک مارکیٹ میں فروخت کیے جا رہے ہیں اور دہشتگرد نیٹ ورکس کی دسترس میں آ چکے ہیں۔ ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو زیادہ مہلک اور منظم حملے کرنے کی صلاحیت فراہم کی ہے، جس سے پاکستانی سیکیورٹی کی صورت حال مزید نازک ہو گئی ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود یہ امریکی ہتھیار پاکستانی فورسز پر حملوں اور شہریوں کو نشانہ بنانے میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی، جیسے نائٹ وژن اور جدید رائفلیں، دہشتگردوں کو رات کے وقت بھی مؤثر کارروائیاں کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کی موجودہ قیادت نے مقامی کمانڈروں کو یہ ہتھیار رکھنے کی سہولت فراہم کی ہے۔
اس کے علاوہ، افغانستان میں ہتھیاروں کی بلیک مارکیٹ نے عام شہریوں کو بھی آسانی سے یہ جدید ہتھیار دستیاب کر دیے ہیں، جس سے معاشرتی تحفظ اور حکومتی کنٹرول مزید متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ برس مختلف مواقع پر امریکی ہتھیار ضبط کیے جا چکے ہیں، جنہیں دہشتگرد حملوں میں استعمال کیا گیا۔ سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو زیادہ منظم اور خطرناک بنایا ہے، اور یہ خطے میں طویل المدتی عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری، خاص طور پر امریکہ کو فوری طور پر افغانستان میں ہتھیاروں کے غیر قانونی بہاؤ کو روکنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک کے درمیان بہتر انٹیلی جنس شیئرنگ کی ضرورت ہے تاکہ دہشتگردوں کی طاقت محدود کی جا سکے اور خطے میں سیکیورٹی کی صورت حال بہتر ہو۔