Aaj News

پشاور مسجد دھماکا: پختونخوا پولیس احتجاجاً سڑکوں پر، واقعے کا مقدمہ درج

پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ تیار

پاکستانی پولیس دہشتگردوں کا خصوصی نشانہ، وجہ کیا ہے؟

پشاور پولیس لائن میں سیکیورٹی کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کرنے کا فیصلہ

پشاور دھماکا: ہیلمٹ سے ملنے والے بال حملہ آورکے ڈی این اے سے میچ کرگئے

پاکستان کا دہشتگردوں کو لگام ڈالنے کیلئے ملا ہیبت اللہ سے بات چیت کا فیصلہ

پشاور میں دس دنوں کے لئے دفعہ 144 نافذ

پشاور دھماکا: مشتبہ خاتون کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا

ایپکس کمیٹی کا افغانستان سے دو ٹوک بات کرنے اور کالعدم تنظیموں کیخلاف ٹارگیٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ

پشاور پولیس لائنز خودکش دھماکا کیس میں اہم پیشرفت

پشاوردھماکا: مبینہ خود کش حملہ آور کی نئی فوٹیج سامنے آگئی

برطانوی شاہی خاندان کا بھی سانحہ پشاور پر افسوس کا اظہار

خیبرپختونخوا پولیس دہشتگردوں کا ہدف کیوں بنی ہوئی ہے؟

سانحہ پولیس لائن کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

پشاور دھماکا: ہم پر الزام نہ لگائیں اپنے اندر خرابی تلاش کریں، افغان وزیر خارجہ

ہم الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتے، دفتر خارجہ

پشاور: پولیس لائنز مسجد دھماکے کے حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو آج نیوز کو موصول

دہشتگردوں کا نیٹ ورک ڈھونڈ نکالا، خودکش حملہ آور پولیس یونیفارم میں تھا، آئی جی خیبرپختونخوا

وائٹ ہاؤس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی بھی پشاور دہشتگرد حملے کی شدید مذمت

’یہ نومبر 2022 کا لگایا ہوا فیوز تھا جو کل پشاور میں پھٹا‘

پختونخوا میں دہشتگردی کے واقعات، ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب

پشاور پولیس لائن مسجد دھماکا، خیبرپختونخوا پولیس احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئی

پشاور: پولیس لائنز دھماکے کا مقدمہ درج

پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کی ادائیگی

خادمِ حرمین شریفین کی پشاوربم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت

کہا جاتا ہے دہشتگردوں سے مذاکرات کرو، ریاست کہاں ہے؟ سپریم کورٹ

ٹی ٹی پی پاکستان میں دوبارہ کیسے منظم ہوئی

خودکش حملہ آور کا سر اور کچھ اعضا ملے ہیں، آئی جی خیبرپختونخوا

وائٹ ہاؤس کی پشاور دہشتگرد حملے کی شدید مذمت، لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار

پشاور دھماکا : ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا

پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، تحقیقات کی جارہی ہیں، رپورٹ

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ تیار

پشاور دھماکا: خیبرپختونخوا میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

وزیر دفاع نے بنوں اور پشاور واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی قرار دیدیا

سانحہ پشاور: نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا صوبے میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

ایک ہی گیٹ ہے تو حملہ آور کیسے پولیس لائنز میں داخل ہوا؟ وزیراعظم آئی جی پر برہم

پشاور خودکش دھماکہ: کب، کیا اور کیسے ہوا؟

ہم نے خبردار کیا تھا کہ ایسا ہوگا، محسن داوڑ

سانحہ پشاور کے بعد کراچی کی سکیورٹی ہائی الرٹ

پشاور خودکش حملہ: پیش امام، دو انسپکٹر سمیت کئی شہداء کی فہرست میں شامل

پشاور دھماکا: شہادت پانے والے پولیس افسر کے نام سے موسوم مسجد بھی شہید

پشاور پولیس لائن کا علاقہ کتنا حساس ہے؟

پشاور خود کش حملہ: ’شہید امام نے اللہُ اکبر کہا اور پورا ہال دھماکے سے اُڑ گیا‘

برطانیہ کی پشاور دھماکے کی مذمت، لواحقین سے اظہار ہمدردی

پشاور دھماکہ : او نیگیٹو خون کی اشد ضرورت، وزیراعظم کی لیگی کارکنان کو عطیات کی ہدایت

امریکا کی جانب سے پشاور خود کش حملے کی مذمت

پشاور خودکش حملہ: حال ہی میں ٹرانسفر ہونے والے ایس ایچ او بھی شہید

پشاور دھماکا: ’ہمیں اپنے شہید کو گھر لے جانے کیلئے این او سی نہیں دیا جارہا‘

پشاور خودکش حملہ: جائے وقعہ پر تابوتوں کی بڑی تعداد روانہ، شہادتوں میں اضافے کا خدشہ

پشاور دھماکہ: کئی افراد اب بھی ملبے تلے موجود، ’نیچے سے آوازیں آرہی ہیں‘

پشاور دھماکا: پولیس اور حکومت نے ناقص سیکیورٹی کا اعتراف کرلیا

شائع 27 فروری 2023 06:30pm

پاکستانی پولیس دہشتگردوں کا خصوصی نشانہ، وجہ کیا ہے؟

<p>9 فروری 2023، ایک پولیس آفیسر پولیس لائنز ایریا پشاور میں گاڑی کے ہڈ کو چیک کر رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)</p>

9 فروری 2023، ایک پولیس آفیسر پولیس لائنز ایریا پشاور میں گاڑی کے ہڈ کو چیک کر رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

فیضان اللہ خان اپنی قابلِ بھروسہ ساتھی ”طیارہ شکن بندوق“ کے ساتھ ایک پولیس چوکی پر ریت کی بوریوں کے ڈھیر کے پیچھے کھڑے ہیں، جو شمال مغربی پاکستان کی غیر سرکاری سرحد کے ساتھ بنائی گئی ہے، یہ علاقہ ملک کے شورش زدہ سابقہ قبائلی علاقوں میں سے ایک ہے اور فیضان اللہ خان چوکی پر کھڑے علاقے کو بغور دیکھ رہے ہیں۔

فروری کی اس سرد اور بارش والی صبح، ان کی آنکھیں کسی ہوائی جہاز کو نہیں بلکہ اپنی فورس، خیبر پختونخواہ پولیس پر حملے کرنے والے دہشتگردوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔

 9 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان کے مضافات میں، سربند پولیس اسٹیشن کی چھت پر 12.7mm کی انفنٹری مشین گن کے ساتھ ایک پولیس افسر پوزیشن لیے ہوئے  (روئٹرز/فیاض عزیز)
9 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان کے مضافات میں، سربند پولیس اسٹیشن کی چھت پر 12.7mm کی انفنٹری مشین گن کے ساتھ ایک پولیس افسر پوزیشن لیے ہوئے (روئٹرز/فیاض عزیز)

وہ اپنے روایتی بستر پر بیٹھے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر خان نے روئٹرز کو بتایا کہ دن کا وقت تھا، اس لیے وہ تھوڑا آرام کر سکتے تھے۔

انہوں نے منظور شہید نامی اس چوکی پر برسائی گئی گولیوں کے نشانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’لیکن رات اپنے ساتھ ایک مختلف کہانی لے کر آئی۔‘

منظور برسوں پہلے باغیوں کے ہاتھوں مارے گئے ان کے ایک ساتھی کا نام تھا۔

یہ چوکی ان درجنوں میں سے ایک ہے جو طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقے میں موجود خفیہ ٹھکانوں سے پاکستانی پولیس پر تازہ حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف دفاع فراہم کرتی ہے۔

یہ علاقہ صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے اور کالعدم دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا گڑھ ہے۔

جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان میں بڑھتی شورش کی انتہا گزشتہ ماہ پشاور کی ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں دکھائی دی، جس میں 80 سے زائد پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ ٹی ٹی پی کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے اس حملے ذمہ داری قبول کی۔

 پولیس لائنز ایریا، پشاور، پاکستان، 9 فروری 2023 کو ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تصاویر والا ایک بل بورڈ۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
پولیس لائنز ایریا، پشاور، پاکستان، 9 فروری 2023 کو ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تصاویر والا ایک بل بورڈ۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

رواں ماہ شمال مغربی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے، رائٹرز نے پولیس چوکیوں تک رسائی حاصل کی اور ایک درجن سے زائد لوگوں سے بات کی، جن میں اعلیٰ پولیس حکام بھی شامل ہیں۔

 ایک پولیس افسر 9 فروری 2023 کو، پشاور، پاکستان کے مضافات میں، اچینی کی چوکی پر ایک گیٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
ایک پولیس افسر 9 فروری 2023 کو، پشاور، پاکستان کے مضافات میں، اچینی کی چوکی پر ایک گیٹ کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہے۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

ان میں سے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ کس طرح پولیس فورس کو دہشتگرد حملوں اور وسائل کی کمی کے باعث نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

پاکستانی حکام ان چیلنجز کو تسلیم کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ دگرگوں معاشی حالات کے باوجود فورس کی صلاحیت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’دہشتگردوں کے سامنے رکاوٹ‘

یہاں کی پولیس برسوں سے کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں سے نبرآزما ہے، اور اسی لڑائی میں 2001 سے اب تک 2100 سے زیادہ اہلکار شہید اور 7 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔

لیکن پولیس کبھی بھی دہشتگردوں کی کارروائیوں کا مرکز اس طرح نہیں بنی جیسا کہ آج ہے۔

منظور شہید چوکی کو کنٹرول کرنے والے سربند اسٹیشن کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر جمیل شاہ ان دہشتگدروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ، ’ہم نے ان کا پشاور جانے کا راستہ روک دیا ہے۔‘

 سربند پولیس اسٹیشن میں 40 سالہ جمیل شاہ دو پولیس افسران کے درمیان کھڑے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
سربند پولیس اسٹیشن میں 40 سالہ جمیل شاہ دو پولیس افسران کے درمیان کھڑے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

مقامی پولیس کے مطابق، سربند اور اس کی آٹھ چوکیوں کو حالیہ مہینوں میں چار بڑے حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے ساتھ ہی چوکیوں کو بھاری فائرنگ اور اسنائپر فائر کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

خیبرپختونخوا میں پولیس ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے بڑھ کر 119 ہو چکی ہے، جو 2021 میں 54 اور 2020 میں 21 تھی۔

رواں سال اب تک تقریباً 102 افراد مارے جا چکے ہیں، ان میں سے زیادہ تر مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں مارے گئے جبکہ کچھ دوسرے حملوں میں جان گنوا بیٹھے۔

اس کے علاوہ دہشتگردوں نے 17 فروری کو کراچی میں ایک پولیس دفتر پر دھاوا بولا، سیکیورٹی فورسز نے عمارت پر قبضہ واپس حاصل کرنے کے بعد تین حملہ آوروں کو ہلاک کیا۔

ٹی ٹی پی گروہ، جسے ”پاکستانی طالبان“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، افغان طالبان سے وفاداری کا عہد تو کرتا ہے لیکن وہ براہ راست اس گروپ کا حصہ نہیں ہے جو کابل میں حکومت کرتا ہے۔ اس کا بیان کردہ مقصد پاکستان میں اسلامی مذہبی قانون نافذ کرنا ہے۔

ٹی ٹی پی کے ایک ترجمان محمد خراسانی نے روئٹرز کو بتایا کہ اس کا اصل ہدف پاکستانی فوج تھی، لیکن پولیس اس کے مقصد کے راستے میں کھڑی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو کئی بار کہا گیا ہے کہ ہمارے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالیں، پولیس نے اس پر دھیان دینے کے بجائے ہمارے ساتھیوں کو شہید کرنا شروع کر دیا ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

فوج کے تعلقات عامہ کے ونگ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، فوج نے خیبرپختونخوا پولیس کے ساتھ مل کر آپریشنز کئے ہیں اور ٹی ٹی پی کے حملوں کا سامنا کیا ہے، اس سال صوبے میں ایک فوجی کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔

 جمیل شاہ سربند پولیس سٹیشن کی دیوار پر ایک گولی کے سوراخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
جمیل شاہ سربند پولیس سٹیشن کی دیوار پر ایک گولی کے سوراخ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

دسمبر میں، ٹی ٹی پی نے ایک ویڈیو جاری کی جسے مبینہ طور پر اس کے ایک دہشتگرد نے دارالحکومت اسلام آباد کے آس پاس کے پہاڑوں سے ریکارڈ کیا، جس میں پاکستان کی پارلیمنٹ کی عمارت دکھائی گئی۔

اس نامعلوم دہشتگرد کے پاس موجود ایک نوٹ میں درج تھا ”ہم آرہے ہیں“۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اس کے جنگجو اپنے اثر و رسوخ والے موجودہ علاقوں سے باہر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی صلاحیت محدود ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا، ’پروپیگنڈا اس جنگ کا ایک بڑا حصہ ہے اور ٹی ٹی پی اس میں کامیاب ہو رہی ہے‘۔

آسان ہدف

خیبرپختونخوا پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے تیار ہیں، لیکن وسائل کی کمی کی طرف اشارہ بھی کیا۔

سربند اسٹیشن کے شاہ نے کہا، ’سب سے بڑا مسئلہ اہلکاروں کی تعداد ہے، جو کافی کم ہے۔‘ اسٹیشن اور آٹھ منسلک چوکیوں میں ڈرائیور اور کلرک سمیت 55 افراد ہیں۔

’یہ ایک ٹارگیٹ علاقہ ہے، اور ہم (عسکریت پسندوں) کے ساتھ بالکل منہ در منہ ہیں۔‘

روئٹرز کے سربند دورے سے چند دن پہلے، دہشتگردوں نے اسٹیشن کے باہر گھات لگا کر ایک پولیس افسر پر حملہ کیا، فائرنگ کے تبادلے پولیس افسر شہید ہوگیا۔

اس حملے سے دہشتگردوں کے جدید فائر پاور کا اندازہ بھی ہوا، جنہوں نے شاہ کے مطابق، اندھیرے میں افسر کو نشانہ بنانے کے لیے تھرمل چشموں کا استعمال کیا۔

ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا، تقریباً ایک سال قبل ٹی ٹی پی نے اپنے اسنائپرز کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جو تھرمل امیجنگ کا استعمال کرتے ہوئے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے تھے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے شورش کے بارے میں روئٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب تو نہیں دیا، لیکن رواں ماہ مقامی ٹی وی کو بتایا کہ دہشتگرد پولیس کو ”سافٹ ٹارگٹ“ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ پولیس کے عوامی کردار نے پولیس تنصیبات میں گُھسنا آسان بنا دیا تھا۔

ایک صحافی اور دہشتگردوں پر کتابوں کے مصنف زاہد حسین کا کہنا ہے کہ پولیس اپنے وسائل اور تربیت کے پیش نظر فوج سے زیادہ کمزور ہے۔

’میرا مطلب ہے، وہ وہاں آسان ہدف ہیں۔‘

’مہلک ہتھیار‘

خیبر پختونخواہ پولیس کے سابق سربراہ معظم جاہ انصاری نے رواں ماہ روئٹرز سے گفتگو میں کہا کہ عسکریت پسندوں کی حکمت عملی تیار ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وہ آپریشن کرنے کے لیے زیادہ مؤثر طریقے اور زیادہ مہلک ہتھیار تلاش کرتے ہیں۔‘

 56 سالہ معظم جاہ انصاری، جو خیبر پختونخواہ کی پولیس کے سربراہ تھے، 8 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان میں اپنے دفتر میں روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
56 سالہ معظم جاہ انصاری، جو خیبر پختونخواہ کی پولیس کے سربراہ تھے، 8 فروری 2023 کو پشاور، پاکستان میں اپنے دفتر میں روئٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گفتگو کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

پولیس حکام کے مطابق دہشتگردوں نے امریکی ساختہ ایم 4 رائفلیں اور دیگر جدید ترین ہتھیار مغربی افواج کے ذخیرہ سے حاصل کیے ہیں جو 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے وقت پیچھے چھوڑ دئے گئے تھے۔

کچھ پولیس گارڈز نے روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے اپنی چوکیوں پر چھوٹے جاسوس ڈرون اڑتے ہوئے دیکھے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان خراسانی نے تصدیق کی ہے کہ گروپ نگرانی کے لیے ڈرون استعمال کر رہا ہے۔

سربند اسٹیشن کے متعدد پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ صوبائی حکومت اور فوج نے جنگ میں مدد کے لیے جنوری کے آخر میں انہیں اور دیگر چوکیوں کو تھرمل چشمے فراہم کیے تھے۔ لیکن انہیں ایک اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

شاہ نے سربند میں روئٹرز کو بتایا، ’ہمارے پاس دن کے تقریباً 22 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے، چشموں کو چارج کرنے کے لیے بجلی نہیں ہے۔‘

