Aaj News

جمعہ, اپريل 26, 2024  
18 Shawwal 1445  

خلامیں ردوبدل،ناسا کا دیوقامت غبارہ خلامیں بھیجنے کا فیصلہ

امریکہ کے خلائی ادارہ ناسا کی جانب سے فٹ بال کے میدان جتنا بڑا...
شائع 29 جولائ 2020 12:06pm
سائنس

امریکہ کے خلائی ادارہ ناسا کی جانب سے فٹ بال کے میدان جتنا بڑا غبارہ خلا کی سرحد پر بھیجا جائے گا جس کا مقصد یہ جاننا ہو گا کہ ستارے اور سیارے کیسے تخلیق ہوتے ہیں۔

اس مشن میں دیوقامت غبارے کے علاوہ خاص قسم کی ٹیلی اسکوپ بھی بھیجی جائے گی جس سے ایسی روشنی کو پرکھا جا سکتا ہے جو انسانی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتی۔

جس غبارے کو اس تجربے میں استعمال کیا جائے گا وہ پھولنے کے بعد 400 فٹ چوڑا ہوگا۔ ٹیلی اسکوپ کے علاوہ ایک کولنگ سسٹم بھی ہو گا جو آلات کو ٹھنڈا رکھے گا۔

‘ایستھروس’ نام کا یہ مشن انٹارکٹیکا سے دسمبر 2023 میں روانہ کیا جائے گا اور تین ہفتوں تک فضا کے اختتام پر اس جگہ رہے گا جہاں اوزون کی تہہ موجود ہے۔

ناسا کے سائنس دان زمین سے ٹیلی اسکوپ کو کنٹرول کر سکیں گے اور اس کا ڈیٹا فوری تجزیے کے لیے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکے گا۔

فارانفراریڈ ویولینتھ روشنی کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا لیکن ان کی مدد سے خلا کے ان مقامات میں گیس کی مقدار اور رفتار کا پتا چلایا جاسکتا ہے جہاں ستارے تخلیق ہورہے ہوں۔

بنیادی طور پر اس مشن کے دو اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک میسیئر 83 نام کی کہشاں جو زمین سے ڈیڑھ کروڑ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور روشن ترین کہکشاں ہے۔ دوسرا ہدف ٹی ڈبلیو ہائیڈرائی نام کا ستارہ ہے جس کے گرد گَرد اور گیس کا غبار ہے جہاں نئے سیارے تخلیق ہوسکتے ہیں۔

ٹیلی اسکوپ ستاروں کی تخلیق اور اس عمل کی معلومات جمع کرے گی جسے ‘اسٹیلر فیڈبیک’ کہا جاتا ہے۔ جب عظیم الجثہ ستارے ٹوٹتے ہیں تو وہ اپنے مواد کو خلا میں پھینکتے ہیں۔

ان کے پھٹنے سے مواد بکھر بھی سکتا ہے اور ایک جگہ جمع ہو کر نئے ستارے بھی بن سکتے ہیں۔ اسٹیلر فیڈبیک کے بغیر کہکشاں کا مادہ اور گیس مل کر نئے ستارے نہیں بنا سکتے۔

ناسا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے جدید کمپیوٹر اس عمل سے ناواقف ہیں۔ ایتھروس کے مشن کی بدولت وہ اس عمل کے تھری ڈی نقشے بنانے کے قابل ہوجائیں گے اور کمپیوٹر کہکشاں کے ارتقا کو نقل کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div