Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  
Live
PTI long march 2022

عمران خان پر حملے کی تحقیقات کیلئے پی ٹی آئی رہنما سمیت سکیورٹی عملہ طلب

یاسمین راشد، عمران اسماعیل سمیت عمر چیمہ، حماد اظہر، فیصل جاوید اور زبیر نیازی کو طلب کیا گیا ہے
شائع 09 دسمبر 2022 06:35pm
فیصل جاوید، عمران اسماعیل اور حماد اظہر کو بھی کل پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ فوٹو — فائل
فیصل جاوید، عمران اسماعیل اور حماد اظہر کو بھی کل پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ فوٹو — فائل

لاہور: وزیرآباد میں کنٹینر حملے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی نے سکیورٹی عملے سمیت پی ٹی آئی رہنماؤں کو طلب کرلیا۔

وزیرآباد میں عمران خان پر حملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سیکیورٹی پر معمور عملے کو تفتیش میں پیش ہونے کے لئے نوٹس جاری کر دیا ہے۔

جے آئی ٹی نے یاسمین راشد، عمران اسماعیل سمیت مشیر داخلہ پنجاب عمر سرفراز چیمہ، حماد اظہر، فیصل جاوید اور زبیر نیازی کو طلب کیا ہے جب کہ سابق پارٹی رہنما فیصل واوڈا کو بھی پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔

تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے تمام 35 افراد کو کل صبح 11 بجے سی سی پی او لاہور آفس پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

کیا عمران 2 صوبوں کی محفوظ پناہ گاہیں چھوڑنے پر تیارہیں

صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد کیا عام انتخابات ممکن ہیں ؟
شائع 28 نومبر 2022 01:38pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

انوار ہاشمی

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد سات ماہ کی سیاسی جدو جہد میں حقیقی آزادی مارچ کے ذریعے ملک بھر کے کارکنوں کو جن اہداف کے حصول کا خواب دکھایا تھا ، 26 نومبر کے راولپنڈی پاورشو کے ذریعے ان اہداف کا حصول تو ممکن نہ ہوسکا، مگر اسلام آباد کی طرف یلغارکے اشارے کی آس لگائے کارکنوں کو انہوں نے کچھ نئی سیاسی آس دلا کر واپس تو بھیجنا ہی تھا۔ یوں انہوں نے اس ’‘ کرپٹ نظام ’‘ کا حصہ نہ رہنے کا اعلان کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ وہ مشاورت کے بعد صوبائی اسمبلیوں سے باہرآنے کا فیصلہ جلد کریں گے۔

اسمبلیاں کیسے تحلیل ہوسکتی ہیں، ان کے توڑنے سے کیا عام انتخابات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، اس سیاسی، قانونی اور آئینی بحث کو عمران خان اوپن کرکے خبروں میں زندہ رہنے کا سامان پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب سیاسی جماعتیں ایوانوں کے اندر اعدادو شمار کے گورکھ دھندے میں کچھ روز تو مصروف رہیں گی۔

صوبائی اسمبلیوں کے اندر شروع ہونے والے شطرنج کے اس کھیل کا جائزہ لینے کے لئے چاروں صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی تعداد اورسٹیٹس کا جائزہ لینا ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کن صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اختیار تحریک انصاف کے پاس ہے جس کے نتیجہ میں تازہ عام انتخابات کرانے پڑیں گے، اور کن اسمبلیوں کے لیے صرف ضمنی الیکشن کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر اسکا جائزہ لیں تو نہ صرف صورتحال دلچسپ نظر آتی ہے بلکہ اعداد وشمار کے مطابق کچھ اسمبلیوں میں سے تو سیاسی کارڈ تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکلتا ہوا نظرآتا ہے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا اصل ہدف یہ دو صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں نہ صرف تحریک انصاف کی حکومت ہے بلکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ محمود خان کا تعلق بھی اسی جماعت سے ہے۔

پنجاب میں صورتحال تھوڑی مختلف ہے۔ تحریک انصاف نے یہاں اپنی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے ساتھ ملکرحکومت بنا رکھی ہے لیکن وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کا تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہے۔ اگر ہم اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی آئینی بحث ترک کرکے یہ فرض لیں کہ عمران خان کی ہدایت پر پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں دونوں وزراء اعلٰی تحلیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو 90 دن کے اندران دو صوبوں میں صوبائی اسمبلیوں کے لیے عام انتخابات کرانے ہوں گے۔ اور اس کے نتیجہ میں معرض وجود میں آنے والی دونوں اسمبلیاں اپنی 5 سالہ مدت پوری کریں گی۔

