دنیا بھر میں کھیلی جانے والی کرکٹ لیگز
کرکٹ اس وقت دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر سب سےزیادہ کھیلا جانےولا کھیل ہے۔ دنیا بھر میں ہر وقت کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کرکٹ کابین الاقوامی ٹورنامنٹ ، کوئی لیگ یا کوئی سیریز ضروری کھیلی جارہی ہوتی ہے خواہ وہ ٹیسٹ کرکٹ ہو، ایک روزہ میچز ہوں یا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ۔ اس وقت پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ پورا پاکستان اس کے سحر میں گرفتارہے اور لوگ اس کے میچز میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ سپر لیگ کی بات چلی ہے تو پھر دنیا بھر میں ہونے والے کچھ دلچسپ بین الاقوامی ٹورنامنٹ یا لیگز کا ذکر ہوجائے۔
:کاؤنٹی کرکٹ
کاؤنٹی کرکٹ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ یہ انگلینڈ کی مختلف کاؤنٹیز کے مابین ہونے والے مقابلے ہیں اسی مناسبت سے اس کو کاؤنٹی کرکٹ کہا جاتا ہے۔ اگرچہ مختلف کاؤئنٹیز کے درمیان مقابلے تو17ہویں صدی عیسوی سے ہی ہوتے رہتے تھے لیکن اس کا باقاعدہ آغاز1890 سے ہوا۔ یہ کرکٹ کی قدیم ترین بین الاقوامی لیگ کہی جاسکتی ہے۔اس میں دنیا بھر کے کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔کاؤنٹی کرکٹ کھیلناکسی بھی کھلاڑی کیلئے اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے۔ کاؤنٹی کرکٹ تین روزہ میچزپر مشتمل ہوتی ہے۔ پاکستان کے کئی نامور کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔
:ورلڈ سیریزکرکٹ
ورلڈ کرکٹ سیریز جس کو کیری پیکر کرکٹ کے نام سےبھی جانا جاتا ہے۔ یہ وہ سیریز تھی جس نے کرکٹ کےکھیل کا انداز ہی بدل دیا۔ رنگین کپڑے، نائٹ کرکٹ، بیش بہا معاوضے نے اس کو پر کشش بنا دیا تھا اور اس کے بعد کھلاڑی باقاعدہ پیشہ ور کھلاڑی بن گئے ۔یہ سیریز 1977تا 1979 کھیلی گئی۔ اس میں آسٹریلیا، انگلینڈ، پاکستان ، جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے نامور کھلاڑی شامل تھے۔اس کےآغاز کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ کیری پیکر آسٹریلین میڈیا کا ایک بہت بڑا نام تھا۔ انہوں نے اپنے ٹی وی چینل ' چینل 9' کیلئے آسٹریلیا کرکٹ بورڈ سے 1976 کی ٹیسٹ سیریز کے نشریاتی حقوق خریدنے چاہے لیکن کرکٹ آسٹریلیا نے ان کی یہ پیش کو رد کردیا۔ اس کے بعد انہوں نے ازخود ایک سیریز منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے نتیجے میں ورلڈ کرکٹ سیریز منظر عام پر آئی۔
:ٹوئنٹی 20 کپ
یہ انگلینڈ اور ویلز کے کلبز کے درمیان کھیلی جاتی ہے ۔ اس کا آغاز 2003 سے ہوا۔اس میں 18 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں جن کو چھ چھ کے تین گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس کا موجودہ نام ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ ہے۔
:نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ
یہ پاکستان میں کھیلی جاتی ہے اور اس کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ دنیا کی اولین ٹی 20 لیگز میں سے ایک ہے جو کہ2005سے کھیلی جارہی ہے۔ اس میں 17 مقامی ، ایک آزاد کشمیر اور ایک افغانستان کی ٹیم شامل ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیئے: آن لائن تجارت کے نام پر سٹے اور جوئے کا کام
:انٹر پروونشنل ٹی 20 سری لنکا
سری لنکا کی یہ لیگ اپنے چار صوبوں کی نمائندگی کرتی ہے اور ایک اسکول الیون اس میں شامل ہوتی ہے۔
: انڈین کرکٹ لیگ
انڈین کرکٹ لیگ کا آغاز 2007میں ہوا۔یہ زی انٹر ٹینمٹ کی جانب سے کی گئی ایک کوشش تھی۔ یہ لیگ دو سیزن کے بعد ختم ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈین کرکٹ بورڈ نے اس کو کرکٹ لیگ ماننے سے انکار کردیا تھا، جب کہ آئی سی سی نے اس کی منظوری انڈین بورڈ کی رضامندی سے مشروط کردی تھی۔ اس لیگ میں نو ٹیمیں مقامی کھلاڑیوں یعنی بھارت کے مختلف شہروں سے تعلق رکھتی تھیں، چار بین الاقوامی ٹیمیں( انڈیا، پاکستان ، بنگلہ ڈیش اور ورلڈ الیون کے کھلاڑیوں پر مشتمل تھیں ) یہ ٹی 20 فارمیٹ والی لیگ تھی لیکن اس کے شیڈول میں50اوورز کے میچز بھی شامل تھے۔ انڈین بورڈ کی سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ لیگ دم توڑ گئی۔
: انڈین پریمئر لیگ