اسٹیشن کے سربراہ قیوم خان کے مطابق، اسٹیشن کی چھت پر ایک سولر پینل ہے، جسے نصب کرنے کے لیے افسران نے اپنی جیب سے ادائیگی کی۔

ایک پولیس اہلکار، جس نے تادیبی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کہا کہ پولیس اپنی گاڑیاں استعمال کرتی ہے یا اپنے چشموں کو چارج کرنے کے لیے بیک اپ جنریٹر سے لیس پٹرول اسٹیشن پر جاتی ہے۔

پولیس نے کہا کہ انہوں نے دیگر حفاظتی اقدامات کیے ہیں، جن میں اسنائپر فائر سے بچاؤ کے لیے دیواریں کھڑی کرنا، اور امریکی زیرقیادت فورسز کے پیچھے چھوڑے گئے سامان کو فروخت کرنے والے بازار سے بلٹ پروف شیشے کی خریداری شامل ہے۔

معاشی حالات

روئٹرز نے چار دیگر اعلیٰ حکام اور ایک درجن سے زیادہ نچلے درجے کے افسران سے بات کی، جن میں سے سبھی نے کہا کہ صوبائی فورس کو اس کے کلیدی کردار کے باوجود نظرانداز کیا گیا۔

انہوں نے بھی تادیبی کارروائی کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہی بات کرنے آمادگی ظاہر کی۔

ان اہلکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ مطلوبہ وسائل آنے والے نہیں تھے، اور ان کی تنخواہیں اور مراعات پاکستان میں دیگر جگہوں کے ہم منصبوں سے کمتر تھیں، فوج کو تو چھوڑ دیں۔

کیا پولیس کو مزید وسائل کی ضرورت ہے؟

نگراں حکومت کے انتظام سنبھالنے سے پہلے جنوری تک صوبائی وزیر خزانہ رہنے والے تیمور سلیم جھگڑا نے کہا، ’بالکل ہے‘۔

تیمور جھگڑا نے کہا کہ ان کی حکومت نے مالی رکاوٹوں کے باوجود تنخواہوں میں اضافے اور چشموں جیسے آلات کی خریداری میں پولیس کی جتنی مدد کی جا سکتی تھی کی۔

پاکستان کی قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت ایک سال سے زبوں حالی کا شکار ہے، اور ملک ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا کو اس کی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے‘۔

سابق پولیس چیف معظم جاہ انصاری نے کہا کہ وسائل میں بہتری آئی ہے لیکن جب کوئی خطرہ سامنے آتا ہے تو بجائے اس کے کہ مستقل حمایت حاصل ہو وقتی رد عمل ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے بھی اس کی وجہ معاشی حالات کو قرار دیا، لیکن انہوں نے مزید کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں تھے جتنا کہ کچھ لوگوں نے بتایا۔

’غصے کی شدت‘

اگست 2021 میں مغربی افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد، پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں افغان طالبان کی ثالثی میں ایک ماہ کی جنگ بندی اور مذاکرات ہوئے۔

اس کوشش کے ایک حصے کے طور پر افغانستان سے بہت سے دہشتگردوں کو پاکستان میں دوبارہ آباد کیا گیا۔

ٹی ٹی پی نے نومبر 2022 میں جنگ بندی ختم کر دی، اور اس کے فوراً بعد دوبارہ منظم ہونے والے دہشتگردوں نے پاکستان میں دوبارہ حملے شروع کر دیے۔

پشاور بم دھماکے کے بعد، پولیس اہلکاروں نے عوامی احتجاج کیا جہاں کچھ نے اپنی قیادت، صوبائی اور قومی حکومتوں اور یہاں تک کہ فوج کے خلاف غصے کا اظہار کیا، دہشتگردوں سے لڑنے کی پالیسی کے بارے میں مزید وسائل اور وضاحت کا مطالبہ کیا۔

معظم جاہ انصاری نے حملے کے بعد فورس میں ”گہرے نقصان کے احساس“ اور ”غصے کی شدت“ کا اعتراف کیا۔

پشاور دھماکے میں تباہ مسجد کے پیچھے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر دولت خان اور آٹھ رشتہ دار تنگ پولیس کوارٹرز میں رہتے ہیں جس میں 25 مربع میٹر کی جگہ صرف ایک کمرہ ہے۔ اس کے ارد گرد گرتی ہوئی، دھماکے سے تباہ شدہ دیواریں ہیں۔

 لوگ جنوری میں پشاور پولیس لائنزمیں  ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
لوگ جنوری میں پشاور پولیس لائنزمیں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

انہوں نے صدیوں پرانے، برطانوی نوآبادیاتی دور کے کوارٹرز کی قطاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’ہر کوئی پولیس کی قربانیوں کو دیکھ سکتا ہے، لیکن ہمارے لیے کچھ نہیں کیا جاتا، آپ حالات اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔‘

مختلف لڑائی

پاکستان کی افواج نے مؤثر طریقے سے ٹی ٹی پی کو ختم کیا اور 2014 کے بعد سے اس کی زیادہ تر اعلیٰ قیادت کو ایک سلسلہ وار کارروائیوں میں ہلاک کیا، جس سے زیادہ تر جنگجو افغانستان چلے گئے، جہاں وہ دوبارہ منظم ہوگئے۔

لیکن حالیہ مہینوں میں لڑائی کی نوعیت بدل گئی ہے، جس سے جزوی طور پر پتہ چلتا کہ فوج کے بجائے پولیس نشانے پر کیوں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشتگرد اب سابق قبائلی علاقوں میں اپنے اڈوں سے کام کرنے کے بجائے ملک بھر میں چھوٹے گروپوں میں اور شہری آبادی میں پھیل چکے ہیں۔

فوج کو جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں بھی ایک اور شورش کا سامنا کرنا پڑا ہے، جہاں علیحدگی پسند ریاستی انفراسٹرکچر اور چینی سرمایہ کاری کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

وزارت دفاع نے خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کے خلاف مزاحمت میں مسلح افواج کے کردار کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

اس دوران، فلیش پوائنٹس سے میلوں دور پولیس گریجویٹس نوشہرہ کے وسیع ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں عسکریت پسند مخالف آپریشنز میں چھ ماہ کے کریش کورسز حاصل کرتے ہیں۔

 نوشہرہ، پاکستان، 10 فروری 2023 کو ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں ایک تربیتی سیشن کے دوران پولیس افسران راکٹ سے چلنے والے دستی بموں کو فائر کرنے کی مشق کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)
نوشہرہ، پاکستان، 10 فروری 2023 کو ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر میں ایک تربیتی سیشن کے دوران پولیس افسران راکٹ سے چلنے والے دستی بموں کو فائر کرنے کی مشق کر رہے ہیں۔ (روئٹرز/فیاض عزیز)

اہلکار بشمول خواتین، چھاپے مارنا، عمارتوں سے ریپل کرنا اور راکٹ سے چلنے والے دستی بموں اور طیارہ شکن بندوقوں کا استعمال کرنا سیکھتے ہیں۔

لیکن ٹریننگ اسکول کی دیواروں سے پرے، وہاں کوئی دہشتگرد کیمپ نہیں ہے، حملے رات کو ہوتے ہیں، اور پولیس کی مدد کیلئے کوئی نہیں ہوتا۔

فیضان اللہ خان کہتے ہیں کہ، کچھ راتوں کو ان کی چوکی پر عسکریت پسند انہیں یا ان کے ساتھی محافظوں کو پکارتے ہیں۔ ’وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں، اپنے ہتھیار ڈال دو۔‘

انہوں نے کہا کہ گارڈز کبھی کبھار اندھیرے میں اپنی بندوقیں چلا کر جواب دے دیتے ہیں۔

شائع 06 فروری 2023 03:20pm

پشاور پولیس لائن میں سیکیورٹی کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کرنے کا فیصلہ

پشاور پولیس لائنز مسجد دھماکے کے بعد خیبرپختونخوا حکومت نے سیکیورٹی کیلئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

حکومت نے پولیس لائنز میں پین ٹلٹ زوم (پی ٹی زی) کیمرے نصب کرنے کیلئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے رابطہ کر لیا۔

اس حوالے سے ڈائریکٹر نیشنل سینٹر آف آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈاکٹر گل محمد نے آج نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ مردان میں تجرباتی طور پر نو کیمرے نصب کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر گل محمد کا کہنا ہے کہ پی ٹی زی کیمرے غیرقانونی سرگرمیوں کی نشاندہی کرسکتے ہیں، اسی لئے پولیس لائنز کیلئے بھی پی ٹی زی کیمرے تجویز کئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز کیلئے پراجیکٹ پر 5 سے 6 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔

ڈاکٹرگل محمد نے کہا کہ پی ٹی زی کیمروں سے کوئی غیرمتعلقہ شخص داخل نہیں ہوسکتا، اس سے کسی بھی وردی میں ملبوس شخص کی نشاندہی ہوگی۔

ڈاکٹر گل محمد کے مطابق یہ سسٹم سائبر حملے سے مکمل محفوظ ہے، پولیس لائنزکےتمام گیٹس پرپی ٹی زی کیمرے لگیں گے، سسٹم گاڑی میں سوار شخص کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔

شائع 06 فروری 2023 10:41am

پشاور دھماکا: ہیلمٹ سے ملنے والے بال حملہ آورکے ڈی این اے سے میچ کرگئے

<p>تصویر/ آج نیوز</p>

تصویر/ آج نیوز

پشاورکی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے کے بعد ہیلمٹ سے ملنے والے سرکے بال حملہ آور کے ڈی این اے سے میچ کرگئے۔

آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ نے تفتیش آگے بڑھنے سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ مبینہ خودکش کے ہیلمٹ سے ملنے والے سر کے بال ڈی این اے سے میچ کرگئے ہیں، وہ نماز کے دوران کیے جانے والے اس حملے میں تیسری یا چوتھی صف میں تھا۔

آئی جی کے مطابق خود کش حملے میں ٹی این ٹی بارود استعمال ہوا۔

دوسری جانب کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ خودکش بمبار کہاں سے روانہ ہوااس حوالے سے نیٹ ورک کا سراغ لگاتے ہوئے سہولت کار تک پہنچ چکے ہیں۔

واضح رہے کہ 30 جنوری کو نماز ظہرکے دوران پولیس لائنز مسجد خودکش دھماکے میں افسران و اہلکاروں سمیت 84 افراد شہید ہوئے تھے ۔

شائع 04 فروری 2023 05:21pm

پاکستان کا دہشتگردوں کو لگام ڈالنے کیلئے ملا ہیبت اللہ سے بات چیت کا فیصلہ

<p>تصویر بزریعہ اے ایف پی</p>

تصویر بزریعہ اے ایف پی

پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی 100 سے زائد شہادتوں کے بعد حکومتِ پاکستان نے افغان طالبان کے ”روپوش“ سپریم لیڈر سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ کے مطابق اسلام آباد افغان طالبان کے سربراہ ملّا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کو لگام ڈالنے کے لیے کہے گا۔

کابل میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے افغان سرحد سے متصل علاقوں میں ہونے والے حملوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔

عسکریت پسند حملے کرنے اور بچنے کے لیے ان ناہموار علاقوں کا استعمال کرتے ہیں۔

تفتیش کاروں نے پشاور میں پیر کو ہونے والے دھماکے کے لیے خطے کی سب سے بدنام عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی ایک ذیلی تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

ٹی ٹی پی، افغان طالبان جیسے ہی نظریات رکھتی ہے اور افغان طالبان کی قیادت ہیبت اللہ اخوندزادہ کر رہے ہیں، جو جنوبی شہر قندھار میں اپنے کسی ٹھکانے سے احکام جاری کرتے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی نے اے ایف پی کو بتایا کہ وفود تہران اور کابل بھیجے جائیں گے تاکہ ”ان سے کہا جائے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں دہشت گرد ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کریں۔“

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک سینئر پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کابل کا وفد ”اعلیٰ حکام سے بات چیت“ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ، ”جب ہم اعلیٰ حکام کہتے ہیں، تو اس کا مطلب ہوتا ہے… افغان طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ۔“

افغان حکام نے اس خبر پر تبصرے کے لیے اے ایف پی کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

لیکن بدھ کو افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خبردار کیا کہ پاکستان کو ”الزام دوسروں پر نہیں ڈالنا چاہیے“۔

پاکستان پر 20 سالہ امریکی اقتدار کے دوران افغان طالبان کی خفیہ مدد کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، حالانکہ ملک نے امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔

لیکن 2021 میں جب سے افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات میں تناؤ آگیا ہے۔

جس کی ایک وجہ پاکستانی طالبان، جنہیں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے دوبارہ سر اٹھانا بھی ہے۔

افغان طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے پاکستانی عسکریت پسندوں نے 2007 میں ٹی ٹی پی تشکیل دی تھی۔

ایک وقت میں ٹی ٹی پی شمال مغربی پاکستان کے بڑے حصے پر اپنا تسلط رکھتی تھی، لیکن 2014 کے بعد فوجی کارروائی کے ذریعے اسے شکست دی گئی۔

لیکن پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے مطابق، طالبان حکومت کے پہلے سال کے دوران پاکستان نے عسکریت پسندوں کے حملوں میں 50 فیصد اضافہ دیکھا، جو افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں مرکوز تھے۔

مئی 2022 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملالہ یوسفزئی کو گولی مارنے کے لیے بھی مشہور ٹی ٹی پی نے ”طالبان کے قبضے سے افغانستان میں تمام غیر ملکی انتہا پسند گروپوں میں سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا“۔

گزشتہ سال کابل نے اسلام آباد اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن مذاکرات کیلئے ثالثی کی تھی، لیکن اس ثالثی کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی اب ختم ہو گئی ہے۔

شائع 04 فروری 2023 03:48pm

پشاور میں دس دنوں کے لئے دفعہ 144 نافذ

پشاور میں سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر دس دنوں کے لئے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی، جس کے تحت پانچ یا پانچ سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی ہوگی۔

ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) پشاور شفیع اللہ خان کا کہنا ہے کہ ضلع پشاور میں دفعہ 144 دس دنوں کے نافذ العمل رہی گی۔

ڈی سی پشاور نے کا کہنا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف دفعہ 188 کے تحت کارروائی کی جائی گی۔

تعزیرات پاکستان کا سیکشن 188 کہتا ہے کہ جو شخص سرکاری حکام کی طرف سے نافذ کردہ وقتی اور ہنگامی احکامات کی خلاف ورزی کرے گا اسے 6 ماہ کی قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔

شائع 04 فروری 2023 10:09am

پشاور دھماکا: مشتبہ خاتون کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا

<p>تصویر/ اے ایف پی</p>

تصویر/ اے ایف پی

پشاوردھماکے کے واقعے میں گرفتار مشتبہ خاتون کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا، خاتون پہلے ہی ضمانت پررہا ہے۔ پولیس کی جانب سے ایف آئی آرمیں مزید دفعات شامل کی جائیں گی۔

گزشتہ روزتفتیشی ٹیم نے مختلف زاویوں سے تفتیش کے بعد خودکش حملہ آور کا چہرہ اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے نکالی جانے والی تصویرمیچ کی تھی اور مشتبہ خاتون کا ڈی این اے بھی لیا گیا تھا لیکن وہ میچ نہیں ہوا۔

پولیس نے دہشتگرد کے خاندان تک پہنچنے کیلیے تفتیش کا عمل تیز کردیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دہشتگرد سے ملنے والے ہیلمٹ اور جوتوں کا بھی جائزہ لیاجارہاہے۔

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق خود کش بمبار ہیلمٹ رکھ کر مسجد میں داخل ہوا، ہیلمٹ مسجد کے باہر جوتوں والی جگہ پر رکھا ہوا تھا۔

پشاورپولیس لائنزمسجد میں دھماکے کی ایف آئی آر میں مزید دفعات شامل کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔

دوسری جانب لیڈی ریڈنگ اسپتال میں دھماکے کے 22 زخمی زیرعلاج ہیں جن میں سے 6 تشویشناک حالت کے باعث آئی سی یومیں ہیں۔

اپ ڈیٹ 03 فروری 2023 07:13pm

ایپکس کمیٹی کا افغانستان سے دو ٹوک بات کرنے اور کالعدم تنظیموں کیخلاف ٹارگیٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ

<p>فوٹو — آئی این پی</p>

فوٹو — آئی این پی

<p>فوٹو — آئی این پی</p>

فوٹو — آئی این پی

ایپکس کمیٹی نے افغانستان کے ساتھ دو ٹوک بات کرنے اور کالعدم تنظیموں کے خاتمے کے لئے ٹارگیٹڈ آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

گورنر ہاؤس پشاور میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں دہشت گردی کا یکجا ہوکر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، وفاقی وزراء، گلگت بلتستان اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم، پولیس حکام اور اعلیٰ سرکاری افسران شریک ہوئے۔