ان انتخابات کے نتائج میں اگرتحریک انصاف شکست سے دوچارہوتی ہے تو اس صورت میں قومی اسمبلی کےلئے آئندہ عام انتخابات میں ان دو اسمبلیوں کی طاقت سے پی ڈی ایم کا پلڑا بھاری ہونے کا قومی امکان ہے۔ اس کے برعکس دوسری صورت بڑی ہی دلچسپ ہے۔ اگر ان 3 ماہ کے اندرتحریک انصاف دوبارہ دونوں صوبائی اسمبلیوں میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر اسے دوبارہ ایک سال ان کے بقول اسی کرپٹ نظام کا حصہ رہنا پڑے گا جس سے نکلنے کا انہوں نے راولپنڈی میں اعلان کیا تھا۔ کیونکہ وفاق، بلوچستان اور سندھ میں تو پرانی اسمبلیاں ہی کام کررہی ہوں گے۔ 90 دن میں صورتحال ’‘ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ’‘ کے مصداق ہوگی۔

سندھ اور بلوچستان اسمبلیاں

صوبہ سندھ میں اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے۔ تحریک انصاف کے مجموعی اراکان صوبائی اسمبلی کی تعداد 30 ہے جن میں جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والے 23 ارکان ہیں۔ چونکہ وزیراعلیٰ پیپلزپارٹی کا ہے اس لئے سندھ اسمبلی توڑنے کا اختیار تحریک انصاف کے پاس موجود نہیں۔ ایسی صورت میں اگر تحریک انصاف کے ارکان استعفے دیتے ہیں تو پیپلزپارٹی کی حکومت کو صرف 23 نشستوں پر ضمنی انتخاب کرانا ہوگا۔

چونکہ تحریک انصاف بقول ان کے اس کرپٹ نطام کا حصہ نہیں رہنا چاہتی اس لئے وہ ضمنی انتخاب کے بائیکاٹ کی صورت میں ان 23 نشستوں سے بھی محروم ہوجائے گی۔ جس کے اثرات انہیں آئندہ عام انتخابات میں بگھتنا ہوں گے۔

ایسی ہی صورتحال بلوچستان اسمبلی میں ہے جہاں اگرچہ تحریک انصاف کے 7 ارکان اسمبلی مخلوط حکومت کا حصہ ہیں، مگر وزیراعلیٰ کسی اور جماعت کا ہونے کی وجہ سے یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار تحریک انصاف کے پاس نہیں۔ ایسی صورت میں 7 ارکان کے مستعفیٰ ہونے سے وہاں کی حکومت کو ان نشستوں پر ضمنی انتخاب کرانا ہوگا۔ تحریک انصاف نہ صرف ان 7 نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی بلکہ آئندہ عام انتخابات میں بھی ان حلقوں میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایسی صورت میں پی ٹی آئی کیا ہدف حاصل کرے گی؟

تحریک انصاف وفاق کی اسمبلی سے پہلے ہی مائنس ہے، اس فیصلے سے سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں سے باقی پارلیمانی سال کےلئے مائنس ہوتی نظر آرہی ہے۔ پنجاب حکومت تو پہلے ہی پی ڈی ایم کے پاس نہیں ہے، عمران خان کےلئے پرویزالہٰی کے ساتھ اتحاد کا سفر پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے، ایسے میں اگر آصف علی زرداری شطرنج کے کھیل میں کوئی اچھی چال چل گئے تو پنجاب کی بساط بالکل ہی ہاتھ سے نکل جائے گی۔

ایک پہلو جو خود عمران خان کی نظر میں پوشیدہ ہے، وہ جانتے ہیں کہ وفاق کے ڈر سے جب ان کے لئے اپنے بنی گالہ کے گھر میں رہنا مشکل ہوچکا ہے، اگر وہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ کی محفوظ پناہ گاہیں ہی گنوا بیٹھے تو آئندہ انتخابات کی تیاری تک ان کے پاس کوئی بیس کیمپ ہی نہیں ہوگا۔

ایسے میں تحریک انصاف ملک بھرمیں قبل ازوقت عام انتخابات کرانے کا ہدف تو حاصل کرتی نظرنہیں آرہی لیکن 4 اسمبلیوں میں اعدادو شمار کا اکھاڑ پچھاڑ کرکے مخالفین کو اس امتحان میں ضرور مصروف رکھے گی۔

’عمران خان راولپنڈی عوامی جلسے میں موجود تھے توعدالت کیوں پیش نہیں ہوسکے‘

عمران خان کی 2 مقدمات میں عبوری ضمانت میں توسیع
اپ ڈیٹ 28 نومبر 2022 02:33pm
عمران خان ــــ فیس بُک آفیشل
عمران خان ــــ فیس بُک آفیشل

اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے 2 مقدمات میں عمران خان کی عبوری ضمانت میں 9 اور17دسمبرتک توسیع کردی۔

