شائع 30 دسمبر 2025 09:02pm

سعودی عرب کے سخت ردعمل کے بعد یو اے ای کا یمن میں فوجی مشن کے خاتمے کا اعلان

سعودی عرب کے سخت ردعمل کے بعد متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے یمن میں فوجی مشن کے خاتمے اور اپنے فوجی اہلکار واپس بلانے کا اعلان کردیا ہے۔

منگل کو متحدہ عرب امارات کی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ اس نے یمن میں تعینات اپنے انسدادِ دہشت گردی یونٹس کا مشن رضاکارانہ طور پر ختم کر دیا ہے، انسدادِ دہشت گردی یونٹس کی واپسی رضا کارانہ بنیادوں پر اور شراکت داروں کے ساتھ مکمل رابطے اور تعاون سے عمل میں لائی جائے گی۔

وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا کہ اس کی بنیادی وجہ وہاں موجود اہلکاروں کی حفاظت اور سلامتی کو ممکن بنانا ہے، یہ فیصلہ حالیہ پیش رفت اور سیکیورٹی خدشات کے تناظر میں ایک جامع جائزے کے بعد کیا گیا۔

اماراتی وزارت دفاع کے بیان میں مزید کہا گیا کہ یمن میں متحدہ عرب امارات کی براہِ راست فوجی موجودگی بھی پہلے ہی 2019 میں ختم ہوچکی تھی۔ یہ اقدام خطے میں امن و استحکام کے لیے یو اے ای کے دیرینہ عزم کے مطابق ہے۔

وزارت دفاع کے بیان میں واضح کیا گیا کہ یو اے ای 2015 سے عرب اتحاد کے تحت یمن میں قانونی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے، 2019 میں طے شدہ اہداف مکمل ہونے کے بعد اپنی فوجی موجودگی ختم کرنے کے بعد سے صرف محدود اور خصوصی ٹیمیں انسدادِ دہشت گردی کے لیے موجود تھیں، جو اب واپس بلائی جا رہی ہیں۔

بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ یو اے ای کے بیٹوں نے یمن میں امن اور استحکام کے مقاصد کے حصول کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔

خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب سعودی عرب نے یمن کی بندرگاہ پر مبینہ اسلحہ بردار گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔

یمن کے معاملے پر سعودی عرب، یو اے ای میں کشیدگی: تنازع کے حل کے لیے پاکستان متحرک

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس سے قبل سعودی عرب نے اپنی قومی سلامتی کو ریڈ لائن قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے یمن کے جنوبی علیحدگی پسندوں پر دباؤ ڈال کر ایسی عسکری کارروائیاں کروائیں جو سعودی سرحدوں تک جا پہنچیں۔ یہ یو اے ای کے خلاف سعودی عرب کا اب تک کا سخت ترین مؤقف ہے۔

دونوں ممالک ماضی میں یمن میں ایران نواز حوثیوں کے خلاف ایک ہی اتحاد کا حصہ تھے تاہم حالیہ برسوں میں یمن کے معاملے پر ان کے مفادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے چلے گئے۔ اتحاد کے اندر اختلافات اس وقت بڑھنے لگے جب یو اے ای نے جنوبی علیحدگی پسندوں کی حمایت کی جب کہ سعودی عرب یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی پشت پناہی کرتا رہا۔

منگل کے روز اتحاد کی جانب سے اس ڈاک کو نشانہ بنایا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ یو اے ای کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کو غیر ملکی فوجی مدد فراہم کرنے کے لیے استعمال ہو رہی تھی۔ اس کے بعد یمن کے سعودی حمایت یافتہ صدارتی کونسل کے سربراہ رشاد العلیمی نے یو اے ای افواج کو 24 گھنٹوں میں یمن چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا۔

یو اے ای نے اپنے بیان میں فضائی حملے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس کھیپ کو نشانہ بنایا گیا اس میں اسلحہ موجود نہیں تھا اور وہ اماراتی فورسز کے لیے تھی۔

یمنی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق رشاد العلیمی نے یو اے ای کے ساتھ دفاعی معاہدہ منسوخ کر دیا اور ایک ٹیلی وژن خطاب میں الزام عائد کیا کہ متحدہ عرب امارات جنوبی ٹرانزیشنل کونسل کی حمایت کے ذریعے یمن میں انتشار کو ہوا دے رہا ہے۔

یو اے ای نے یمنی باغیوں کو اسلحہ فراہمی کا الزام مسترد کر دیا

ادھر یو اے ای نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ حالیہ پیش رفت سے نمٹنے کے لیے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنایا جانا چاہیے تاکہ کشیدگی میں اضافہ نہ ہو اور تمام اقدامات مستند حقائق اور باہمی رابطے کی بنیاد پر کیے جائیں۔

صورت حال کے اثرات خلیجی ممالک کی اسٹاک مارکیٹس پر بھی دیکھے گئے، جہاں بڑے انڈیکسز میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ سعودی عرب اور یو اے ای اوپیک کے بڑے رکن ممالک ہیں اور دونوں کے درمیان اختلافات تیل کی پیداوار سے متعلق فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اوپیک پلس کے آٹھ رکن ممالک کا اجلاس اتوار کو آن لائن منعقد ہونے جا رہا ہے، جہاں پہلی سہ ماہی میں تیل کی پیداوار میں کسی تبدیلی نہ کرنے کی پالیسی جاری رکھنے پر غور کیا جائے گا۔

Read Comments