اجلاس میں فیصلہ ہوا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پڑوسی ممالک سے بات کی جائے گی، البتہ اجلاس کے فیصلے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں پیش کئے جائیں گے جہاں اس ضمن میں حتمی فیصلے ہوں گے۔

اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین کا استعمال برداشت نہیں ہوگا، افغان حکام کو پاکستان مخالف عناصر کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے۔

ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بارڈرز کو مکمل محفوظ بنانے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کے لئے انٹیلی جنس شیئرنگ ہوگی، آپریشن میں تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے شریک ہوں گے اور ادارے دہشت گردوں کا ازسرنو ڈیٹا بھی تیار کریں گے۔

اس سے قبل ایپکس کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 30 جنوری کو پشاور میں پولیس لائنز مسجد میں دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا، مسجد میں 85 نمازیوں کو شہید کیا گیا، آج ہم سب یہاں شہداء کے خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آئے۔

شہباز شریف نے کہا کہ سول لائن میں دہشت گرد چیک پوسٹ سے گزر کر مسجد تک پہنچا، اے پی سی کے بعد پشاور میں اندوہناک واقعہ پیش آیا، اس وقت پوری قوم اشکبار ہے، قوم سوال کرتی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد یہ واقعہ کس طرح رونما ہوا، پشاور واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ناجائز تنقید قابل مذمت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکیورٹی کمزوری کی ضرور تحقیقات ہوں گی لیکن یہ کہنا کہ ڈرون حملہ تھا نامناسب ہے، قوم سوچ رہی ہے کہ کس طرح اس ناسور کو قابو کیا جائے، قوم سوچ رہی ہے دہشت گردی کے اس ریلے کو کس طرح ختم کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ وفاق اور صوبے مل کر اس کی اونر شپ لیں، سیاسی اور علاقائی اختلافات کو پس پشت ڈالیں، یک جاں دو قالب کی طرح اکھٹے ہوکر دہشت گردی کا مقابلہ کریں، قومیں بنتی بھی ہیں اور ٹوٹتی بھی ہیں، یقین ہے کہ ہم مل کر دہشت گردی پر قابو پائیں گے، ہم تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا، ضرب عضب اور ردالفساد کے نتیجے میں دہشت گردی دم توڑ گئی تھی، ہمارے دوست اور مخالف بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان واحد ملک ہے جس نے شدید دہشت گردی کا خاتمہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ افواج پاکستان نے دہشت گری کے خلاف بے پناہ قربانیاں دیں، ہزاروں افسران، سپاہی اور ان کے خاندان کے افراد شہید ہوئے، پولیس اور سول آرمڈ فورس نے قربانیاں دیں، عام شہریوں نے دہشت گردی کا دلیری سے مقابلہ کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ تاریخ شہیدوں اور ہیرو کو سنہری الفاظ میں یاد رکھے گی، ان قربانیوں کو کبھی بھلایا نہ جاسکے گا، ہمیں تنقید برائے تنقید سے پرہیز کرنا ہوگا، ہمیں حق بات کہنا ہوگی، اگر واقعہ سازش کا حصلہ تھا تو پچھلے چند سالوں کے واقعات کس چیز کا حصہ تھے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پشاور دھماکا ایک دہشت گردی کا واقعہ تھا، ہر بار طعنہ ملتا تھا کہ وفاق ساتھ نہیں دے رہا اور وسائل کی کمی ہے، 417 ارب 2010 کا این ایف سی ایوارڈ دیا گیا، 13 سال میں یہ رقم 35،36 ارب روپے بنتی ہے یہ کہاں گئیِ۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے، خیبرپختونخوا میں کوئی شہید ہوتا ہے تو پاکستان کا سپوت ہے، یہاں فرانزک لیب بناتے، سیف سٹی بناتے، کے پی میں ایک چھوڑ کر 10 فرانزک لیب بنائے جاسکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ پاکستان کس معاشی بحران سے گزر رہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ جو شرائط طے کرنی ہیں وہ ناقابل تصور ہے، اگر رقم جائز طور پر خرچ ہوتی تو عوام آج چین کی نیند سوتے، ہمیں ہر قسم کے اختلافات کو ایک طرف کر کے سیسہ پلائی قوم کی طرح خود کو ڈھالنا ہوگا، جب تک قوم کو اکھٹا نہیں کریں گے بات نہیں بنے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج پھر ہمیں یکجہتی کی ضرورت ہے، بغیر یکجہتی کے ہم دہشت گردی کا مقابلہ نہیں کرسکتے، منگل کو اسلام آباد میں آل پارٹیزکانفرنس ہوگی، آل پارٹیزکانفرنس میں تمام جماعتوں کو مدعو کیا ہے، جو مجھ سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے ان کو بھی مدعو کیا ہے، ابھی عمل نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

شہبازشریف کا مزید کہنا تھا کہ ذاتی پسند نا پسند سے بالا تر ہوکر اقدامات اٹھانا ہوں گے، امید ہے نفی میں جواب نہیں آئے گا، ہمیں شہداء کے لواحقین کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، دہشت گردوں کا صوبے کے ایک انچ پر بھی قبضہ نہیں ہے، کچھ دوستوں نے کہا تھا کہ کے پی دھیان کرو، حالات خراب ہورہے ہیں۔

وزیراعظم شہبازشریف نے شہداء کے لواحقین کے لئے معاوضے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہداء کے لواحقین کو 20 لاکھ روپے دیے جائیں گے، زخمیوں کو 5 لاکھ روپے فی کیس دیے جائیں گے۔

ایپکس کمیٹی اجلاس میں شہداء کے لئے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔

شائع 03 فروری 2023 03:28pm

پشاور پولیس لائنز خودکش دھماکا کیس میں اہم پیشرفت

پشاور پولیس لائنز خودکش دھماکا کیس میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔

تفتیشی ٹیم نے مختلف زاویوں سے تفتیش کی تازہ ترین اپ ڈیٹ یہ ہے کہ خودکش حملہ آور کا چہرہ اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے نکالی جانے والی تصویرمیچ کرگئی ہے۔

مزید پڑھیں: پشاوردھماکا: مبینہ خود کش حملہ آور کی نئی فوٹیج سامنے آگئی

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق خود کش بمبار ہیلمٹ رکھ کر مسجد میں داخل ہوا، ہیلمٹ مسجد کے باہر جوتوں والی جگہ پر رکھا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: پشاور دھماکا: خودکش حملہ آورکی ڈی این اے رپورٹ تیار

خود کش حملہ آور کی شناخت کے لئے خاتون کو حراست میں لے لیا، خاتون کا ڈی این اے لے لیا گیا، خودکش بمبار کی فیملی سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔

شائع 03 فروری 2023 12:54pm

پشاوردھماکا: مبینہ خود کش حملہ آور کی نئی فوٹیج سامنے آگئی

پشاور پولیس لائنز کے مبینہ خود کش بمبار کی ایک اور ویڈیو سامنے آگئی ۔ حملہ آور کے جسمانی اعضا اور ہیلمٹ بھی مل گیا۔

سامنے آنے والی نئی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خود کش حملہ آور موٹرسائیکل پر گھومتا رہا لیکن پولیس یونیفارم میں ملبوس ہونے کے باعث کسی نے اس پر شک نہیں کیا۔

پولیس کو خود کش حملہ آور کے جسمانی اعضا ، جوتے اور ہیلمٹ بھی مل گیا ہے۔

گزشتہ روز آئی جی خیبرپختونخواہ معظم جاہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج آگئی ہے، ایک فوٹیج سے پولیس لائن کی طرف آتے ہوئے خود کش بمبارکویکھا ہے، وہ اور مسجد سے سربریدہ ملنے والا ایک ہی آدمی ہے جو پولیس یونیفارم میں تھا، فوٹیج میں اس نے عام جیکٹ پہنی ہوئی ہے اورسر پر ہیلمٹ ہے، جس موٹرسائیکل پر آیا تھا وہ تلاش کرلی ہے، انجن چیسز نمبر مٹایا یوا تھا، لیکن اسے بھی ٹریس کرلیا ہے۔

آئی جی معظم جاہ نے مزید بتایا تھا کہ انہوں نے بتایا کہ خودکش حملہ آور 12 بج کر 37 منٹ پر گیٹ سے اندر داخل ہوا اور ہمارے حوالدار سے پوچھا کہ مسجد کس طرف ہے ، وہ اندر سے واقف نہیں تھا، یقینناً کسی نے ٹارگٹ دیا ریکی بھی ضرور ہوئی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائنزمیں لگے کیمروں سے چہرہ نظرآگیا، اگلا مرحلہ شناخت کا ہے اوردہشتگرد کے سہولت کاروں تک پہنچنے کا ہے۔

شائع 03 فروری 2023 08:53am

برطانوی شاہی خاندان کا بھی سانحہ پشاور پر افسوس کا اظہار

<p>فوٹو۔۔۔۔۔ اے ایف پی</p>

فوٹو۔۔۔۔۔ اے ایف پی

برطانوی شاہی خاندان نے بھی سانحہ پشاور میں قیمتی جانوں کے ضیائع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

برطانوی ہائی کمیشن کے مطابق برطانوی شاہی خاندان کی جانب صدر پاکستان کے نام پیغام میں شاہ چارلس نے کہا کہ برطانوی شاہی خاندان پاکستانی عوام کے غم میں برابر کا شریک ہے، پشاور بم حملے پر صدمہ پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل فہم سفاکانہ اور وحشیانہ حملہ تھا، ایسی کارروائیاں کہیں بھی ہوں وہ ہماری مشترکہ انسانیت، ہماری افہام وتفہیم اور ہمدردی کی اقدار پر ہوتی ہیں، سب سے خوفناک یہ ہے کہ دہشت گردی کے متاثرین عبادت گاہ میں تھے۔

شائع 02 فروری 2023 08:54pm

خیبرپختونخوا پولیس دہشتگردوں کا ہدف کیوں بنی ہوئی ہے؟

Asif Zardari par Imran Khan kay qatal ki sazish ka ilzaam kyun?| Faisla Aap Ka with Asma Shirazi

انسپکٹر جنرل (آئی جی) معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا پولیس کی اپنی ایک شناخت ہے، اس کا ایک ماضی، ایک تاریخ ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں مزیبان عاصمہ شیرازی کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں آئی جی معظم جاہ نے کہا کہ گزشتہ سال دہشتگردی کے واقعات دوبارہ شروع ہونے کے بعد خیبرپختونخوا پولیس کو ٹارگٹ کیا جانا ایک بڑے ڈیزائن کا حصہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا پولیس کی فورس ایک لاکھ 30 ہزار ہے، ان میں سے اگر ایک اہلکار 12 گھنٹے ڈیوٹی دے تو 65 ہزار باوردی اہلکار آپ کو شہر میں نظر آئیں گے، ہر ایک جوان کا نام نظر آتا ہے، رینک لکھا ہوتا ہے، اس لئے اس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ وہ آسان ہدف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس اہلکار کو نہیں پتا کہ اس کے گرد جو ہزار پانچ سو لوگ پھر رہے ہیں ان میں کون دہشتگرد ہے۔

آئی جی معظم جاہ نے کہا کہ دور سے فائر کرنا، انفرادی حملے کرنا، پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنانا بھی عام بات ہے، کیونکہ ان کی بھی اپنی شناخت ہے۔

آئی جی خیبر پختونخوا نے کہا کہ پچھلے ایک گھنٹے کے اندر پولیس پر حملے کے مزید دو واقعات ہوچکے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس کو نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ مقامی بطور پر پولیس کو لوگ فخریہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، انہیں یہاں اپنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا پہلا قدم ہے پولیس پر حملے کرنا، ان کا حوصلہ توڑنا تاکہ یہ اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں، احتجاج کریں، تھانے خالی ہوجائیں اور جب عوام کی حفاظت کیلئے کوئی نہ ہو تو دہشتگرد اپنی رٹ قائم کریں۔ آئی جی کے پی نے کہا کہ پولیس کو ایک منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے، لیکن ہم نے ان میں سے کئی حملوں کا جواب دیا ہے یا انہیں ٹریس اور ٹریک کیا ہے۔

معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا کہ ہم ایک جنگ کی حالت میں ہیں، جنگ میں ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے اور ان کا بھی، ہم نے یہ جنگ نقصان سے بالکل قطع تعلق ہوکر لڑنی ہے اور اس جذبے سے آگے نہیں بڑھے تو اس جنگ کو جیتنا مشکل ہوجائے گا۔

سیکورٹی لیپس کے سوال پر آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ میں نے تسلیم کیا سیکیورٹی لیپس تھا، حملہ آور کیونکہ پولیس کی وردی میں تھا، جس طرح اس نے خود کو جس طرح پیش کیا ہمارے لوگوں کو لگا کہ وہ اپنا پیٹی بند بھائی ہے، وہ موٹر سائیکل کو کھینچتا ہوا پولیس لائن میں لایا اور بڑے آرام سے چلتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیکیورٹی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، آج میں پولیس لائن میں داخل ہوا تو میری گاڑیوں کی بھی تلاشی لی گئی، میں نے تمام کو ہدایات دی ہیں کہ چیکنگ پر اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئیے، سینئیر افسر ہو یا کوئی بھی سب کی گاڑی کی جامع تلاشی لینی ہے۔

پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور دہشتگردوں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اندرونی مدد کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، ہم پورے نیٹ ورک تک پہنچیں گے تو آگے مزید لیڈ پر کام کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب برطانیہ میں پلے بڑھے اور تعلیم یافتہ لوگ داعش اور القاعدہ میں شامل ہوسکتے ہیں تو یہ کہیں بھی ہوسکتا ہے، جب لبرل معاشرے میں ایسے لوگ ہوسکتے ہیں پاکستان میں تو ویسے ہی قدامت پسند معاشرہ ہے۔

سیاسی جماعتوں پر دہشتگردی کا باعث بننے کے الزامات پر آئی جی کے پی نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ہم ریاست، حکومت پاکستان اور عوام کے ملازم ہیں، ہم ہر ایک کیلئے وہ خدمات کریں گے جو قانون ہمیں کہتا ہے۔ میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا۔

دہشتگردوں کی دوبارہ گروہ بندی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 15 اگست 2021 میں افغانستان حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں جو لوگ تھے ان میں سے بہت سے یہاں آئے ہیں۔ ان دہشتگردوں کے ساتھ مجرموں کا ساتھ بھی ہے جو اپنے علاقوں میں کچھ نہیں تھے لیکن اب یہ عوام کو ڈراتے دھمکاتے اور بھتے لیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ہمارے پاس بھتے کی کالز آرہی تھیں اور تمام نمبرز افغانستان سے تھے، ہمارے پاس حکومتی سطح پر کوئی قانونی مدد نہیں تھے۔ ہم افغان نمبرز کو بلاک بھی کردیں تو واٹس ایپ بلاک نہیں کرسکتے۔

معظم جاہ انصاری نے آخر میں بتایا کہ ہم نے سیف سٹی پروجیکٹ کو دوبارہ سے لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، 2023 میں اس کا فیز 1 مکمل کر لیں گے۔

شائع 02 فروری 2023 07:26pm

سانحہ پولیس لائن کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

سانحہ پولیس لائن کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی، جس میں مبینہ دہشتگرد کا چہرا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔

فوٹیج کے مطابق مبینہ دہشت گرد 12 بج کر 39 منٹ پر پولیس لائن میں داخل ہوا۔

ذرائع کے مطابق میبنہ دہشت گرد نے 37 منٹ پولیس لائن میں گزارے، حملہ آور نے مسجد میں جماعت شروع ہونے کا انتظار کیا اور جماعت کھڑے ہوتے ہی مسجد میں خود کو اڑا دیا۔

مبینہ دہشت گرد کو ماسک پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔

اپ ڈیٹ 02 فروری 2023 07:39pm

پشاور دھماکا: ہم پر الزام نہ لگائیں اپنے اندر خرابی تلاش کریں، افغان وزیر خارجہ

<p>تصویر بزریعہ اے ایف پی</p>

تصویر بزریعہ اے ایف پی

افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے پشاور دھماکے سے متعلق الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پر الزام نہ لگائیں اپنے اندر خرابی تلاش کریں۔

پشاور کی پولیس لائن مسجد میں مبینہ خودکش دھماکے کے بعد وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے دہشت گردی کی منصوبہ بندی پروسی ملک میں کئے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔

دھماکے کے بعد جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ سے گفتگو میں وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو ہمارے ایک ہمسایہ دوست ملک میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں، وہ وہاں بیٹھ کر پلاننگ کرتے ہیں اور یہاں آکر بڑے آرام سے کارروائی کر ڈالتے ہیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کارروائی کرنے کے بعد جب کبھی کالعدم ٹی ٹی پی کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہاں محفوظ نہیں، تو سرحد پار چلے جاتے ہیں جہاں انہیں سیفٹی حاصل ہے۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں پاکستانی حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پشاور دھماکے کی باریکی سے تحقیقات کریں، اپنا بوجھ ہم پر نہ ڈالیں۔

امیر خان متقی نے کہا کہ 20 برس جنگ لڑی، لیکن ایسی کوئی خودکش جیکٹ نہیں دیکھی جو چھت اڑائے۔

افغان وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر الزام نہ لگائیں اپنے اندر خرابی تلاش کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم مسئلہ ہوتے تو چین اور ایران میں بھی دہشتگردی ہوتی، دشمنی کے بیج نہ بوئیں بھائیوں والا رویہ رکھیں۔

پیر کو پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں نماز ظہر کے دوران خودکش حملے کے دوران 100 سے زائد پولیس اہلکار شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

شائع 02 فروری 2023 07:38pm

ہم الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتے، دفتر خارجہ

پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے عبوری افغان حکومت سے مخلصانہ تعاون کی امید رکھتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ افغانستان اس سلسلے میں پاکستان اور عالمی برادری سے کئے گئے وعدے پورے کرے گا۔

یہ بات دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے آج اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کے لئے مشترکہ خطرہ ہے اور ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بے گناہ شہریوں کو پر تشدد کارروائیوں میں نشانہ بنانے والے عناصر کے خلاف بھرپور انداز میں کھڑا ہونا چاہیے۔

ترجمان نے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور ہر شہری کا تحفظ یقینی بنانے کے پاکستان کے عزم کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم، ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی ملک اپنے علاقے کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا، یہ وقت ہے کہ عالمی برادری سے کئے گئے وعدوں کو ایمانداری اور مخلصانہ طریقے سے پورا کیا جائے۔

ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پاکستان کی ایک خارجہ پالیسی ہے جس کی ترجیحات میں تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک، یورپی یونین، امریکا اور روس سمیت تمام ممالک کے ساتھ تعمیری مذاکرات کئے ہیں۔

ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ مستقبل میں روس کے ساتھ اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ امور خارجہ کی وزیر مملکت حنا ربانی کھر کل سے سری لنکا کے دو روزہ دورے پر روانہ ہوں گی۔

ترجمان نے کہا کہ وزیر مملکت سری لنکا کے 75 ویں یوم آزادی میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کریں گی ، یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت کے ساتھ ساتھ دوسری فسطائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گی اور سری لنکا کے وزیر خارجہ سے بھی ملاقات کریں گی۔

ترجمان نے کہا کہ پاکستان اور سر ی لنکا کے تاریخی تعلقات میں جو دوطرفہ تعاون کے تمام شعبوں میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم نے سارک سمیت کثیر جہتی فورمز پر اکھٹے کام کیا ہے، وزیر مملکت کا دورہ دونوں ممالک کے درمیان سمجھوتوں کو فروغ دینے اور مشکل وقت میں سری لنکا کیلئے پاکستان کی حمایت کا مظہر ہوگا۔

اپ ڈیٹ 02 فروری 2023 03:09pm

پشاور: پولیس لائنز مسجد دھماکے کے حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو آج نیوز کو موصول

CCTV footage of Peshawar incident - Aaj News

پشاور پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے حملہ آور کی تصویر اور ویڈیو آج نیوز کو موصول ہوگئی۔

تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ موٹرسائیکل سوارنے پولیس کا یونیفارم اورہیلمٹ پہنا ہوا ہے اور منہ ماسک سے ڈھکا ہے۔

اس حلیے کے باعث حملہ آور کو پولیس اہلکار ہی سمجھتے ہوئے باآسانی اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔

مزید پڑھیں: خودکش حملہ آور پولیس یونیفارم میں تھا، آئی جی خیبرپختونخوا

پشاورپولیس لائنز میں جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں، تو یقینناًحملہ آور نے کسی جگہ ماسک اتارا ہوگا اس لیے آئی جی کے کہنے کے مطابق اس کی شکل شناخت کرلی گئی۔

دوسری جانب پشاور خودکش دھماکے کے حملہ آور کی ویڈیو آج نیوز کو موصول ہوگئی۔

ویڈیو میں حملہ آور کو پولیس لائنز میں داخل ہوتا دیکھا جاسکتا ہے، حملہ آور 12 بج کر 36منٹ پر پولیس لائنز میں داخل ہوا۔

ویڈیو میں حملہ آور کو پیدل آتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اپ ڈیٹ 02 فروری 2023 12:12pm

دہشتگردوں کا نیٹ ورک ڈھونڈ نکالا، خودکش حملہ آور پولیس یونیفارم میں تھا، آئی جی خیبرپختونخوا

<p>فوٹو — اے ایف پی</p>

فوٹو — اے ایف پی

آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ کا کہنا ہے کہ قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے، دہشت گرد نیٹ ورک کے نزدیک پہنچ چکے ہیں، پشاورپولیس لائنز مسجد میں خود کش حملہ کرنے والا دہشت گرد موٹرسائیکل پرآیا تھا، فوٹیج میں خیبرروڈ سے پولیس لائن کی طرف آتے ہوئے خود کش بمبارکو دیکھ لیا ہے، وہ پولیس یونیفارم میں آیا تھا۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا نے انتہائی غم وغصے کی حالت میں کہا کہ میں ثبوت کے ساتھ بات کروں گا، میں اور میرے جوان تکلیف میں ہیں، گزارش ہے کہ ہماری تکلیف میں اضافہ نہ کیا جائے، یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم بے حس ہیں، ہم عزت دار لوگ ہیں اور دکھ میں ہیں جن کا مرہم چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایک شہید کا بدلہ لیں گے، قربانیاں رائیگاں نہیں ہونے دیں گے۔ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے نزدیک ہیں جو اتنی زیادہ شہادتوں کی وجہ بنا اور کے پی کا امن خراب کیا۔

گزشتہ روز کے پولیس اہلکاروں کے احتجاج کے حوالے سے آئی جی نے کہا کہ میرے جوانوں کے غم میں اضافہ کرنا، انہیں گمراہ کرنا ، سڑکوں پر لانا کسی صورت برداشت نہیں کرسکتا۔ افواہیں پھیلانے سے گریز کیا جائے، اہلکاروں کو احتجاج پر اکسانا قوم کی خدمت نہیں ہے، پولیس فورس پورے عزم کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔

سیکیورٹی میں خامی کا اعتراف کرتے ہوئے آئی نے کہا کہ معاملات کو دیکھ رہے ہیں، سازشی عناصر باز رہیں، قوم کا مورال گرانے کی کوشش نہ کریں۔ سازش کی گئی کہ یہ ڈرون حملہ تھا لیکن میڈیا نے دیکھا مسجد کی چھت ایک ٹکڑے میں زمین پر گری ہے۔

پولیس لائنز مسجد کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسجد 50 سال قبل اپنی مدد آپ کے تحت بنائی گئی تھی، جب دھماکا جب ہوا تو باہر نکلنے کا راستہ نہیں تھا، سامنے محراب ہے اور بند دیوار ہے۔ ایک سائیڈ پر فیملی کوارٹرز ہیں، کھڑکیاں نہیں ہیں، پیچھے پوری دیوار ہے اور ایک دروازہ ہے جہاں سے لوگوں کا آنا جانا ہے۔ جب 10 سے 12 کلو ہائی ایکسپلوژو ٹی این ٹی کا دھماکا ہوا تو شاک ویوز سے دیواریں گریں، ستون نہیں ہیں تو دیواریں گرنے سے چھت بھی نیچے آئی اور تمام نمازی اس کے نیچے آئے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے سامنے 36 گھنٹے سے ملبہ ہٹا رہے تھے، چاہتے تو 2 گھنٹے میں ہٹا دیتے لیکن احتیاط کی کیونکہ نیچے نمازی دبے ہوئے تھے اور آج جو بچ جانے والے سانس لے رہے ہیں،اسی احتیاط کی وجہ سے لے رہے ہیں۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ دائیں بائیں سے رنگ برنگے لوگ میرے بچوں کی لاشوں پر سیاست نہ کریں،تحقیقات مکمل ہوجائے گی تو شفافیت سے سامنے کھڑا کروں گا کہ یہ کون سا گروپ تھا اور کہاں سے آئے تھے، مجھے اتنا تنگ نہ کریں کہ میں کہوں اپنا بدلہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج آگئی ہے، میرے پاس 5 ،10 ،20 ہزار فون ہیں جن کا ڈیٹا نکالنا ہے اور اس کے لیے وقت چاہیے۔ ایک فوٹیج سے پولیس لائن کی طرف آتے ہوئے خود کش بمبارکویکھ لیا ہے، وہ اور مسجد سے سربریدہ ملنے والا ایک ہی آدمی ہے جو پولیس یونیفارم میں تھا، فوٹیج میں اس نے عام جیکٹ پہنی ہوئی ہے اورسر پر ہیلمٹ ہے، جس موٹرسائیکل پر آیا تھا وہ تلاش کرلی ہے، انجن چیسز نمبر مٹایا یوا تھا، لیکن اسے بھی ٹریس کرلیا ہے۔

آئی جی معظم جاہ نے مزید کہا کہ پولیس لائنز میں لگے کیمروں سے چہرہ نظرآگیا، اگلا مرحلہ شناخت کا ہے اور دہشتگرد کے سہولت کاروں تک پہنچنے کا ہے، برائے مہربانی جلد بازی نہ کریں ، مجھے کام کرنے دیں۔

انہوں نے بتایا کہ خودکش حملہ آور 12 بج کر 37 منٹ پر گیٹ سے اندر داخل ہوا اور ہمارے حوالدار سے پوچھا کہ مسجد کس طرف ہے ، وہ اندر سے واقف نہیں تھا، یقینناً کسی نے ٹارگٹ دیا ریکی بھی ضرور ہوئی ہوگی اور طریقہ کار سمجھایا گیا تو یہ اکیلا آدمی نہیں تھا۔

معظم جاہ انصاری نے مزید کہا کہ جو بات کریں گے پورے ثبوت سے کریں گے، بال بیرنگز ہمارے پاس ہیں، راتوں کو جاگ کر بہت تیزکام کررہے ہیں۔ انہوں نے شعرپڑھتے ہوئے کہا کہ میرے بچے جنہیں لڑنے کے لئے ٹرینڈ کیا وہ اگر اپنے تحفظ کی بات کرنا شروع کردیں تو میں کیا کہوں۔ ’تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے ، میں کس کے ہاتھ پراپنا لہو تلاش کروں“۔

انہوں نے کہا کہ میرے جوان اپنا تحفظ خود کریں گے، ہم نے سب سے بات کی ہے انہیں بتایا ہے کہ آپ کا راستہ احتجاج کا نہیں دشمن کو ڈھونڈنے اور بدلہ لینے کا ہے۔

آئی جی نے شہداء کے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ خون کی جنگ ہے ایندھن کی نہیں، جنگ میں نقصان ہوتا ہے۔ مفروضات بند کریں اور ہمیں غمزدہ نہ کریں، آج حلف لیا ہے کہ خون کا آخری قطرہ بھی دینا پڑا تو دیں گے ، کسی کو صوبے کے امن سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

شائع 02 فروری 2023 08:36am

وائٹ ہاؤس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی بھی پشاور دہشتگرد حملے کی شدید مذمت

<p>دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ترجمان نیڈپرائس - تصویر/ روئٹرز</p>

دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، ترجمان نیڈپرائس - تصویر/ روئٹرز

وائٹ ہاؤس کے بعد امریکی محکمہ خارجہ نے بھی پشاور میں دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔

ترجمان نیڈپرائس نے کہا دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں اسے ختم ہونا چاہیے، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمارے دل متاثرین اور لواحقین کے ساتھ ہیں۔

گزشتہ روز ہی امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا تھا کہ یہ افسوسناک اور دل دہلا دینے والی خبر ہے امریکا دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دہشت گردی ناقابل دفاع ہے

شائع 01 فروری 2023 09:26pm

’یہ نومبر 2022 کا لگایا ہوا فیوز تھا جو کل پشاور میں پھٹا‘

<p>تصویر بزریعہ اے ایف پی</p>

تصویر بزریعہ اے ایف پی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما صداقت علی عباسی پوچھتے ہیں کہ کیا شہباز شریف حکومت کے 10 مہینوں میں کوئی بھی ایسا کام کیا جو عمران خان دہشتگردی کے خلاف پالیسی کا متبادل ہو؟ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ اب بھی سربریدہ مرغی کی طرح دیوار میں ٹکریں مار رہے ہیں۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان اور سینئیر صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ گفتگو میں صداقت علی عباسی نے کہا کہ عمران دور میں جو بھی پالیسی بنتی تھی وہ تمام ریاستی اور سیکیورٹی اسٹیک ہولڈرز کے تحت بنتی تھی۔

عاصمہ شیرازی نے جب لقمہ دیا کہ وہ (اسٹیک ہولڈرز) کون تھے تو صداقت عباسی نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ تھے۔ جس پر عاصمہ نے مزید لقمہ دیا کہ جنرل (ر) باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض تھے، تو آپ ان کے نام لیں نا۔

جس پر پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیا کہ اس وقت کے سیکیورٹی اسٹیک ہولڈرز ایک ہوکر عمران خان کی ویژن کے مطابق چل رہے تھے، پھر عمران خان کی حکومت توڑ دی گئی اور ان کا اتحاد امریکا کے ساتھ ہوگیا۔

’عمران کی بزدلانہ مصالحت کی پالیسی‘

پروگرام میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے توانائی انجینئیر خرم دستگیر سے جب پوچھا گیا کہ دہشتگردی کیلئے عمران خان کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جارہا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ”کیونکہ عمران خان جس بزدلانہ مصالحت کے داعی ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان میں 83 ہزار پاکستانیوں کی قبریں ہیں، وہ قبریں میں کہاں لے کر جاؤں؟“

انہوں نے کہا کہ ”کہا گیا جی یہ تو اچھے لوگ ہیں ان سے بات کرنی چاہئیے، ان اچھے لوگوں نے 93 ہزار پاکستانی، چھ ہزار فوجی شہید کردئیے، کہاں لے کر جاؤں میں۔“

ان کا کہنا تھا کہ تاریخ نے عمران خان کو غلط ثابت کیا ہے، سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ہم نے کامیابی سے جنگ لڑی، لیکن عمران خان کی حکومت میں بزدلانہ مصالحت کی پالیسی کی وجہ سے یہ عفریت دوبارہ آیا ہے۔

ٹی ٹی پی کو عام معافی کی پیشکش

خرم دستگیر نے کہا کہ 11 ستمبر 2021 کو صدر عارف علوی نے تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی کی پیشکش کی تھی، پانچ دن بعد 16 ستمبر کو وزیر خارجہ نے دوبارہ پیشکش کی اور 19 ستمبر 2022 کو طالبان نے اسے مسترد کردیا تھا۔ انہوں نے کہا ہم تو آپ کے آئین کو مانتے ہی نہیں، آپ ہمیں کونسی معافی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ مذاکرات ہوئے اور سیز فائر ہوا، لیکن نومبر 2022 میں جس کی ان کے پاس سوائے بزدلانہ مصالحت کے کوئی توجہی نہیں ہوسکتی انہوں نے عمران خان کی حکومت نے 100 ٹی ٹی پی کے پکڑے ہوئے لوگوں کو آزاد کردیا۔

خرم دستگیر نے کہا کہ ”یہ نومبر 2022 کا لگایا ہوا فیوز تھا جو کل پشاور میں پھٹا ہے۔“   انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے معاملے میں کوئی گڈ ٹیررسٹ یا بیڈ ٹررسٹ نہیں ہوسکتے، جو پاکستانیوں اور افواج پاکستان کے قاتل ہیں ان کے ساتھ مصالحت نہیں ہوسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائن میں ہونے والا واقعہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ان کی 9 سالہ حکومت سیکیورٹی کے معاملات میں مکمل طور پر ناکام تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے شروع میں بنوں میں بھی جیل توڑی گئی اور آخر میں بھی جیل توڑی گئی اور یہ بے بس تھے۔