انسداد دہشتگردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے عمران خان کے خلاف احتجاجی مظاہرے اورکارسرکار میں مداخلت کے دو مقدمات پرسماعت کی۔

عمران کے وکیل بابر اعوان نے عمران خان کی میڈیکل رپورٹ جمع کرتے ہوئے ان کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی۔

بابراعوان نے موقف اپنایا کہ عمران خان لاہور میں ہیں، اس لیے آج پیش نہیں ہوسکیں گے ۔ اس پرعدالت نے استفسارکیا کہ راولپنڈی عوامی جلسے میں موجود تھے تو عدالت کیوں پیش نہیں ہوسکے۔

بابراعوان نےجواب میں کہا کہ عمران خان کے ہیلی کاپٹرکواسلام آباد لینڈنگ کی اجازت نہیں مل سکی، عدالت کے استفسار پرانہوں نے بتایاکہ لینڈنگ کی اجازت نہ ملنے کا کوئی تحریری حکم نامہ نہیں ہے۔

عدالت نے دونوں مقدمات میں ضمانت میں توسیع دیتے ہوئےسابق وزیر اعظم عمران خان کی ایک کیس میں عبوری ضمانت میں 9 دسمبر جبکہ دوسرے کیس میں 17 دسمبر تک توسیع کر دی۔

سماعت کے بعد بابراعوان نے میڈیا سے گفتگو میں کہاکہ حکومت مقدمات کے ریکارڈ قائم کررہی لیکن عمران خان حملے کی ایف آئی آرنہیں کاٹ سکتی۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ مسائل کا حل عام انتخابات ہی ہیں۔

عمران خان کے اعلان پر پہلا استعفیٰ آگیا

سیٹ عمران خان اور پی ٹی آئی کی امانت تھی، ممبر صوبائی اسمبلی
اپ ڈیٹ 28 نومبر 2022 01:56pm
تصویر: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
تصویر: ٹوئٹر/پی ٹی آئی

گزشتہ روز راولپننڈی جلسے میں عمران خان کے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کے بعد اپنے کپتان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے پہلا استعفیٰ پیش کردیا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی عزیز اللہ خان نے اپنا استعفیٰ وزیراعلیٰ محمود خان کو پیش کردیا۔

عزیز اللہ خان کا کہنا ہے کہ سیٹ عمران خان اور پی ٹی آئی کی امانت تھی، عمران خان کے حکم کے مطابق مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہوں۔

عزیز اللہ نے اپنے استعفے میں لکھا کہ، “ میں پارٹی منشورکا پابند اوروفاداررہوں گا، پارٹی کو جب اورجہاں ضرورت ہوگی حاضر رہوں گا۔“

اکتوبر کا الیکشن قبول ہے تو چھ ماہ کیوں برباد کیے، احسن اقبال کا سوال

' استعفے لینے آئے تھے، استعفےدے کر چلے گئے'
شائع 27 نومبر 2022 06:12pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے پی ٹی آئی لانگ مارچ خاتمے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لانگ مارچ کا ڈراپ سین ہوچکا ہے، اگر اکتوبر کا الیکشن قبول ہے تو چھ ماہ کیوں برباد کیے، بے گناہ کارکنوں کی جانوں کو کیوں داؤ پر لگایا۔

نارووال میں تقریب سے خطاب میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ میں ان تمام لوگوں کو دعوتِ فکر دیتا ہوں جو سمجھتے تھے خان صاحب مقصد کیلئےکام کر رہے ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ انہوں نے سی پیک کے ذریعے کھیل کھیلنے کی کوشش کی، عوام عمران خان کے جھوٹ کو جان چکی ہے، کل آپ نےکہا کہ آپ کے دور میں معیشت بہتر تھی، آپ کے دور میں معیشت 6 سے 1.7 فیصد ہوگئی تھی۔

ن لیگی رہنما نے کہا کہ 35 پنکچر کی کہانی پرعوام کو لگایا اور مکر گئے، اب امریکی سازش پرعوام کو لگا کر بھی مکر گئے۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ کو عنقریب عدالت لے کر جاؤں گا، آپ نے مجھے سزائے موت کے قیدیوں کے ساتھ رکھا، آپ کے ساتھیوں نے میری کردار کشی کی۔

احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان نے اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کی، ایک خاتون کے ذریعے چیئرمین نیب کو بلیک میل کرایا، آپ کےلوگ خود کہتے ہیں پاکستان سری لنکا بننے لگا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان آئی ایم آیف معاہدے پر کھیل کھیل رہے تھے، عوام پاکستان میں استحکام دیکھنا چاہتے ہیں، 2018 سے پہلے مہنگائی کا تناسب چار فیصد تھا، عمران خان کے دور میں یہ ڈبل ڈجٹ تک چلا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آپ استعفے لینے آئے تھے، استعفےدے کر چلے گئے، عمران خان استعفے کے معاملے پر بھی یوٹرن لیں گے۔

