لفظ "طالبان" کا کیا مطلب ہے؟ان کے رہنما کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران افغانستان کے دوسرے اور چوتھے بڑے شہر...
اپ ڈیٹ 14 اگست 2021 12:28pm

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران افغانستان کے دوسرے اور چوتھے بڑے شہر طالبان کے قبضے میں آنے کے بعد جنگ زدہ ملک پر ان کا کنٹرول بہت قریب نظر آرہا ہے. یہاں تک کہ عالمی برادری نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ عسکری طاقت کے زریعے وجود میں آنے والی کسی بھی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے.

2001 میں امریکی افواج کے ہاتھوں طاقت گنوانے والے طالبان اب صوبائی دارالحکومتوں کے آدھے حصے پر قابض ہیں اور آہستہ آہستہ افغانستان کے قومی دارالحکومت کابل کو گھیرے میں لے رہے ہیں، ایک ایسا شہر جس کا زوال اس بات کا اشارہ ہوگا کہ اب ملک میں اسلام پسند بنیاد پرست گروہ کا مکمل کنٹرول ہے۔ اپنے تازہ ترین حملے میں، طالبان جنگجوؤں نے مبینہ طور پر صوبہ لوگر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، جو دارالحکومت سے تقریبا 80 کلومیٹر دور ہے۔

اس بگڑتی ہوئی صورت حال کے درمیان، امریکا اور برطانیہ فوجیوں کو صرف اس مقصد کے لئے تعینات کر رہے ہیں کہ اپنے شہریوں کو بحفاظت نکال سکیں، اس سے پہلے کہ واشنگٹن اپنی دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے باضابطہ اعلان کرے۔ کابل میں بھارتی مشن نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران علیحدہ سیکیورٹی ایڈوائزریز بھی جاری کی ہیں، جن میں بھارتی شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد کمرشل فلائٹ آپشنز پر افغانستان چھوڑ دیں۔

امریکہ نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ سخت گیر اسلام پسند گروپ تین ماہ کے اندر اشرف غنی کی زیر قیادت حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے، یعنی تقریبا دو دہائیوں کے بعد دوبارہ ملک کا اسٹئیرنگ وہیل طالبان کے ہاتھوں میں ہوگا.

طالبان کون ہیں؟

سنہ 1994 میں ملا محمد عمر نے خانہ جنگی کے دوران بڑھتے ہوئے جرائم اور بدعنوانی کو چیلنج کرنے کے لیے اپنے درجنوں پیروکاروں کے ساتھ "طالبان" کی بنیاد رکھی۔ طالبان کا لفظی مطلب پشتو میں "طلباء" ہے ، کیونکہ اس کے بانی اراکین ملا محمد عمر کے طالب علم ہیں۔

اس گروپ نے تنظیم میں ان "مجاہدین" جنگجوؤں کو بھرتی کیا جنہوں نے 1980 کی دہائی میں سابقہ سویت یونین افواج کو افغانستان سے باہر دھکیلا تھا اور 1996 تک ملک کے بیشتر حصوں کا کنٹرول سنبھالتا رہا تھا. اس گروہ نے تقریبا پانچ سال تک افغانستان پر حکومت کی، یہاں تک کہ 2001 میں امریکی افواج نے اسے اکھاڑ پھینکا۔ سخت گیر اسلام پسند تحریک تب سے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مغربی فوجیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔ جبکہ ملا محمد عمر اتحادی افواج کے ہاتھوں شکست کے بعد روپوش ہوگئے تھے.

طالبان کے اہم رہنما کون ہیں؟

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسلامی قانون دان ہیبت اللہ اخوندزادہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیں جو گروپ کے سیاسی ، مذہبی اور عسکری امور پر حتمی اختیار رکھتے ہیں۔ 2016 میں ان کے پیشرو اختر منصور کے افغان پاکستان سرحد کے قریب امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد ہیب اللہ نے طالبان کی قیادت سنبھالی۔

ملا عبدالغنی برادر طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں اور دوحہ میں مختلف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ سیاسی تصفیہ کے لیے مذاکرات کرنے والی ٹیم کا حصہ ہیں۔ اگرچہ افغان حکومت نے مبینہ طور پر افغانستان میں تشدد کے خاتمے کے لیے ایک معاہدے کی پیشکش کی ہے ، تاہم برادر نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ طالبان نے "گھر واپس حاصل کرنے" کے لئے اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مانا جاتا ہے کہ ملا عمر کا بیٹا یعقوب اپنی عمر کی 30 کی دہائی میں طالبان کی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتا رہا ہے۔ یعقوب کو منصور کے جانشین کے طور پر دیکھا جاتا تھا لیکن انہوں نے اپنی عمر اور جنگ کے میدان میں تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے خود اخوندزادہ کا نام تجویز کیا تھا۔

طالبان کیا چاہتے ہیں؟

طالبان، جو اپنے ابتدائی دنوں میں جرائم اور بدعنوانی کو روکنے کے اپنے وعدے کی وجہ سے مقبولیت میں میں بے پناہ اضافہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، بعدازاں شریعت کو سختی سے لاگو کرنے کے لیے بدنام ہوئے.

افغانستان کی لڑکیاں اور عورتیں خاص طور پر طالبان حکومت کی زد میں تھیں، جس کی وجہ سے ان پر اسکولوں اور کام کی جگہوں پر پابندی عائد تھی۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ اس گروپ نے "حقیقی اسلامی نظام" کے نام پر خواتین پر ظلم کرنے کے اپنے پرانے ہتھکنڈوں کا سہارا لیا ہے۔

طالبان نے ایک بار پھر اپنے پیروکاروں کو امن و سلامتی بحال کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ لاکھوں شہری ظلم و ستم کے خوف سے بے گھر ہو گئے ہیں۔

تو ، اب کیا ہوگا؟

واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک تجزیے کے مطابق ،سابقہ حکمرانی کے دوران سرحدی گزرگاہوں اور متنازع علاقوں پر قبضہ کرنے میں ان کی دلچسپی ان کے سابقہ حربوں کا اشارہ دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'ان علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے سے طالبان اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے قابل ہو سکتے ہیں جبکہ سال کے اختتام سے قبل اربوں کی آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔'

یہ اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ گروپ منتخب افغان حکومت سے کنٹرول واپس لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