انڈین کرکٹ لیگ کے بعد اگلے سال یعنی 2008میں انڈین پریمئر لیگ کا آغاز ہوا۔ جو کہ تاحال جاری ہے۔ بنیادی طور پر یہ انڈین کرکٹ لیگ کو غیر مؤثر کرنے کیلئے قائم کی گئی تھی ۔ انڈین کرکٹ لیگ کا آغاز 2007 کے وسط میں ہوا تھا ، اس کے بعد انڈین کرکٹ بورڈ نے ستمبر 2007 کو انڈین پریمیئر لیگ کے قیام کا اعلان کیا اور اپریل 2008 کو اس کا پہلا ٹورنامنٹ یا سیزن منعقد کیا گیا۔
:اسٹیفورڈ 20/20
ویسٹ انڈیز کی مختلف ٹیموں کے مابین کھیلی جانی والی اس لیگ کا آغاز 2006میں ہوا تھا۔ اس میں ابتدا میں 19 ٹیمیں تھیں جو کہ بڑھ کر 21ہوچکی ہیں۔
: سپرا سمیش
سپر اسمیش جس کا موجودہ نام برگر کنگ سپراسمپیش ہے۔ یہ نیوزی لینڈ کی مقامی ٹی ٹوئنٹی لیگ ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ ویمنز کی بھی ٹی ٹوئنٹی منعقد کراتی ہے۔ اس کا آغاز 2005-2006میں ہوا ہے۔ یہ لیگ چھے ٹیموں کے مابین کھیلی جاتی ہے۔
بگ بیش:
یہ آسٹریلیا میں کھیلی جاتی ہے۔ پہلے یہ لیگ کے ایف سی بگ بیش کہلاتی تھی۔اس کا آغاز 2005 میں ہوا تھا۔پہلے اس میں صرف آسٹریلیا کے 6 مختلف شہروں کی ٹیمیں حصہ لیتی تھیں ۔ 2012 میں اس کا نام تبدیل کرکے بگ بیش کیا گیا اور ساتھ ہی اس کے فارمیٹ میں تبدیی کی گئی ۔اب یہ آسٹریلیاکے آٹھ مختلف شہروں کی ٹیموں پر مشتمل ٹورنامنٹ ہے، جس میں بین الاقوامی کھلاڑی بھی حصہ لیتے ہیں۔
:کیربیئن ٹوئنٹی 20
یہ بھی ویسٹ انڈیز کی بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی لیگ ہے۔ اس کا آغاز 2010میں ہوا ہے۔ اس میں 7 مقامی ٹیمیں شامل ہیں جب کہ اس میں دیگر ممالک مثلاً کینڈا یا انگلینڈ کی مختلف کاؤنٹیز کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔
:شپریزہ کرکٹ لیگ
یہ افغانستان میں کھیلی جاتی ہے۔ اس کا آغاز 2013 میں ہوا ہے۔یہ لیگ 6 فرنچائز ٹیموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس میں افغانستان کےعلاوہ بین الاقوامی کھلاڑی بھی حصہ لیتے ہیں۔
:بنگلہ دیش پریمئر لیگ
بنگلہ دیش میں کھیلی جانی والی اس لیگ کا اہتمام بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کرتاہے۔ اس کا آغاز 2012 میں ہوا ہے۔ یہ لیگ 7 ٹیموں پرمشتمل ہے جس میں مقامی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کھلاڑی بھی حصہ لیتے ہیں۔ یہ دنیائے کرکٹ کے اعلیٰ سطح کی لیگز میں سے ایک ہے۔
:افریقہ ٹی ٹوئنٹی کپ
جنوبی افریقی کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام کھیلی جانی والی یہ لیگ ایک بین الااقوامی ٹورنامنٹ ہے۔ 2015 میں شروع ہونے والی اس لیگ میں 6 افریقی ممالک کی 20 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں جس میں جنوبی افریقہ، کینیا، زمبابوے، نمیبیا، یوگنڈا اور نائجریا کی ٹیمیں شامل ہیں۔
:ماسٹرز چیمپئن لیگ
یہ لیگ 2016 میں متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی تھی۔اس کا انعقاد امارات کرکٹ بورڈ نے کیا تھا۔ اس میں 6 ٹیموں نے حصہ لیا تھا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹیمیں دنیا بھر کے سابق نامور کھلاڑیوںپر مشتمل تھیں۔
:ہانگ کانگ ٹی ٹوئنٹی
اس کا آغاز 2016 میں ہوا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ۔ یہ ہانگ ہانگ کرکٹ بورڈ کی جانب سے منعقد کی جاتی ہے۔اس میں ہانگ کانگ کے کھلاڑیوں سمیت بین الاقوامی کھلاڑیوں پر مشتمل 5 ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔
:مانسی سپر لیگ
یہ جنوبی افریقہ کرکٹ بورڈ کی جانب سے منعقد کی گئی ہے۔ اس کا آغاز 2018میں ہوا ہے۔ اس میں جنوبی افریقہ کے مختلف شہروں کی چھ فرنچائز ٹیمیں شامل ہیں ۔ جن میں بین الاقوامی کھلاڑی بھی شامل ہیں۔
:افغانستان پریمئر لیگ
افغانستان کی اس لیگ کا آغاز 2018 میں ہوا اور یہ لیگ دبئی اور شارجہ میں کھیلی گئی ہے۔ اس میں افغانستان کے علاوہ دنیا بھر کے کھلاڑیوں پر مشمل 5 ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔
:گلوبل ٹی ٹوئنٹی کینیڈا
اس ٹورنامٹ کا آغاز کینڈا میں 2018میں ہوا ہے۔ اس میں 6 فرنچائز ٹیموں نے حصہ لیا تھا۔ ہر ٹیم میں 4 کینڈیین کھلاڑی اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں پر مشتمل تھی۔ اس کا اگلا سیزن رواں سال کھیلا جائے گا۔
نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