احسن اقبال نے کہا کہ سیاست اور معیشت کیلئے سنجیدگی چاہئے، آپ کے اندر سنجیدگی نہیں صرف انا ہے، اگر آزادی چاہئے تو اپنی انا سے آزادی حاصل کریں۔

پی ٹی آئی مارچ ختم، اب آگے کیا ہوگا

بطور سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے لیے کچھ اچھا ہو رہا ہے
شائع 27 نومبر 2022 04:48pm
تصویر: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
تصویر: ٹوئٹر/پی ٹی آئی

عمران خان نے مارچ ختم کو دیا اور بہت سے لوگ اسے ”اچانک“ کہہ رہے ہیں لیکن یہ اتنا اچانک بھی نہیں تھا۔

ہفتہ 26 نومبر کی شام اسلام آباد میں پولیس اور پیراملٹری فورسز تیار تھیں،کئی لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان فیض آباد سے اسلام آباد کی طرف رخ کرکے 2014 کی تاریخ دہرائیں گے۔ ایسے میں عمران خان کے اعلان سے لوگ حیران رہ گئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑے اشارے راولپنڈی جلسے سے ایک دن پہلے ملنا شروع ہوگئے تھے۔

پنجاب انتظامیہ نے جمعہ کو جلسے کا اسٹیج فیض آباد سے ہٹا کر مری روڈ پر دوکلومیٹر اندر رحمان آباد پر منتقل کردیا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فراز احتجاج کرتے دکھائی دیئے۔ لیکن پارٹی رہنما اور صوبائی وزیر عمر چیمہ نے کہاکہ اسٹیج کے مقام پر کوئی اختلاف نہیں۔

فیض آباد اسلام آباد کے ساتھ لگتا ہے۔ رحمان آباد دوکلومیٹر کے محفوظ فاصلے پر ہے۔ مری روڈ کا دوسرا کنارہ جہاں ایک اہم عمارت ہے یہاں سے کافی دور ہے۔

دوسرا بڑا اشارہ اس وقت ملا جب ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں دیگر سیکیورٹی ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ”پی ٹی آئی کے کارکنان جلسے کے بعد جلسہ گاہ کو مکمل طور پر خالی کر دیں گے۔“

جلسہ ختم ہونے کے بعد راولپنڈی پولیس نے سوشل میڈیا پراعلامیہ جاری کیا اور کہا کہ ”سیاسی جماعت کا جلسہ راولپنڈی پولیس کے سخت سیکورٹی حصار میں پرامن اختتام پذیر“۔ یہ سخت سیکورٹی والا حصار جملہ بیان میں سب سے اوپر تھا اور ڈپٹی کمشنر کے بیان کے تناظر میں معنی خیز بھی۔

مارچ جس انداز میں ختم ہوا اس سے مستقبل کے سیاسی حالات کا اندازہ ہوتا ہے. اس نئے مستقبل میں کسی مصنوعی سہارے کے بغیر تحریک انصاف کی حقیقی سیاست شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

شنید ہے کہ تحریک انصاف کے کئی رہنما پارٹی محض اس لیے نہیں چھوڑ رہے کہ عمران خان کے پاس ووٹ بینک ہے۔ اس سے قبل مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک نواز شریف کا تھا، پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک بھٹو کا تھا اور اب تحریک انصاف کا ووٹ عمران خان کا ہے۔ برصغیر میں سیاست شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

عمران خان نے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تو فواد چوہدری نے جمع تفریق کرکے بتایا کہ مجموعی طور پر ساڑھے پانچ سو سے زائد قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں خالی ہو جائیں گی۔

تحریک انصاف کو امید ہے کہ بڑی تعداد میں نشستیں خالی ہونے سے اگر قومی اسمبلی نہ بھی توڑی گئی تو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تو تحلیل ہو ہی جائیں گی۔

فواد چوہدری کا حساب کتاب اس کا اشارہ کرتا ہے کہ وہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیاں ٹوٹنے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ان دونوں اسمبلیوں کی ان تمام نشستوں کی تعداد شامل کی ہے جن پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے۔ یعنی پنجاب اسمبلی میں 297 نشستیں اور خیبرپختونخواہ اسمبلی میں 115 نشستیں۔ دیگر اسمبلیوں کے حوالے سے انہوں نے صرف ان سیٹوں کی تعداد دی ہے جن پر تحریک انصاف کے اراکین ہیں۔

اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قبل از وقت انتخابات ہو جاتے ہیں تو ان اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت اس دن سے شروع ہوگی جب یہ حلف اٹھائیں گی۔ بالفرض مارچ میں یہ اسمبلیاں حلف اٹھاتی ہیں تو اکتوبر میں عام انتخابات کے وقت ان دونوں صوبوں میں صوبائی انتخابات نہیں ہوں گے بلکہ یہاں سیاسی جماعتوں کی حکومتیں ہوں گی۔ پی ٹی آئی کو امید ہے کہ یہ حکومتیں اس کی ہوں گی۔