’مسلمان تو دور کی بات انسان بھی نہیں‘

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار منیب فاروق نے کہا کہ ہمارے ملک میں کوئی وزیراعظم کُلی طور پر بااختیار نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جو ذہنی طور پر جھکاؤ رہا ہے اور انٹرویوز میں انہوں نے باتیں کہیں ہیں کہ وہ سیٹلمنٹ (بسانا) چاہتے تھے، چالیس پینتالیس ہزار لوگوں نے آنا تھا اور ان میں ٹی ٹی پی کے فائٹرز بھی تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس گروہ کے ڈی این اے میں دہشتگردی ہو آپ اسے عام انسانوں میں کیسے شامل کیسے کرسکتے ہیں۔ جو افواج کے سر کاٹ کر اس سے کھیلتے رہے ہوں، مسجدوں میں عام لوگوں کو مارا ہو وہ مسلمان تو دور کی بات انسان بھی نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ قومی دھارے میں شامل کرکے کس احمقانہ سوچ اور مشن پر خود کو لگا لیتے ہیں اور ریاست بھی اس جانب چل پڑتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ایسے لوگوں کی سوچ پر ماتم کرتا ہوں کہ جو ناحق لوگوں کو ماریں، دہشت پھیلائیں اور آپ ان کے ساتھ معاہدے کریں۔

’آٹھ تاریخ کا پارلیمانی اجلاس اہم ہے‘

ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ پچھلے 10 مہینوں میں مغربی سرحد سے ہمارے اوپر حملے ہورہے تھے، اگچہ تشہیر نہیں کی گئی لیکن ہم نے دہشتگروں کے خلاف آپریشنز کئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ضرب عضب کے دوران قبائلی علاقوں میں جنگی سطح پر آپریشن ہوئے تھے، لیکن اب کیونکہ پاکستان میں کوئی قبائلی علاقے نہیں ہیں تو کیا ہم اس طرح کے آپریشن کرنے کا سوچ سکتے ہیں؟

وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے، پارلیمان کے پاس بھی جائیں گے، آٹھ تاریخ کا پارلیمانی اجلاس نئی پالیسی بنانے کے حوالے سے بڑا اہم ہے۔

’دہشتگردی کنٹرول کرنے میں اصل رول پولیس کا نہیں انٹیلی جنس اداروں کا ہوتا ہے‘

خرم دستگیر کی بات کا جواب دیتے ہوئے صداقت علی عباسی نے کہا کہ ن لیگ کی دہشتگردی کے خلاف کوئی پالیسی نہیں رہی، دہشتگرد چھوڑنے کی جو بات کی گئی وہ جون 2022 میں چھوڑے گئے تھے، اس وقت کس کی حکومت تھی وہ آپ ان سے پوچھ لیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا دہشت گردی کنٹرول کرنے میں اتنا زیادہ رول نہیں ہوتا، اصل رول انٹیلی جنس اداروں کا ہوتا ہے۔ اداروں کو تو ان لوگوں کے کن کاموں پر لگایا ہوا ہے، سیاستدانوں کی آڈیو ویڈیو ٹیپ آرہی ہیں، کسی نے کسی کو منشی کہہ دیا تو یہ ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔

گورنر کے خلاف آرٹیکل چھ

صداقت علی عباسی نے کہا کہ سیلاب کے بہانے انہوں نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرائے، اب انتخابات میں 90 سے سوا 90 دن ہوئے تو گورنرز پر عدالتوں سے آرٹیکل 6 لگوائیں گے، اس حکومت کو الیکشن کرانے پڑیں گے۔

استعفے کی تردید

ایک سوال کے جواب میں خرم دستگیر نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے واضح طور پر اپنے استعفے کی تردید کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ ایسا کوئی استعفا نہیں دیا وہ ابھی بھی پارٹی کے سینیر وائس پریزیڈنٹ ہیں۔

اپ ڈیٹ 01 فروری 2023 08:45pm

پختونخوا میں دہشتگردی کے واقعات، ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب

خیبرپختونخوا میں بڑھتے دہشتگردی کے واقعات کے پیش نظر جمعے کو ایپکس کمیٹی کا اجلاس پشاور میں طلب کرلیا گیا ہے جس میں متعلقہ اداروں کے سربراہان شرکت کریں گے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں دہشت گردی کے روک تھام سمیت دیگر اہم امور زیر بحث ہوں گے۔ صوبے میں امن وامان کے لئے ٹھوس اقدامات اور ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا جائے گا۔

اجلاس میں دہشت گردی میں ملوث عناصر، سہولت کاروں اور ٹھکانوں کی تازہ فہرست بھی پیش کی جائے گی۔

اپ ڈیٹ 01 فروری 2023 07:24pm

پشاور پولیس لائن مسجد دھماکا، خیبرپختونخوا پولیس احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئی

پشاور میں پولیس لائن مسجد دھماکے کے خلاف احتجاج میں باوردی پولیس اہلکار سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ احتجاج میں مختلف مکتبہ فکر کے نمائندگان بھی شریک ہیں۔

مظاہرین کی جانب سے ”کے پی پولیس زندہ باد“ اور ”امن غواڑو“ کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس لائنز مسجد دھماکے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔

دوسری جانب دھمکے کے خلاف مردان پولیس بھی سڑکوں پر نکل آٸی ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق پشاور پولیس لائنز دھماکے میں شہداء کی تعداد 101 ہوگئی ہے، اسپتالوں میں 59 زخمی زیرِ علاج ہیں جن میں آٹھ کی حالت تشویش ناک ہے، جبکہ 51 کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکاروں کی اجتماعی استعفے کی دھمکی

خیبرپختونخوا میں پولیس فورس کے جونیئررینک فسران نے پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کی مناسب تحقیقات نہ کروانے پرحکومت کو اجتماعی استعفے کی دھمکی دے دی۔

واٹس ایپ گروپ میں اس طرح کے پیغامات زیرگردش ہونے کے بعد اسپیشل برانچ کی جانب سے ڈی آئی جی پولیس اسپیشل برانچ، صوبائی افسران اور سی سی پی کو خط میں تفصیل بتائی گئی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں نامعلوم شخص کی جانب سے تحریری اور وائس میسجز چل رہے ہیں جن میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کیخلاف تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل اور اصل حقائق منظرعام پرلا کرذمہ داران سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ بصورت دیگر جونیئررینک کے اہلکاروں کی جانب سے متعلقہ یونٹ میں اجتماعی طور پر استعفے جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

خط میں تحریری پیغامات بھی نقل کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

1- ہمارے جوانوں کے خون کا بدلہ نہ لیا گیا تو پوری کے پی پولیس ڈیوٹی چھوڑ دے گی اور سارے جوان ایک ہی دن ایک ہی ساتھ استعفے جمع کروائیں گے۔ (منجانب آل کے پی کے پولیس جونیئررینکس)

2- آپ سب کو ایک ہونا پڑے گا ورنہ روز یہ جنازے اٹھانے پڑیں گے۔(منجانب آل کے پی کے پولیس جونیئررینکس)

تیسرا پیغام پشتو زبان میں ہے جس کا ترجمہ خط میں یوں درج ہے:

3- یہ تمام دوستوں کیلئے ایک واٹس ایپ میسج ہے جس کو زیادہ سے زیادہ اپنے واٹس ایپ گروپس میں شیئرکرنے کا کہاگیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ کل ہونے والے کھیل کی شفاف انکوائری کے لیے جے آئی ٹی نہ بنائی گئی اور پریس کانفرنس میں حقائق کو منظرعام پرنہ لایا گیا اور اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اسی طرح کاکوئی دوسرا واقعہ پیش آیا تو تقریباً ایک لاکھ 6 ہزار پولیس اہلکاروں میں سسے جونیئررینکس کے ایک لاکھ پولیس اہلکار ایک ہی دن ایک ہی وقت میں اجتماعی استعفے لکھ کراپنے اپنے یونٹ میں جمع کروائیں گے۔ افسوس ان سے رکشوں والے، نانبائی اور ٹرانسپورٹرزبہترہیں جو کم از کم اپنے حق کیلئے بطور احتجاج نکلتے ہیں۔ وہ بھی دو تین تنخواہیں نہیں لیں گے لیکن یہ کھیل مزید برداشت نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ پیر30 جنوری کو نمازظہرکے دوران پشاورمیں پولیس لائن میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل رات کو بھی جاری رہا۔ ریسکیو اہلکاروں نے مزید لاشیں ملبے سے نکالی ہیں جس کے بعد شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے۔

اپ ڈیٹ 01 فروری 2023 07:19pm

پشاور: پولیس لائنز دھماکے کا مقدمہ درج

<p>فوٹو۔۔۔۔۔ اسکرین گریب</p>

فوٹو۔۔۔۔۔ اسکرین گریب

پشاور میں پولیس لائنز دھماکے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانہ ایس ایچ او تھانہ شرقی نعیم حیدر کی مدعیت درج کرلیا گیا، ایف آئی آر میں دہشت گردی کے دفعات شامل کی گئی ہیں۔

بمبار ممکنہ طور پر بارودی مواد تھوڑا تھوڑا کرکے لایا، آئی جی

آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ کا کہنا ہے کہ پشاور پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 10سے 15 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، حملہ آور کے سہولت کاروں کا پتا لگارہے ہیں۔

آئی جی کے پی پولیس نے پشاورمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ اموات ملبےتلےدبنےکی وجہ سے ہوئیں، کالعدم تحریک طالبان نے پہلے ذمہ داری لینے کااعلان کیا اور پھرکہا کہ دھماکہ ہم نے نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی کے حکم پرتحقیقات کے لیے انٹرایجنسی جے آئی ٹی تشکیل دی جارہی ہے جس میں پولیس، حساس ادارے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔

آئی جی نے بتایا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی سینیئر ڈی آئی جی کریں گے جو پشاور پولیس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق یہ پولیس لائن پانچ چھ سو لوگوں اور ایک ایس پی کے لیے بنی تھی، آج یہاں چھ ڈی آئی جیز کے دفاتر ہیں جب کہ چھ مختلف یونٹس یہاں موجود ہیں۔

آئی جی کے مطابق اس پولیس لائن کی کوئی سینٹرل کمانڈ یہاں نہیں تھی، اس لیے تلاشی کا میکینزم گیٹ کی حد تک موجود تھا۔

معظم جاہ کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز میں کینٹینیں بھی ہیں اور تعمیراتی کام بھی چل رہا تھا اس دوران تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں بارودی مواد لایا گیا۔

آئی جی کے مطابق حملہ آور پیر کو ہی جیکٹ پہن کر نہیں داخل ہوا بلکہ سامان تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں لاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ خودکش حملہ اس دوران سائلین کے روپ میں یا مہمانوں کے روپ میں داخل ہوا، البتہ سکیورٹی کی ناکامی کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

پشاور دھماکے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ہمارا اندازہ ہے بارودی مواد 10 سے 12 کلو تک ہو سکتا ہے۔ دھماکے کے ساک کی وجہ سے پوری چھت نیچے آئی، ملبے تلے دبنے کے باعث ذ یادہ جانی نقصان ہوا۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ اس بات کی مکمل تحقیق کی جائے گی کہ خودکش حملہ آور کے سہولت کار کون تھے اور وہ کس طرح یہاں پہنچا۔

شائع 01 فروری 2023 02:28pm

پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کی ادائیگی

پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کی ادائیگی کی گئی ہے۔

پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کا اہتمام کیا گیا، باجماعت نماز ظہر پولیس لائنز مسجد ہال میں ادا کی گئی۔

نماز ظہر میں چیف کیپٹل پولیس آفیسر اعجاز خان، ایس ایس پی کوآرڈینیشن ظہور بابر آفریدی اور پولیس جوان شریک ہوئے۔

یاد رہے کہ 29 جنوری کو پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

شائع 01 فروری 2023 01:30pm

خادمِ حرمین شریفین کی پشاوربم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت

خادم حرمین شریفین نے پشاور میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تعزیت کا اظہارکیا ہے۔

سعودی باشادہ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کے نام خط لکھا، جس میں انہوں نے ہم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہارکیا۔

شاہ سلمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں ہونے والا دھماکا دہشت گردی ہے، ہم ہر قسم کی انتہا پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہیں سعودی عرب ہر طرح کی دہشت گردی کو مسترد کرتا ہے، جبکہ جاں بحق افراد کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

شائع 01 فروری 2023 12:30pm

کہا جاتا ہے دہشتگردوں سے مذاکرات کرو، ریاست کہاں ہے؟ سپریم کورٹ

<p>فوٹو۔۔۔۔۔۔ فائل</p>

فوٹو۔۔۔۔۔۔ فائل

پشاورخودکش حملے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اہم ریمارکس دیے ہیں کہ کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے قتل کے مقدمے کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے، جس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟

عدالت عظمیٰ کے جج نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دو وہ دو اور کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آج دہشت گرد 2 بندے ماریں گے کل کو 5 مار دیں گے، پتہ نہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں، ایک جج نے دہشت گردی کے واقعے پر رپورٹ دی لیکن اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔

سپریم کورٹ کے جج نے مزید ریمارکس دیے کہ لمبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا، ہمارے ایک جج کو مار دیا گیا کسی کو پرواہ ہی نہیں۔

واضح رہے کہ 29 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں اب تک امام مسجد اور اہلکاروں سمیت 101 افراد شہید ہوچکے ہیں، دھماکا عین نمازِ ظہر کے وقت ہوا جہاں حملہ آور پہلی صف میں موجود تھا۔

اطلاعات کے مطابق حملہ آور نمازیوں کے ساتھ تھانے کے مرکزی دروازے سے داخل ہوکر تین حفاظتی حصار عبور کرکے مسجد میں داخل ہوا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

شائع 01 فروری 2023 10:32am

ٹی ٹی پی پاکستان میں دوبارہ کیسے منظم ہوئی

پشاورپولیس لائنزکی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں 100 سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ سیز فائرکا فیصلہ درست تھا کیونکہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مقتدر حلقے ایسے خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اب پھر سے منظم ہو گی۔

آج نیوز کے پروگرام، ’فیصلہ آپ کا ’میں میزبان عاصمہ شیرازی نے ایسے ہی سوالوں کا جواب جاننے اور موجودہ فضا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے مستقبل پربات کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کے سینیئرصحافیوں فخرکاکاخیل، محمود جان بابر اورعادل شاہ زیب کو مدعو کیا جو ان معاملات پرگہری نظررکھتے ہیں۔

پشاوردھماکے کے بعد گزشتہ روزایوان میں کی گئی تقاریراور ماضی میں عمران خان کی جانب سے سیز فائراور طالبان کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ اے پی ایس کے بعد یہ دوسرا بڑا دہشتگردی کا واقعہ تھا۔ 100 گھروں کی بربادی کا ذمہ دار پالیسیوں کوقراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے جیسے لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان آگئے ہیں اور ہمارے یہاں کاکلعدم تنظمیں ٹی ٹی پی کی صورت میں مضبوط ترہوں گی کیونکہ یہ 20 سال امریکا کیخلاف افغان طالبان کی لڑائی میں شامل رہے ہیں۔ طلبان نے ملا ہبت اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہےاور ٹی ٹی پی والے ان کا حکم مانتے ہیں، افغان طالبان اسی لیے کھل کران واقعات کی مذمت نہیں کررہے ۔ چیزیں واضح تھیں لیکن ہمارے سیاستدان اور پالیسی ساز سوئے رہے، ہم چیخ چیخ کرکہتے رہے کہ سوات، شانگلہ ، بونیرمیں ان کی واپسی ہوچکی ہے، لوگوں نے مدد کی اہیل کی لیکن سابق وزیراعظم (عمران خان )سمجھتے تھے کہ طالبان غلامی کی زنجیریں تڑوارہے ہیں۔

عادل شاہ زیب نے شیخ رشید کی بطوروزیرداخلہ گزشتہ سال 22 فروری کی تقریرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگری کے واقعات میں اضافے کا پتہ تھا تو کس مینڈیٹ کے تحت آپ نے ٹی ٹی پی سے معاہدہ کیا۔

ری گروپنگ سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومت کی بےخبری سے متعلق سوال پرفخرکاکا خیل نے کہا کہ اگست 2022 میں یہ سوات کے اندرآئے، جنرل فیض اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ مذاکرات کی بات شروع کی گئی، ایڈجسٹمنٹ کے تحت 100 یا زائد طالبان کو رہا کیا گیا، سوات ، باجوڑ اور ملحقہ علاقون میں یہ آئے تو لوگ سڑکوں پرنکل آئے جس کے بعد اس معاملے میں کمی دیکھی گئی لیکن موجودہ معاملات میں ہمیں توجہ دینی چاہیئے کہ امریکی ڈیفنس کمیٹی کا خود ماننا ہے کہ وہ افغانستان میں 7 ارب ڈالرکا اسلحہ چھوڑ کرگئے ہیں، دوسری جانب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت نے صوبے کو ساڑھے 3 ارب کا مقروض بنادیا ہے۔