تحریک انصاف کو امید ہے کہ اگر اکتوبر میں ان دو صوبوں میں وہ برسراقتدار ہوئی تو قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثرانداز ہونا اس کے لیے آسان ہوگا۔

پی ٹی آئی کے مزمل اسلم قریب قریب یہی بات زبان پر بھی لے آئے۔

پاکستان کے معاشی مسائل ابھی حل نہیں ہوئے اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما برملا کہتے ہیں کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کئی حلقوں سے کامیابی کا سبب یہ ہے کہ ووٹر نواز لیگ سے ناراض ہیں۔ ان کی ناراضی کا سبب ملک میں ہونے والی مہنگائی ہے۔

اکتوبر تک مہنگائی برقرار رہنے سے ن لیگ اور پی پی کا ووٹر مزید ناراض ہو سکتا ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اس وقت تک معاشی مسائل برقرار رہیں!

مسلم لیگ(ن) کے ذرائع کے مطابق پچھلے چھ ماہ میں معاشی استحکام نہ آنے کی وجہ ملک کی غیریقینی صورت حال تھی جس میں عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں نے ایک اہم کردار ادا کیا۔

عمران خان اپنی تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ اداروں کے اندر سے لوگ انہیں معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔

حکومتی وزرا یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان بھی تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی وجہ سے متاثر ہوا۔ اس دورے میں محمد بن سلمان نے پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کرنا تھا۔

حکومت کی توجہ سیاسی مسائل پر ہونے کے سبب وہ سیلاب متاثرین کی بحالی کا منصوبہ بھی تیار نہیں کر سکی۔ اس منصوبے سے پاکستان کو خاطرخواہ رقم ملنے کی توقع ہے۔ بیرون ملک سے پیسہ آنے سے پاکستانی کرنسی کی قدر میں استحکام آسکتا ہے۔

سیاسی صورت حال کے سبب حکومت کی توجہ اتنی بٹی کہ گذشتہ ہفتے آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پیرز ریز کو حکومت کو خط لکھنا پڑا۔

اداروں میں تبدیلی آنے سے اب صورت حال بدلنے کا امکان ہے۔

اگر حکومت معاشی بحران پر قابو پا لیتی ہے تو صرف روپے کی قدر بہتر ہونے سے مہنگائی کے اثرات کم ہو جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اکتوبر تک معیشت کا قبلہ درست ہونے سے عام آدمی کو سکھ کا سانس لینے کا ووٹ ملا تو ن لیگ سیاسی میدان میں پی ٹی آئی سے تگڑا مقابلہ کر پائے گی۔

حکومت کو معاشی محاذ پر اہداف حاصل کرنے سے روکنے کیلئے تحریک انصاف کا پاس یہی راستہ ہے کہ وہ سیاسی ہنگامہ خیزی جاری رکھے۔ پنجاب اور خیبرپختخوا میں قبل از وقت انتخابات اس ہنگامہ خیزی کو ازخود ممکن بنا دیں گے۔

دوسری جانب اگر حکومت نے اسمبلیاں تحلیل نہ ہونے دیں اور دونوں جگہ حکومت بنا لیں یا کم ازکم پنجاب کو ہی بچا لیا تو تحریک انصاف کی چال الٹ پڑ سکتی ہے۔ وہ حکومتی وسائل سے محروم ہو جائے گی۔

اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی پنجاب اسمبلی توڑنے کے حق میں نہیں۔ وہ آئندہ انتخابات سے پہلے پنجاب میں اپنی جماعت کی پوزیشن بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ جولائی کے آخر میں وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد انہوں نے صوبے میں پانچ نئے اضلاع کے قیام، نکاح نامے میں ختم نبوت کی شرط شامل کرنے سمیت ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوسکے۔ سڑکوں کی تعمیر کے کئی منصوبے ابھی جاری ہیں اور پرویز الہیٰ مختصر وقت کو زیادہ سے زیادہ سودمند بنانا چاہتے ہیں۔

حالیہ حقیقی آزادی مارچ کے دوران پرویز الہی نے اپنے پتے بہت احتیاط سے کھیلے ہیں۔ انہوں نے ایف آئی آر کے معاملے پر محتاط رویہ دکھایا اور پنجاب کے اندر آنے والے گیریژن سٹی کے اندر مظاہرہ نہیں ہونے دیا۔ اگر عمران خان پنجاب اسمبلی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو بہت ممکن ہے کہ نہ صرف پرویز الہیٰ سمیت مسلم لیگ(ق) کے اراکین بلکہ تحریک انصاف کے کئی اراکین پنجاب اسمبلی بھی استعفے دینے سے انکار کردیں۔ ہوسکتا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کا فارورڈ بلاک سامنے آجائے۔