پشاور دھماکے کی ذمہ داری لینے پر ایک جانب ٹی ٹی پی کی جانب سے انکار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اسی گروپ کے کچھ لوگ اسے قبول کررہے ہیں۔ یہ صورتحال نومبر1989میں لے جاتی ہے، 40 سال کہا جاتا رہا روس کیخلاف جہاد ہے پھر خانہ جنگی شروع ہوئی اور ہھر امریکا آیا،20 سال سے کہا گیا جب تک امریکا افغانستان میں ہے پاکستان میں امن نہیں ہوسکتا۔ ٹی ٹی پی کے کچھ جہادی گروپوں کا ماننا ہے کہ امریکا چلا گیا اورپاکستان کبھی اس جنگ میں اس کا اتحادی نہیں رہا تو اب ہمیں شریعت کے تحت وقت گزارنا چاہیے لیکن دوسری جانب جہادیوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے، کفری نظام ہے تو اب ہمیں پاکستان کو بھی شکست دینی ہوگی۔ ان معاملات پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔

محمود جان بابرسے دھماکے کا نتیجہ سیکیورٹی لیپس اور طالبان کے اپنے اندر تقسیم کا شاخسانہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ واضح ہے کہ یہ سیکیورٹی لیپس تھا اور عین ممکن ہے آئی اور چیف سیکرٹری کوتبدیل کردیا جائے۔ یطالبان کے معاملے پر یکسوئی نہیں ہے، یہ کہاجاتا رہا کہ ہم ان سے نمٹ چکے ہیں ، آپریشن کرچکے ہیں لیکن 2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد جب آپریشن ہوا تو5 گروپ بنے تھے سب سے بڑا گروپ افغانستان چلاگیا،ایک نے تبلیغ کا راستہ اختیار کیا،جماعت الاحرار والے بھی افغانستان چلے گئے لیکن محسود یہیں رہے تو یہ کہنا کہ سب باہرسے آئے ہیں، درست نہیں کیونکہ زیادہ تر یہیں تھے اور خاموش تھے۔ کچھ لوگ یہاں آئے لیکن سب کے سب باہرسے نہیں آئے۔

عمران خان کی جانب سے پاکستان میں 5 سے 7 ہزار افراد کی آمد اور ان کی ری سیٹلمنٹ والے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے محمود جان بابرنے مزید کہا کہ گزشتہ سال کے اختتام پرمینافغانستان گیا تو ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بات ہوئی، مذاکرات کرنے والوں کے علاوہ بہت سے دیگرگروپ ان سے ناراض تھے کہ پاکستان سے بات نہ کریں،ٹی ٹی پی کل کے واقعے کی ذمہ داری لیتی تو اس کا قدکاٹھ بڑھ جاناتھا لیکن انہوں نے فاصلے پررہنے کو ترجیح دی جس کی وجوہات ہیں، ان سے ہٹنے والے لوگوں کے کچھ دوست افغانستان میں مارے گئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اس کا بدلہ پاکستان سے لیں گے۔

عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پالیسی ساز اداروں کو پارلیمان میں آکر واضح بتانا چاہیے کہ کیا افغان طالبان اور ریاست پاکستان کیخلاف لڑنے والے طالبان میں ابھی بھی گڈ اور بیڈ کی تفریق ہے یا ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں۔ کے پی میں پی ٹی آئی حکومت تھی تو کتنے ہی ایسے واضح بیانات آئے کہ وزیراعلٰی سمیت کئی وزراء اور ایم پیز طالبان کو بھتہ دے رہے ہیں تو انہوں نے لوگوں کی حفاظت کیسے کرنی تھی۔ اگر ملک کا وزیرداخلہ آج کرسوال اٹھائے کہ طالبان سے بات کا فیصلہ کس نے کیا تو عمران خان تو اس بات کو قبول کررہے ہیں کہ فیصلہ ان کا تھا لیکن کیا قومی قیادت کو اس حوالےسے اعتمادمیں لیا گیا، آج کورکمانڈر کانفرنس میں پی ٹی آئی نہیں تھی تو اس حوالے سے تمام قیادت کو آن بورڈ لیا جائے۔

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سےمتعلق بات کرتے ہوئے عادل شاہ زیب نے کہا کہ معاشی صورتحال اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بھول ہی جائیں۔ پی پی اور ن لیگ کو بھی دھمکیاں مل چکی ہیں تو ایک آدھ جلسے میں ایسا واقعہ ہوجاتا ہے تو ان کے ووٹرزہی باہر نہیں نکلیں گے۔ فرنٹ لائن پرجو پولیس ان کیخلاف لڑ رہی ہیں ان کے پاس اپنے تھانے تک نہیں ہیں اور وہ اسکولوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

کالعم ٹی ٹی پی کے ساتھ سیزفائرکے معاہدے کے پس پردہ محرکات کے حوالے سے فخر کاکا خیل نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرت میں ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ پی ٹی آئی اس تمام عمل میں کمزور گراؤنڈ پر کھیلتی رہی اور اندرونی حلقوں کا مانناتھا کہ ملا کنڈ سمیت ملحقہ علاقے ٹی ٹی پی کے حوالے کردیں گے۔ طالبان کو پی ٹی آئی کی شکل میں علی الاعلان سپورٹرز اورمالی امداد ملی۔ ڈھنگ کی حکومت ہوتی تو پی ٹی آئی کیخلاف یہی کیس بناتی کیونکہ ثبوت موجود ہیں، پی ٹی آئی نے اس سے انکار نہیں کیا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میڈیا پر آکرپی ٹی آئی کے لوگ طالبان کو اخلاقی سپورٹ دے رہے تھے۔

دھماکے کیلئے سہولت کاری کے سوال پرمحمود جان بابرکا کہنا تھا کہ ان دہشتگردوں، خود کش حمہ آوروں کو پرائیویٹ لگژری گاڑیوں میں لایا جاتا ہے جنہیں روکنے کا تصورہی نہیں کیا جاتا کیونکہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کسی کی ہیں،تو مسجد دھماکے میں جو بندہ اندرآیا دانستہ یا نادانستہ طور پر پولیس والے استعمال ہوئے ہیں۔ اندررہنے والے سویلین بھی دانستہ یا نادانستہ استعمال ہوئے۔ یہاں سیکیورٹی صبح 8 سے شام 5 تک الرٹ رہنے کے بعد آسان باش اورچیک پوسٹیں بھی ہٹ جاتی تھیں اور گیٹ پر بھی ایک یا دوسپاہی ہوتے تھے کہ افسرتو چلے گئے، یہ پولیس کا خیال تھا لیکن دہشتگردوں نے اس کمزوری کو استعمال کیا۔ بیرکوں میں بھی ہر قسم کے سپاہی رہتے ہیں، شام کو ان کے دوست بھی پاس آتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2013 اور2014 میں بھی اسی قسم کے حالات تھے، کرانا چاہیں تو الیکشن تو ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسا نہیں کہ دھماکے تسلسل سے ہورہے ہیں لیکن الیکشن اگرنہ ہوں تو بہترہیں کیونکہ پولیس سیکیورٹی دے گی اور انہیں ہی ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے، پولیس کا مورال ڈاؤن ہے۔

شائع 01 فروری 2023 09:57am

خودکش حملہ آور کا سر اور کچھ اعضا ملے ہیں، آئی جی خیبرپختونخوا

<p>آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری</p>

آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری

آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا، خودکش حملہ آور کا سر اور کچھ اعضا ملے ہیں۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے بتایا کہ خودکش حملہ آور کے سیمپل ڈی این اے ٹیسٹنگ و فارنزک کے لیے بھیجوا دیے ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج سے دھماکے کی وجوہات کا تعین کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز ہونے چاہئیں، دہشت گردوں کا کنٹرول کسی علاقے پر اس طرح نہیں ہے جس طرح دس بارہ سال پہلے تھا۔

معظم جاہ انصاری نے کہا کہ چاہتے ہے اگر یہاں سے کوئی دہشت گرد بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے تو معاہدے کی بنیاد پر افغان حکومت کو اسے ہمارے حوالے کرنا چاہیئے۔

آئی جی خیبر پختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ بڑے آپریشن کے لئے پوری آبادی کے انخلاء کی بات ہوگی تو ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

شائع 01 فروری 2023 08:36am

وائٹ ہاؤس کی پشاور دہشتگرد حملے کی شدید مذمت، لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار

<p>دہشتگردی ناقابل دفاع ہے،نمازیوں کو نشانہ بناناناقابل معافی عمل ہے،  ترجمان ایڈرین واٹسن - تصویر/ روئٹرز</p>

دہشتگردی ناقابل دفاع ہے،نمازیوں کو نشانہ بناناناقابل معافی عمل ہے، ترجمان ایڈرین واٹسن - تصویر/ روئٹرز

وائٹ ہاؤس کی جانب سے پشاور میں پولیس لائنز میں مسجد پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا ہے کہ یہ افسوسناک اور دل دہلا دینے والی خبر ہے امریکا دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دہشت گردی ناقابل دفاع ہے اور نمازیوں کو نشانہ بنانا ناقابل معافی عمل ہے۔

ترجمان ایڈرین واٹسن نے مزید کہا کہ امریکا پاکستان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

خیال رہے کہ دہشت گرد حملے میں شہدا کی تعداد 100تک پہنچ گئی ہے۔

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2023 06:32pm

پشاور دھماکا : ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا

<p>فوٹو۔۔۔۔ اے ایف پی</p>

فوٹو۔۔۔۔ اے ایف پی

پشاورکی پولیس لائنز مسجد میں گزشتہ روز ہونے والے دھماکے کے بعد ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے۔

ریسکیو ایمرجنسی آپریشن آفسر اویس آفریدی کا کہنا ہے کہ پولیس لائنز ریسکیو آپریشن مکمل ہوگیا ہے، ملبے تلے دبے تمام افراد کو نکال لیا گیا، آخری دو لاشوں کی شناخت نہیں ہورہی تھی جنہیں خیبر میڈیکل کالج منتقل کردیا ہے جب کہ مسجد کے شہید ہونے والے حصے میں سرچ کا عمل جاری ہے۔

اویس آفریدی کے مطابق ڈیٹ باڈی یا مسنگ فرد کی تلاش میں تاحال کوئی نہیں آیا، سرچ کے دوران چند اعضاء ملے ہیں جنہیں لیبارٹری بھجوادیا گیا ہے۔

اس سے قبل ترجمان ریسکیو بلال نے آج نیوز سے گفتگومیں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ریسکیو 1122 کو دوپہر1 بج کر 18منٹ پر کال موصول ہوئی اور 4 منٹ میں ایمبولینسز موقع پر پہنچ گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 نے 146 افراد کو اسپتال منتقل کیا جن میں 49 زخمی اور 54 شہداء شامل تھے۔

ترجمان ریسکیو نے مزید بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں 37 آپریشنل گاڑیوں اور 168 اہلکاروں نے حصہ لیا، شہداء کے جسد خاکی آبائی علاقوں میں منتقل کردیے گئے ہیں، پشاور، نوشہرہ اور خیبر کی ٹیموں نے حصہ لیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک 93 افراد جاں بحق اور 185 افراد زخمی ہوئے۔

پشاور دھماکے میں ضلع چارسدہ کے تقریبا 18 افراد شہید اور 2 زحمی ہوئے۔

1: اے ایس آئی رضوان اللہ ولد محمد اللہ سکنہ عمراباد نزد تبلیغی مرکز علاقہ تھانہ سٹی۔

2: اے ایس آئی لیاقت علی ولد ربنواز سکنہ پڑانگ بابا خیل علاقہ تھانہ سٹی

3: کانسٹیبل شہاب ولد آمان اللہ سکنہ سافر خیل علاقہ تھانہ پڑانگ

4: سابقہ پی اے چارسدہ عبد الودود ولد نامعلوم سکنہ بشیر آباد علاقہ پڑانگ

5: کانسٹبل خالد ولد بختیار سکنہ قائد آباد نمبر1 علاقہ تھانہ سٹی

6: کانسٹبل نسیم شاہ ولد معین شاہ سکنہ سکول کورونہ لونڈہ علاقہ تھانہ نستہ

7: کانسٹبل گل شرف ولد خان زادہ سکنہ یوسف کلے امیر آباد علاقہ تھانہ مندنی

8: کانسٹبل افتحار ولد امیر سید سکنہ خان آباد امیراباد علاقہ تھانہ عمرزئی

9: کانسٹبل ابن امین ولد حاجی فضل کریم سکنہ خان آباد امیراباد علاقہ تھانہ عمرزئی

10:ایل ایچ سی اشفاق ولد ماصل خان سکنہ ڈاگی مکرم خان علاقہ تھانہ ترناب

11:ایس آئی حیات شاہ ولد مہر شاہ سکنہ اوچہ ولہ علاقہ تھانہ شبقدر

12:ایس آئی مراد خان ولد ششتی گل سکنہ غونڈہ خیل علاقہ مندنی

13:ڈی ایس پی ربنواز خان ولد امیر نواز سکنہ چاندی چوک تنگی علاقہ تھانہ تنگی نمازہ جنازہ ٹائم آج 14:00بجے

14:نورالحق ولد محمدی گل سکنہ شیخ ولی کلے علاقہ تھانہ تنگی

15: کانسٹبل ذولفقار ولد ریدی گل سکنہ غریب مارکیٹ علاقہ تھانہ پڑانگ نمازہ جنازہ ٹائم 1400بجے

16: کانسٹبل داؤد ولدآمان اللہ سکنہ درگئی علاقہ تھانہ سرڈھیری نمازہ جنازہ ٹائم 1400بجے

17:امجد ولد شاہ جی گل سکنہ ترلاندی علاقہ تھانہ نستہ

18: کانسٹبل سلیمان ولد شمروز خان سکنہ پڑانگ علاقہ تھانہ پڑانگ نمازہ جنازہ ٹائم 1400بجے۔

زحمی

1: ابرہیم شاہ ولد اکرم شاہ سکنہ غریب آباد علاقہ تھانہ سٹی (سپرڈنٹ ٹیلی کمیونیکیشن)

2: عبدالرفیع ولد خافظ صاحب علاقہ تھانہ پڑانگ (اکاؤنٹ برانچ ٹیلی کمیونیکیشن)

شہیدوں میں ایک ڈی ایس پی ،ایک سپرڈنٹ، دو سب انسپکٹر، دو اے ایس آئی، ایک حوالدار اور11 کانسٹیبلان نے جام شہادت نوش کیا ۔

شائع 31 جنوری 2023 08:59am

پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، تحقیقات کی جارہی ہیں، رپورٹ

<p>فوٹو۔۔۔۔۔۔ الجزیرا</p>

فوٹو۔۔۔۔۔۔ الجزیرا

پشاور دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کردی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا، پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، اس بات کی تحقیقات کی جارہی ہیں، جائے وقوعہ سے خودکش حملے کے شواہد ملے، سی سی ٹی وی فوٹیج سے تحقیقات جاری ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مسجد کے پلر گرنے سے چھت منہدم ہوئی، زیادہ نقصان چھت منہدم ہونے سے ہوا، ناقص سیکیورٹی اقدامات پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ تیار

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ پولیس نے تیار کرلی۔

رپورٹ کے مطابق دھماکا ایک بج کر 15 منٹ پر ہوا، دھماکا مسجد کے مرکزی ہال میں ہوا، مسجد کے ہال میں 300 سے 350 افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دھماکے سے مسجد ہال کی چھت گرگئی، پولیس لائنزمیں ایلیٹ فورس اور سی ٹی ڈی سمیت مختلف محکمے ہیں، 63 لاشیں اور 157 زخمیوں کو ملبے سے نکالا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاک آرمی اور ریسکیو کی مدد سے آپریشن جاری ہے، واقعے میں دھماکا خیز مواد کا استعمال کنفرم ہوا ہے، خودکش حملے کے ہونے کو رول آوٹ نہیں کیا جاسکتا، مختلف ٹیموں کی انویسٹی گیشن جاری ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے جبکہ 170 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2023 09:01am

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ تیار

<p>فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ اے ایف پی</p>

فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ اے ایف پی

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ پولیس نے تیار کرلی۔

رپورٹ کے مطابق دھماکا ایک بج کر 15 منٹ پر ہوا، دھماکا مسجد کے مرکزی ہال میں ہوا، مسجد کے ہال میں 300 سے 350 افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دھماکے سے مسجد ہال کی چھت گرگئی، پولیس لائنزمیں ایلیٹ فورس اور سی ٹی ڈی سمیت مختلف محکمے ہیں، 63 لاشیں اور 157 زخمیوں کو ملبے سے نکالا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاک آرمی اور ریسکیو کی مدد سے آپریشن جاری ہے، واقعے میں دھماکا خیز مواد کا استعمال کنفرم ہوا ہے، خودکش حملے کے ہونے کو رول آوٹ نہیں کیا جاسکتا، مختلف ٹیموں کی انویسٹی گیشن جاری ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے جبکہ 170 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، تحقیقات کی جارہی ہیں، رپورٹ