خیبرپختوانخوا اسمبلی جہاں ایک بالکل مختلف صور تحال ہے وہاں ایک رکن اسمبلی نے اتوار کو پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ وہ استعفیٰ نہیں دیں گے۔

کے پی میں تحریک انصاف کے پاس 145 میں سے 95 سیٹیں ہیں جن میں ریزرو سیٹوں پر منتخب 27 اراکین بھی شامل ہیں۔ یہاں فاورڈ بلاک بنانے کی کوششیں اس سے پہلے کامیاب نہیں ہوسکیں۔ لہذا عین ممکن ہے کہ صوبائی اسمبلی کے لیے وقت سے پہلے الیکشن ہو جائے ۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور اے این پی ایسی صورتحال سے بچنے کی سر توڑ کوششیں کریں گے۔

اس وقت تحریک انصاف اور عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ جلاؤ گھیراؤ سے خود کو دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ ”سلیکٹڈ“ کا داغ بھی دھو لیں گے۔

یہ البتہ واضح نہیں کہ سیاست میں تلخ زبان کا استعمال بند ہوگا یا نہیں۔

اعظم سواتی کی گرفتاری: سینیٹ کا نوٹس، ڈی جی ایف آئی اے طلب

کل ہونے والے سینیٹ اجلاس میں اضافی ایجنڈا آئٹم اعظم سواتی کی گرفتاری سے متعلق شامل
اپ ڈیٹ 27 نومبر 2022 04:56pm
ڈی جی ایف آئی اے محسن حسن بٹ
ڈی جی ایف آئی اے محسن حسن بٹ

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے نوٹس لے لیتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو کل دوپہر ڈھائی بجے طلب کرلیا۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین محسن عزیز نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس میں کل ہونے والے اجلاس میں اضافی ایجنڈا آئٹم اعظم سواتی کی گرفتاری سے متعلق شامل کیا گیا ہے۔

کمیٹی ڈی جی ایف آئی اے سے سینیٹر اعظم سواتی کی گرفتاری کی وجوہات اور ایف آئی آر میں شامل کی گئی تعزیری دفعات، سے متعلق پوچھ گچھ کرے گی، اور اس بات کو بھی دیکھا جائے گا کہ ان کی حالیہ گرفتاری میں ضابطہ اخلاق کو مدنظر رکھا گیا ہے یا نہیں۔

اعظم سواتی کے خلاف درج مقدمات کی تعداد 15 ہوگئی

ایف آئی آر میں پیکا ایکٹ سمیت 7 دفعات شامل کی گئی ہیں۔
اپ ڈیٹ 27 نومبر 2022 09:07pm
اسکرین گریب
اسکرین گریب

پی ٹی آئی رہنما سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف درج مقدمات کی تعداد پندرہ ہوگئی ہے۔

اعوظم سواتی کے خلاف کراچی میں تین اور قمبر شہداد کوٹ میں دو مقدمات درج کیے گئے، جبکہ کوئٹہ، جیکب آباد اور لاڑکانہ میں بھی ایک، ایک مقدمہ درج کیا گیا۔

کوئٹہ کے ایک شہری نے پاک فوج اور اداروں کے خلاف تقریر اور عوام کو اکسانے پر اعظم سواتی کے خلاف تھانہ کچلاک میں مقدمہ درج کروا دیا۔

کوئٹہ کے رہائشی عزیز الرحمان نے پی ٹی آئی رہنماء اعظم سواتی کے خلاف ایف آئی آر 27 نومبر صبح ساڑھے 8 بجے درج کروائی، جس میں پیکا ایکٹ سمیت 7 دفعات شامل کی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اعظم سواتی کا متنازع بیان، ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرلیا

دفعہ 109 ، 505 ، 504 ، 501 ، 500 ، 153 اور 131 کو ایف آئی آر کا حصہ بنایا گیا ہے۔

![. ](متنازع ٹوئٹ کا معاملہ، اعظم سواتی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور)

شہری کا مؤقف ہے کہ اعظم سواتی نے راولپنڈی جلسہ میں پاک فوج کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے، پاک فوج کے خلاف لوگوں کو اکسایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پیمرا نے اعظم سواتی کی ہرقسم کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کردی

شہری کا ایف آئی آر میں کہنا تھا کہ ٹوئٹر پر آرمی کے خلاف پروپیگنڈہ ریکارڈ کا حصہ ہے، اداروں کے َخلاف بیانات قابل قبول نہیں۔

دوسری جانب اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی کرنے کے معاملے پر اعظم سواتی کے خلاف کراچی میں بھی مقدمہ درج کرلیا گیا۔

مقدمہ ضلع جنوبی کے درخشاں تھانے طارق نامی شہری کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

کراچی کے ہی تھانہ اورنگی ٹاؤن میں اعظم سواتی کے خلاف درج ایک اور مقدمے میں حاجی محمد اسلم نامی سخص نے اعظم سواتی کے خلاف کارروائی کی درخواست کی ہے۔

![. ](پیمرا نے اعظم سواتی کی ہرقسم کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کردی)

شہری کی جانب سے درج مقدمے میں اعظم سواتی کے بیان کو ”پاک آرمی کی جگ ہنسائی“ قرار دیا گیا ہے۔

جبکہ ایف آئی آر میں دفعہ 131 ، 505 ، 504 ، 501 ، 500 اور 153 اے تعذیراتِ پاکستان شامل کی گئی ہیں۔

اعظم سواتی کے خلاف کراچی میں تیسرا مقدمہ ضلع جنوبی کے تھانہ کلفٹن میں ریاض احمد نامی شہری کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

جیکب آباد کے تھانہ صدر میں بھی سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔

جیکب آباد کے خادم حسین نامی شہری کی مدعیت میں کیس نمبر 213/2022 اعظم سواتی کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

مقدمے میں پاکستان اور پاک فوج کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے خلاف دفعات شامل کی گئی ہیں ۔

شہری نے کیس میں موقف اختیار کیا ہے کہ سینیٹر اعظم سواتی نے پاکستان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں، سینیٹر اعظم سواتی کے الفاظ ناقابل برداشت تھے، شاید وہ بھارت کو خوش کرنا چاہتے تھے، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

شہداد کوٹ میں بھی اعظم سواتی کے خلاف تھانہ نصیرآباد میں شہری کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اعظم سواتی کے خلاف ساتواں مقدمہ لاڑکانہ کے سول لائن تھانہ میں شہری کی مدعیت میں درج کیا گیا ۔

خیرپور میں اعظم سواتی کے خلاف دو ایف آئی آرز تھانہ ای سیکشن اور رانی پور میں درج کر لی گئیں۔

حب میں بھی اعظم سواتی کےخلاف ایک مقدمہ شہری کی جانب سے تھانہ صدر حب میں درج کیا گیا۔

گھوٹکی میں اعظم سواتی کےخلاف تین مقدمات تھانہ اے سیکشن، میرپور ماتھیلو اور اوباڑو میں درج کرائے گئے۔

کندھ کوٹ میں بھی اعظم سواتی کے خلاف دو ایف آئی آرز تھانہ اے اور بی سیکشن میں درج کرائی گئیں۔

پیمرا نے اعظم سواتی کی ہرقسم کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کردی

اعظم سواتی کو کسی شو میں بطورمہمان بلانے، بیان یا ٹکر چلانے پر پابندی ہوگی، پیمرا
شائع 27 نومبر 2022 03:58pm
سینیٹراعظم سواتی  میڈیا سے بات کررہے ہیں، تصویر: آئی این پی
سینیٹراعظم سواتی میڈیا سے بات کررہے ہیں، تصویر: آئی این پی

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے الیکٹرانک میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کی ہر قسم کی کوریج پر پابندی عائد کردی ہے۔

پیمرا کے مطابق ٹی وی چینلز نے اعظم سواتی کی راولپنڈی جلسہ میں تقریر بغیر ایڈٹ کئے نشر کی جبکہ انہوں نے تقریر میں ریاستی اداروں کے خلاف متنازع اور بے بنیاد الزامات لگائے تھے۔

پیمرکے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی سے متعلق ٹی وی چینلز پرکوئی ٹکر، خبر، بیان یا پروگرام نشر نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق اعظم سواتی کی تقریر دوبارہ نشر کرنے اور انہیں کسی شو میں بطورمہمان بلانے اور بیان یا ٹکر چلانے پر پابندی ہوگی۔

اعظم سواتی کی ریاستی اداروں کے خلاف تقریر نشر کرنا پیمرا آرڈیننس، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ روز ہی سینیٹر اعظم سواتی نے آزادی مارچ سے خطاب کیا تھا۔

عمران خان کا حقیقی آزادی مارچ ختم اور تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان

ہم نے اس کرپٹ نظام کا حصہ نہیں رہنا، اس ضمن میں اپنے وزرائے اعلیٰ سے میٹنگ رکھی ہے''
اپ ڈیٹ 26 نومبر 2022 09:07pm
Imran Khan full speech in PTI jalsa at Rawalpindi | Nov 26 | Aaj News

عمران خان نے حقیقی آزادی مارچ منسوخ کرتے ہوئے اسلام آباد نہ جانے اور تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کردیا ہے۔