پشاور دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کردی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا، پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، اس بات کی تحقیقات کی جارہی ہیں، جائے وقوعہ سے خودکش حملے کے شواہد ملے، سی سی ٹی وی فوٹیج سے تحقیقات جاری ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مسجد کے پلر گرنے سے چھت منہدم ہوئی، زیادہ نقصان چھت منہدم ہونے سے ہوا، ناقص سیکیورٹی اقدامات پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

شائع 31 جنوری 2023 08:41am

پشاور دھماکا: خیبرپختونخوا میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

<p>فوٹو۔۔۔۔ رائٹرز</p>

فوٹو۔۔۔۔ رائٹرز

نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان نے پشاور دھماکے پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔

اعظم خان کا کہنا ہے کہ آج صوبے بھر میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔

اعظم خان نے کہا کہ صوبائی حکومت شہدا کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے، متاثرہ خاندانوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے جبکہ 170 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

شائع 30 جنوری 2023 11:41pm

وزیر دفاع نے بنوں اور پشاور واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی قرار دیدیا

<p>وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف۔ فوٹو — پی آئی ڈی</p>

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف۔ فوٹو — پی آئی ڈی

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بنوں اور پشاور واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی ہے۔

ایک بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ پشاور کا واقعہ بہت اندوہناک ہے، ریاست دہشتگردی کے خلاف پوری قوت سے مقابلہ کرے گی، جس ارادے کے ساتھ آٹھ سال پہلے جنگ لڑی تھی ویسے اب لڑنے کی ضرورت ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ گزشتہ چار سال میں خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال متاثر ہوئی، بنوں اور پشاور واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیٹو کے افغانستان سے انکلاء کے بعد شرپسند عناصر نے پاکستان کا رخ کیا ہے، کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ایسے عناصر کو سیٹل کیا گیا۔

خواجہ آصف افغان حکام سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، دوحہ مذاکرات کے تحت افغان حکومت معاہدے کی پابند ہے کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

شائع 30 جنوری 2023 11:13pm

سانحہ پشاور: نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا صوبے میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

<p>فوٹو — رائٹرز</p>

فوٹو — رائٹرز

نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد اعظم خان نے کل صوبے بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔

نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ کل پورے صوبے میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا، شہداء کے لواحقین کے غم میں برابر کےشریک ہے۔

اعظم خان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت متاثرہ خاندانوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

واضح رہے کہ پشاور میں ملک سعد خان پولیس لائنز کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش دھماکہ ہو اجس کے نتیجے میں اب تک 59 افراد شہید اور کم از کم 157 زخمی ہوئے۔

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 11:07pm

ایک ہی گیٹ ہے تو حملہ آور کیسے پولیس لائنز میں داخل ہوا؟ وزیراعظم آئی جی پر برہم

<p>وزیراعظم شہباز شریف۔ فوٹو — فائل</p>

وزیراعظم شہباز شریف۔ فوٹو — فائل

وزیراعظم شہباز شریف دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور کے لئے پہنچے تھے۔

شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وفاقی وزراء کے ہمراہ پشاور پہنچتے ہی خودکش دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کے لئے لیڈی ریڈنگ اسپتال کا دورہ کیا۔

دورہ پشاور کے موقع پر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔

پشاور میں امن و امان کی صورتحال پر اجلاس کے دوران خودکش حملے پر وزیراعظم شہباز شریف آئی جی خیبر پختونخوا پر برس پڑے۔

شہباز شریف نے آئی جی خیبر پختونخوا بر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس لائنز میں داخلےکا ایک ہی گیٹ ہے تو خودکش حملہ آور کیسے پولیس لائنز میں داخل ہوگیا؟

آئی جی خیبر پختونخوا نے اپنے جواب میں شہباز شریف کو کہا کہ پولیس لائنز میں فیملی کوارٹرز بھی ہیں، نہیں معلوم حملہ آور کہاں سے آیا اور کیسے داخل ہوگیا، ہو سکتا ہے حملہ آور پہلے سے ہی اندر رہ رہا ہوں، البتہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پشاور میں پولیس لائن میں خودکش دھماکے سے 32 نمازی شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں، دھماکے سے مسجد کا ایک حصہ بھی شہید ہوا ہے۔

شائع 30 جنوری 2023 10:08pm

پشاور خودکش دھماکہ: کب، کیا اور کیسے ہوا؟

<p>وزیراعظم شہابز شریف کا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کو دورہ (تصویر بزریعہ اے ایف پی)</p>

وزیراعظم شہابز شریف کا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کو دورہ (تصویر بزریعہ اے ایف پی)

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ملک سعد خان پولیس لائنز کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش دھماکہ ہو اجس کے نتیجے میں اب تک 59 افراد شہید اور کم از کم 157 زخمی ہوگئے۔

عینی شاہدین اور سیکیورٹی حکام کے مطابق خود کش حملہ آور فرض نماز کیلئے کھڑی ہونے والی جماعت کے دوران پہلی صف میں موجود تھا، جس نے امام کے تکبیر کہتے ہی خود کو اُڑا لیا۔

دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی تمام کھڑکیاں اور دورازے ٹوٹ گئے، چھت کا کچھ حصہ منہدم ہوا اور مسجد کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

مسجد میں دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں پہنچانا شروع کر دیا۔

لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق سو سے زائد زخمیوں کو اسپتال لایا گیا ہے جن میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک ہے۔

ترجمان کے مطابق زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان نے 59 افراد کی ہلاکت اور 157 زخمی افرادکو طبی امداد دیے جانے کی تصدیق کی ہے۔

ملبے تلے موجود نمازی

جہاں خود کش دھماکے میں کئی افراد شہید اور زخمی ہوئے، وہیں گرنے والی چھت کے ملبے تلے بھی بہت سے لوگ دب گئے، جنہیں نکالنے کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔

ملبے تلے دبے افراد میں سے چار لاشوں اور دو زخمیوں کو تقریباً ساڑے آٹھ گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد نکال لیا گیا۔ ریسکیو آپریشن میں بھاری مشینری استعمال کی گئی لیکن کام مزید زندہ لوگوں کی موجودگی کے امکان کے باعث کام احتیاط سے کیا جارہا ہے جس سے آپریشن تاخیر کا شکار ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور دھماکہ: کئی افراد اب بھی ملبے تلے موجود، ’نیچے سے آوازیں آرہی ہیں‘

ریسکیو حکام کی جانب سے نکالے گئے زخمیوں اور شہیدوں کی لاشوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس بھیجا گیا، جہاں ان کی فہرست مرتب کی گئی جو اسپتال کے دروازوں پر آویزاں کردی گئی۔

دھماکے کے فوری بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور قریبی شاہراہوں کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیاگیا تاکہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے میں دشواری نہ ہو۔

زخمیوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اسپتال انتظامیہ، پولیس اور وزیراعظم نے شہریوں سے خون کے عطیات دینے کی اپیل کی۔

دوسری جانب ملک کی سیاسی قیادت اور دیگر ممالک نے خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔

خودکش حملے کے بعد اسلام آباد، سندھ اور بلوچستان میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔

وزیراعظم کا اظہار برہمی

وزیراعظم شہباز شریف آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ پشاور پہنچے اور آئی جی خیبر پختونخوا پر برہمی کا اظہار کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کہا کہ پولیس لائنز میں داخلےکا ایک ہی گیٹ ہے تو خودکش حملہ آور کیسے پولیس لائنز میں داخل ہوگیا؟

پولیس لائنز، ایک محفوظ سمجھا جانے والا علاقہ

پشاور کی پولیس لائنز شہر کا اہم ترین علاقہ ہے، جہاں کئی اہم سرکاری عمارتوں کے علاوہ عدالتیں بھی ہیں۔

ملبے تلے مزید لوگوں کے دبے ہونے کا اندیشہ

ریسکیو سروس 1122 کے ترجمان بلال فیضی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد ملبے کے نیچے 10 سے 15 افراد کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کنکریٹ کی چھتیں کاٹ کر ملبے کے نیچے موجود افراد تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلی ترجیح انسانی جان بچانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کے پاس ایسے کیمرے موجود ہیں جن کی مدد سے ملبے کے نیچے دیکھا جا سکتا ہے، کوئی زخمی نظر آجائے تو اسی کیمرے کی مدد سے اس سے بات کرنا بھی ممکن ہے۔

ان کے مطابق آڈیو سینسرز کی مدد سے ملبے کے نیچے آوازیں سننے کی بھی کوشش کی جاتی ہے، اس سے دل کی دھڑکن بھی سنی جا سکتی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ریسکیو آپریشن جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

گورنر کو مزید اموات کا اندیشہ

خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے ملبے میں لوگوں کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعے کی حکومت کسی کو بھی اجازت نہیں دے سکتی۔

خود کش حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے: سی سی پی او

پشاور کے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد اعجاز خان کا کہنا تھا کہ مسجد میں خود کش حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے۔ صورتِ حال کلیئر ہونے پر دھماکے کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے گا۔

صوبے کے گورنر حاجی غلام علی کے ہمراہ دھماکے کے مقام کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نماز کے وقت مسجد میں لگ بھگ 400 افراد ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس لائنز میں دھماکہ ہو رہا ہے تو اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی سیکیورٹی لیپس ہوگا اسی لیے دھماکہ ہوا۔

دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مسجد کا پرانا ہال گر چکا ہے اور اس کی نئی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

’انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں‘

پاکستان کے وزیرِ خارجہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پشاور میں خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضمنی اور عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں۔

ایک بیان میں انہوں نے عندیہ دیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ساتھ سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان ہی دہشت گردوں کا علاج ہے، اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات جاری

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی ادارے خیبر پختونخوا کی حکومت کی مکمل معاونت کر رہے ہیں۔

انہوں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد انسانیت اور اسلام کے دشمن ہیں۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ دہشت گردی کو شکست دیں گے اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔

’پولیس کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پولیس کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ دو چار ہفتے قبل بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا وہاں بھی پولیس کے اہلکار ہی موجود تھے۔

نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نیکٹا کو ایک بار پر متحرک کرنے کی ضرورت ہے جس طرح 10 سال قبل دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا۔

ان کے مطابق مساجد میں دہشت گردی سے مذہب کا چہرہ مسخ ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات اسلام اور اسلامی دنیا کے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

خواجہ آصف کے مطابق خیبر پختونخوا میں امن بحال کیا جائے گا۔

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 09:44pm

ہم نے خبردار کیا تھا کہ ایسا ہوگا، محسن داوڑ

Mohsin Dawar: We warned that we would face the spillover here - Aaj News

پشاور کے علاقے ملک سعد پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں ہماری آرگیومنٹ رہی ہے کہ جس طرح سے ہم افغان طالبان، حقانی نیٹورک کوئٹہ شوریٰ کو سپورٹ کرتے آرہے تھے، وہ یہاں سے افغانستان میں اپنے حملے کرتے تھے۔ ان کی سروائیول (بقا) ہی ہماری وجہ سے تھی، ورنہ وہ بیس سال کے طویل عرصہ سروائیو نہ کرتے۔

امریکا کا ارادہ بھی ان کو مکمل طور پر ختم کرنے کا نہیں تھا اور نہ ہی اس مسئلے سے نمٹنا ان کا مقصد تھا۔ ان کے اپنے اسٹریٹجک مفادات تھے، یہ الگ بحث ہے۔

لیکن ہم نے بھی انہیں جگہ دی اور اس لیے انہوں نے جا کر ہمارے مقامی گروپوں کی حمایت کی۔ مقامی طالبان بھی ان کی حمایت کی۔ اور اس تمام سپورٹ سے افغانستان میں ایک منتخب حکومت کا خاتمہ ہوا اور طالبان نے قبضہ کر لیا۔

ہم تنبیہہ کر رہے تھے کہ یہ اسپل اوور اب یہاں (پاکستان) کی طرف ہوگا، پہلے ان کی توجہ اُسی طرف تھی، لیکن اب وہ ہماری طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔

میں نے ایک مضمون میں لکھا بھی تھا کہ افغانستان میں اسٹریٹجک گہرائی کی تلاش میں ہم نے پاکستان میں اپنی اسٹریٹجک گہرائی کھو دی ہے۔ اب یہ بائی ڈیزائن تھا یا کچھ اور، بہرحال جب ہم نے یہ سمجھ سکتے تھے تو انہیں بھی اس کی سمجھ تھی۔ لیکن ہم پھر بھی ان کا ساتھ دیتے رہے۔

پھر جب افغانستان کا یہ واقعہ ہوا اور انہوں (طالبان) نے ملک پر قبضہ کرلیا تو یہاں سے وفود اور جرگے جانے شروع ہوگئے اور انہوں نے حقانی نیٹ ورک کے ذریعے ٹی ٹی پی سے بات چیت شروع کر دی۔

ہم تک اندرونی کہانیاں پہنچتی تھیں، ان کے مطالبات بہت زیادہ تھے۔ ٹی ٹی پی ہمارے علاقوں میں مکمل اقتدار اور اختیار چاہتی تھی، اور چاہتی تھی کہ اسلحہ سمیت وہ واپس آئیں۔

یہاں پر جنرل فیض جرگے اور بیوروکریٹس وغیرہ کو بھیجتے تھے۔ وہاں جو باتیں ہوتی تھیں وہ الگ تھیَ ان کو ایک طریقے سے یقین دہانی کرادی گئی تھیکہ فاٹا اںضمام کو بھی ہم ختم کردیں گے، آپ لوگ واپس آجائیں گے۔ انہیں بتایا گیا کہ فاٹا کے انضمام سے متعلق ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں پڑی ہے۔

یہاں کا بیانیہ یہ ہوتا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں گے اور قانون کی پاسداری کریں گے، حالانکہ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم اس آئین و قانون کو نہیں مانیں گے، یہ قانون اسلامی ہی نہیں ہے۔

ہم نے پھر کہا کہ ان لوگوں کو مذاکرات کے نام پر جگہ دی جا رہی ہے، ان کو جان بوجھ کر آباد کیا جا رہا ہے۔

قومی سلامتی کے تمام اجلاسوں میں ہم نے بریفنگ سنی اور ہم نے اس کا جواب دیا اور کہا کہ آپ غلطی کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چیزیں ٹھیک نہیں ہیں لیکن اگر آپ انہیں جگہ دیں گے تو حالات بدترین ہوجائیں گے۔ لیکن پھر بھی انہیں جگہ دی گئی اور جو کچھ اب ہو رہا ہے ہم نے انہیں لفظ بہ لفظ بتا دیا تھا کہ ایسا ہو گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کسی وجہ سے انہیں کسی نہ کسی ایجنڈے کے تحت راستہ دیا جا رہا ہے اور دوبارہ بسایا جا رہا ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ نکلے ہیں اور مزاحمت کی وجہ عسکریت پسند کسی حد تک بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ یہ مکمل قبضے جیسی صورتِ حال نہیں ہے۔ ورنہ یہ سوات میں آگئے تھے، باجوڑ میں حملے کر رہے تھے۔ وزیرستان، مہمند، سوات، بنوں، باجوڑ، خیبر، اور ہر جگہ عوامی بغاوتوں کی وجہ سے کچھ حکومتی کنٹرول باقی تھا۔

ورنہ ان کی موجودگی اتنی مضبوط ہے کہ پشاور میں بھی وہ ہر دوسرے دن پولیس پر حملے کر رہے ہیں۔ آج انہوں نے پولیس لائنز پشاور کی مسجد پر بھی خودکش حملہ آور کے ذریعے حملہ کیا ہے۔ چند روز قبل سربند تھانے پر حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی اور دوسرے پولیس افسران کو شہید کر دیا اور وہ بغیر کسی روک توک کے چلے جاتے ہیں۔

اس سے پہلے بنوں سی ٹی ڈی کے ایک تھانے کو قابو کرلیا تھا، اس سے پہلے تھانہ براگی جو لکی مروت اور بنوں کے درمیان باؤنڈری پر آتا ہے، اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس سے پہلے وانا سٹی تھانے پر قبضہ کر کے وہ تمام اسلحہ اندر لے گئے تھے۔

میں اس کو افغانستان کا ایکشن ری پلے دیکھ رہا ہوں۔ افغانستان میں بھی یہی صورت حال تھی، حکومت گرنے سے پہلے افغان طالبان نے یہاں سے مختلف علاقوں کے گورنر مقرر کردئیے تھے اور اب ٹی ٹی پی نے بھی مختلف علاقوں میں گورنر اور انٹیلی جنس چیفس مقرر کردئیے ہیں۔ اور وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں حملہ بھی کر سکتے ہیں لوگوں کو اٹھا بھی سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طرح کے ملے جلے اشارے سیکیورٹی فورسز اور پولیس کو دئیے گئے تو وہ بھی کنفیوز ہیں اور قوم بھی کنفیوز ہے کہ کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔

ملک کی مرکزی سیاسی قیادت اب بھی پرانی ناقص افغان پالیسی پر گامزن ہے کیونکہ عسکری قیادت ایسا ہی چاہتی ہے، جو کچھ بظاہر کہا گیا ہے وہ زمین پر کیے گئے اقدامات سے مختلف ہے۔

اب اس ساری الجھن کے درمیان عام تاثر یہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر ہو رہا ہے، ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے اور شاید مغرب چاہتا ہو کہ کسی طرح افراتفری پیدا ہو ، عسکریت پسندی ہو تاکہ چین کی اقتصادی ترقی اور سی پیک کا راستہ روکا جائے، اور شاید اسی لیے طالبان سے مذاکرات کو جگہ ملی۔ شاید اسی وجہ سے امریکہ اچانک پیچھے ہٹ گیا اور افغانستان کو طالبان کے حوالے کر دیا۔

نتیجتاً عوام مشکلات کا شکار ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ کوئی سرمایہ کاری کرنے نہیں آرہا، ہماری معیشت بری حالت میں ہے، امنِ عامہ کی حالت بدتر ہوگئی ہے۔

پہلے کے طالبان اور اب کے طالبان میں کافی فرق ہے۔ اب ان کی پشت پر پوری ریاست ہے اور وہ آسانی سے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے وہ پیادے جنہیں افغانستان میں ریاستی ڈھانچے کا کوئی حصہ نہیں ملا وہ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جہاد تو ابھی بھی جاری ہے، انہیں لڑنا ہے، آگے بڑھنا ہے اور مزید فتوحات حاصل کرنی ہیں۔ ہم انہیں اپنے علاقوں میں آتے دیکھ رہے ہیں۔ جو لوگ افغانستان میں لڑے، وہ یہاں ٹی ٹی پی اور مقامی گروپوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے اس گریٹ گیم کے اجزاء اور جزیات تیار کرلی ہیں، انہیں خام مال ملا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ شاید اب کوئی نئی بھرتیاں نہ ہوں، لیکن نئی بھرتیاں بھی جاری ہیں، یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ اور جتنا یہ خطرناک ہوتا ہے اتنی ہی اس کیلئے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ سنجیدگی سے اس سے نمٹا جارہا ہے، جو بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ کیا یہ کسی وجہ سے جان بوجھ کر ہورہا ہے؟ کیا ہم پھر مہرے بن رہے ہیں؟

وجہ کچھ بھی ہو، لوگوں کی حالت خراب ہے اور دہشت گردی دن بدن بڑھ رہی ہے اور شاید اگر مہم جوئی جاری رکھی گئی تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

شائع 30 جنوری 2023 07:36pm

سانحہ پشاور کے بعد کراچی کی سکیورٹی ہائی الرٹ

<p>آرٹ ورک/ آج نیوز</p>

آرٹ ورک/ آج نیوز

پشاور پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے بعد کراچی میں بھی سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔

کراچی میں رینجرز نے پیٹرولنگ اور اسنیپ چیکنگ کو مزید بڑھایا دیا ہے، رینجرز کے جوانوں کو اہم مقامات پر تعینات اور سکیورٹی سخت کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔

رینجرز کو پولیس کے ساتھ ملکر مشتبہ علاقوں کی مشترکہ کومبنگ آپریشن کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔

حکام نے شہریوں ہدایت کی ہے کہ ہنگامی صورتحال میں رینجرز کی ہیلپ لائن 1101 اور رینجرز کے واٹس ایپ نمبر 03479001111 پر اطلاع دیں۔

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 07:28pm

پشاور خودکش حملہ: پیش امام، دو انسپکٹر سمیت کئی شہداء کی فہرست میں شامل

<p>تصویر بزریعہ اے ایف پی</p>

تصویر بزریعہ اے ایف پی

پشاور کی ملک سعد پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں شہید افراد کی فہرست جاری کردی گئی ہے۔

خودکش حملے میں پیش امام صاحبزادہ نور الامین سمیت کئی پولیس اہلکار شامل ہیں۔

فہرست کے مطابق دھماکے میں انسپکٹر عرفان خان ، انسپکٹر دوران شاہ، کانسٹیبل نسیم شاہ ، ایس آئی ظاہر شاہ، ایس آئی تلاوت شاہ شہید ہوئے۔

ان کے علاوہ ذہب نواز، مقصود احمد، رفیق، لیاقت، امجد اور شہریار نامی اشخاص بھی شہید ہوئے ہیں۔

وسیم شاہ، گل شرف، لیاقت اور محمد علی کا نام بھی فہرتس میں شامل ہے۔

شہداء میں خاتون رشیدہ بی بی زوجہ پشاوری لالا، حیات اللہ خٹک، محمد زبیر، محمد عثمان، خالد جان،عبدالودود اور لیاقت اللہ بھی شامل ہیں۔

فہرست میں شہاب اللہ، عاطف مجیب اور رضوان اللہ کا نام بھی درج ہے۔

شائع 30 جنوری 2023 06:47pm

پشاور دھماکا: شہادت پانے والے پولیس افسر کے نام سے موسوم مسجد بھی شہید

<p>تصویر بزریعہ روئٹرز</p>

تصویر بزریعہ روئٹرز

پشاور کی پولیس لائن میں ہونے والے خودکش حملے میں شہید ہونے والی مسجد سابق پولیس چیف ملک محمد سعد خان کے نام سے موسوم تھی۔

پشاور کے سابق پولیس چیف (سی سی پی او) ملک سعد کو 27 جنوری 2007 کو ڈھکی نعلبندی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں شہید کی گیا۔

ان کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والوں میں ڈی ایس پی خان رازق، ناظمین محمد علی صافی، میاں افتخار حسین، آصف باغی اور دیگر شامل تھے۔

ملک سعد ایک دلیر، ملنسار، بے تکلف، نہایت قابل،ایمانداراورفرض شناس پولیس آفیسرتھے ان کی انہی خوبیوں اور اچھائیوں کی وجہ سے ہر کوئی ان کا شیدائی تھا۔

سابق پولیس چیف پشاور ملک سعد خان شہید
سابق پولیس چیف پشاور ملک سعد خان شہید

یہی وجہ ہے کہ پشاور کی پولیس لائن ملک سعد پولیس لائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔

ملک سعد مرحوم کے بڑے بھائی ملک محمد سلیم شہید 1991 ء میں کراچی میں بطورڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس تعینات تھے اور ڈیوٹی کے دوران48 سال کی عمر میں دہشت گردوں کی وحشیانہ گولیوں کا نشانہ بنے۔

شائع 30 جنوری 2023 06:23pm

پشاور پولیس لائن کا علاقہ کتنا حساس ہے؟

<p>تصویر بزریعہ روئٹرز</p>

تصویر بزریعہ روئٹرز

پشاور کے انتہائی حساس علاقے پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے سے جہاں مسجد کی عمارت کا کچھ حصہ منہدم ہوا وہیں قریب موجود کینٹین کی عمارت بھی گر گئی۔

پولیس لائن کا علاقہ پشاور میں انتہائی حساس ہے اور یہاں پولیس افسران و انتظامیہ کے دفاتر اور پولیس اہلکاروں کی رہائش گاہیں موجود ہیں۔

پولیس لائن کا علاقہ پشاور شہر کے اہم اور حساس علاقوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

پولیس لائن شہر کی اہم شاہراہ خیبر روڈ پر واقع ہے۔

پولیس لائن سے ملحقہ شاہراہ سے ایک راستہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی جانب جاتا ہے، جبکہ اس کے دائیں جانب سول سیکریٹریٹ کی عمارت موجود ہے۔

پولیس لائن کے عقب میں پشاور کی سینٹرل جیل بھی واقع ہے۔

یہ علاقہ ایک ہائی سیکورٹی زون قرار دیا جاتا ہے اور یہاں ہر آنے اور جانے والی کی تلاشی لی جاتی ہے۔ پولیس نے مختلف جگہوں پر ناکہ بندی کر رکھی ہے۔

خیبر روڈ پر کچھ آگے جائیں تو وہاں جوڈیشل کمپلیکس اور اس کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ کی عمارت بھی موجود ہے، جبکہ اس کے سامنے کور کمانڈر ہاؤس اور (سابقہ پرل کانٹینینٹل) سرینا ہوٹل کی عمارت موجود ہے۔

شائع 30 جنوری 2023 06:17pm

پشاور خود کش حملہ: ’شہید امام نے اللہُ اکبر کہا اور پورا ہال دھماکے سے اُڑ گیا‘

<p>تصویر بزریعہ اے ایف پی</p>

تصویر بزریعہ اے ایف پی

پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں امامِ مسجد صاحبزادہ نورالامین بھی شہید ہوئے ہیں۔

عینی شاہد محمد اسحاق نے بتایا کہ ہم نے معمول کے مطابق وضو کیا، سنتیں پڑھیں اور جیسے ہی فرض کیلئے کھڑے ہوئے، امام نے اللہ اکبر کہا پورا ہال دھماکے سے اُڑ گیا۔ اس کے بعد ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ ہم کہاں ہیں۔

ریسکیو ذرائع کے مطابق زیادہ تر افراد بال بئیرنگ لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔

ریسکیو ٹیم نے کئی گھنتوں کی محنت کے بعد ملبے سے ایک زخمی کو نکال لیا ہے، جبکہ مزید افراد کو نکالنے کیلئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

ریسکیو حکام کے مطابق زمین بوس چھت کا ملبہ ہیوی مشینری کے ذریعے احتیاط سے ہٹایا جارہا ہے۔

خودکش دھماکے میں شہداء کی تعداد 39 اور زخمی 140 سے زائد ہوچکے ہیں۔ دھماکے سے مسجد کا ایک حصہ بھی شہید ہوگیا ہے۔

شائع 30 جنوری 2023 05:53pm

برطانیہ کی پشاور دھماکے کی مذمت، لواحقین سے اظہار ہمدردی

<p>فوٹو — فائل</p>

فوٹو — فائل

قائم مقام برطانوی ہائی کمشنر کی پشاور دھماکے کی سخت مذمت کی ہے۔

ای ٹویٹ میں برطانوی ہائی کمشنر اینڈریو ڈاگلیش نے پشاور خودکش دھماکے کی مذکت کرتے ہوئے کہا کہ پشاور دہشت گردی پر سخت افسوس اور رنج ہوا، تشدد معاملات کا جواب نہیں ہے۔

اینڈریو ڈاگلیش کا کہنا تھا کہ لواحقین کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں-

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 05:35pm

پشاور دھماکہ : او نیگیٹو خون کی اشد ضرورت، وزیراعظم کی لیگی کارکنان کو عطیات کی ہدایت

Peshawar incident: People from all over city reach hospital to donate blood - Aaj News

پشاور میں ہونے والے دھماکے میں 150 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے اور خون کے عطیات کی اپیل کی جارہی ہے۔

پشاور پولیس کی جانب سے مائیکروفون پر خون کے عطیات دینے کی اپیل کی جا رہی ہے۔

انچارج بلڈ کیمپس ڈاکٹراعجاز کا کہنا ہے کہ زخمیوں کے علاج کیلئے او نیگیٹو خون کی ضرورت ہے، او نیگیٹو والے افراد لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچیں، دیگر بلڈ گروپس والے افراد ریجنل بلڈ سینٹر آکر خون عطیات کریں.

گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کا کہنا ہے کہ اسپتال میں او نیگیٹو خون کی ضرورت ہے۔

انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ خون عطیات کریں۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ خودکش حملے میں زخمیوں کی جان بچانے کیلئے خون کے عطیات دیں۔

پیر کو اپنے ٹویٹ میں انہوں نے خاص طور پر ’’او نیگیٹو‘‘ خون کے حامل عوام، طالب علم اور پارٹی کارکنان سے اپیل کی کہ فی الفور لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور پہنچیں اور قیمتی انسانی جانیں بچانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔

اپیل کے بعد عوام کی بڑی تعداد خون عطیہ کرنے کیلئے اسپتال پہنچ گئی۔

شائع 30 جنوری 2023 05:18pm

امریکا کی جانب سے پشاور خود کش حملے کی مذمت

امریکی سفارت خانے نے پشاور کی پولیس لائنز میں ہونے والے خود کش حملے کی مذمت کی ہے۔

اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردی کی سخت مذمت کرتے ہیں، پولیس لائنز مسجد میں حملہ ہولناک ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ہم متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں، دہشت گردی کی مذمت میں پاکستان امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔

شائع 30 جنوری 2023 05:10pm

پشاور خودکش حملہ: حال ہی میں ٹرانسفر ہونے والے ایس ایچ او بھی شہید

<p>تصویر بزریعہ اے ایف پی</p>

تصویر بزریعہ اے ایف پی

پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں سابق اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) پھندو بھی شہید ہوئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق شہید ایس ایچ او کا نام عرفان تھا اور حال ہی میں ان کا ٹرانسفر پولیس لائنز میں کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ مسجد میں ہونے والے خود کش حملے میں اب تک 32 افراد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہیں۔

مسجد کی چھت گرنے سے کئی افراد ملبے تلے دب گئے، جنہیں ریسکیو کرنے کا عمل جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق مزید شہادتوں کا خدشہ ہے۔

شائع 30 جنوری 2023 04:46pm

پشاور دھماکا: ’ہمیں اپنے شہید کو گھر لے جانے کیلئے این او سی نہیں دیا جارہا‘

پشاور خود کش حملے میں شہید ہونے والے لواحقین اپنے پیاروں کی کوئی خبر نہ ملنے سے پریشان ہیں۔

آج نیوز سے گفتگو میں جائے وقوعہ پر موجود ایک شہید کے رشتہ دار نے بتایا کہ حملے کے بعد شہید ہونے والے ان کے رشتہ دار کو پشاور یونیورسٹی لے جایا گیا، وہاں اس کا پوسٹ مارٹم ہوا، ہمیں اپنے شہید کو گھر لے جانے کیلئے این او سی نہیں دیا جارہا۔

انہوں نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کیا کریں کہاں جائیں۔

شائع 30 جنوری 2023 04:37pm

پشاور خودکش حملہ: جائے وقعہ پر تابوتوں کی بڑی تعداد روانہ، شہادتوں میں اضافے کا خدشہ

پشاور پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خود کش حملے میں شہادتوں کی تعداد 32 ہوچکی ہے جبکہ 100 سے زائد نمازی زخمی ہے، جائے وقوعہ پر سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

نمائندہ آج نیوز کے مطابق بڑی تعداد میں تابوت جائے وقوعہ پر پہنچائے جا رہے ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے شہادتوں کی تعداد بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔

زخمیوں کی بڑی تعداد لیڈی ریڈنگ اسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس پہنچائی گئی ہے۔

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 04:20pm

پشاور دھماکہ: کئی افراد اب بھی ملبے تلے موجود، ’نیچے سے آوازیں آرہی ہیں‘

پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں شہادتوں کی تعداد 30 اور 100 سے زائد زخمی ہیں، جبکہ کئی افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور نیچے سے لوگوں کی آوازیں آرہی ہیں۔

پہلی صف میں ہونے والے خود کش دھماکے کے نتیجے میں چھت گری اور مسجد کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

آج نیوز کو موصول خصوصی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

آج نیوز کے مطابق مسجد کی چھت ٹیڑھیں انداز میں گری ہے اور لوگ زخمی ہونے کے باوجود ملبے کے نیچے سے آوازیں دے رہے ہیں۔

مسجد میں 1000 نمازیوں کی گنجائش موجود ہے جبکہ دھماکے کے وقت 300 سے زائد افراد مسجد میں موجود تھے۔

اب تک 150 کے قریب لوگوں کو نکالا جاچکا ہے اور 100 سے زائد اب بھی ملبے تلے موجود ہیں۔

شائع 30 جنوری 2023 03:43pm

پشاور دھماکا: پولیس اور حکومت نے ناقص سیکیورٹی کا اعتراف کرلیا

نگراں صوبائی وزیر محمد علی شاہ خان کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی میں کمزوری نہ ہوتی تو حملہ نہ ہوتا، سی سی پی او پشاور نے بھی ناقص سیکیورٹی کا اعتراف کرلیا۔

میڈیا سے گفتگو میں صوبائی وزیر محمد علی شاہ خان نے کہا کہ نگراں حکومت کی اولین ترجیح امن ہے، امن ہوگا تو معیشت بہتر ہوگی۔ ناخوشگوار واقعہ ہے، سیکیورٹی معاملات کے حل کیلئے آج بیٹھیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی میں کمزوری نہ ہوتی تو حملہ نہ ہوتا، ذمہ داروں کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔

دوسری جانب سی سی پی او پشاور اعجاز خان کا کہنا ہے کہ دھماکے میں 27 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

میڈیا سے گفتگو میں سی سی پی او اعجاز خان نے ناقص سیکیورٹی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بالکل معاملے میں سیکیورٹی لیپس ہوگا۔