راولپنڈی میں پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا کہ لاہور سے روانہ ہونے لگا تو دو باتیں کہی گئیں، ایک تو یہ کہ میری ٹانگ کی حالت ابھی ٹھیک نہیں اور مجھے قتل کرنے کی کوشش کرنے والے 3 مجرم اب بھی اپنے عہدوں پر موجود ہیں، اس لئے میری جان کو خطرہ ہے۔

عمران خان نے کہا کہ لوگوں نےکہا آپ کیلئےسفر کرنا مشکل ہوگا، ڈاکٹرز نے کہا زخم ٹھیک ہونے میں تین ماہ لگیں گے۔

اگر میں نہیں گرتا تو میرے سَر پر گولیاں لگتیں

انہوں نے کہا کہ لوگوں نے کہا آپ کی جان کو خطرہ ہے، تین افراد نے مجھے قتل کرانے کی سازش کی، کہا گیا کہ مجھ پر حملے کی پھر واردات ہوسکتی ہے، میں نے موت بہت قریب سے دیکھی، ٹانگ پر گولیاں لگیں، گرتے ہوئے سر کے اوپر سے گولیاں گزریں، اگر نہیں گرتا تو سر پرگولیاں لگتیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ وقت آنے پر انسان موت سے نہیں بچ سکتا، 12 افراد کو گولیاں لگیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بچایا۔ فیصل جاوید، احمد چٹھہ اور دیگر افراد کو گولیاں لگیں، ہمارے ایک گارڈ کو چھ گولیاں لگیں، چار گولیاں عمران اسماعیل کے کپڑوں سےگزریں۔

عمران خان نے کہا کہ ہمیں موت کے خوف سے آزاد ہونا ہے، خوف انسان کو چھوٹا اور غلام بنا دیتا ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ 26 سال کی سیاست میں مجھے ذلیل کرنے کی بہت کوشش کی، کوئی موقع نہیں چھوڑا کہ کسی طرح عمران خان کو ذلیل کریں کیونکہ میں انہیں چور کہتا ہوں، عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے کوئی آپ کو ذلیل نہیں کرسکتا۔

عمران خان نے کہا کہ لوگ اپنی نوکریاں بچانے کے لئے اپنے افسران کے کہنے پر غلط کام کرتے ہیں کیونکہ ان میں یہ ایمان نہیں کہ رزق اللہ دیتا ہے، صرف آزاد لوگ بڑے کام کرتے ہیں، آزاد قوم اوپر جاتی ہے۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ مجھے موت کی فکر نہیں تھی مگر میری ٹانگ نے میری مشکلات بڑھا دیں، آج قوم اہم موڑ پر کھڑی ہے، اللہ نے ہمیں پر دیئے ہیں ہمارا مستقبل یہ نہیں کہ ہم چیونٹیوں کی رینگیں،

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ غریب ملکوں میں صرف چھوٹا چور جیل جاتا ہے، وہاں کے وزیراعظم پیسہ چوری کر کے ملک سے باہر لے جاتے ہیں، 2 خاندانوں نے 30 سال ملک پر حکومت کی لیکن اداروں کو مضبوط نہیں کیا، دونوں خاندانوں نے اپنی کرپشن کے لئے اداروں کو کمزور کیا، انہیں پتہ تھا ادارے مضبوط ہوئے تو یہ کرپشن نہیں کرپائیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ 2018 میں انہوں نے ملک کا دیوالیہ نکالا، ہم نے ملک سنبھالا تو بیرون ملک جا کر دوست ممالک سے پیسے لئے، دوست ممالک سے پیسے مانگنے میں شرم محسوس ہوتی تھی، دوست ممالک سے پیسے مانگنے میں شرم محسوس ہوتی تھی۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری حکومت میں 3 بڑے ڈیمز پر کام شروع کیا گیا، ہم نے 50 سال بعد ملک میں ڈیمز بنانا شروع کیے، اب معلوم نہیں ان کی حالت کیا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ کلمہ انسان کو غلامی سے نجات دلاتا ہے، صرف آزاد انسان بڑے کام کرسکتے ہیں جب کہ غلاموں کی پرواز نہیں ہوتی، یہ صرف اچھی غلامی کرسکتے ہیں۔

ملک میں ایک طرف نعمتوں، دوسری طرف تباہی کا راستہ ہے

انہوں نے کہا کہ پاکستان آج فیصلہ کُن موڑ پر کھڑا ہے، عوام کے سامنے آج دو راستے ہیں، ایک طرف نعمتوں، دوسری طرف تباہی کا راستہ ہے، انسان اور جانور کے معاشرے میں فرق انصاف کا ہے۔

پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں کبھی قانون کی حکمرانی نہیں آئی، جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ ترقی نہیں کرتا، ریاست مدینہ کی بنیاد انصاف پر رکھی گئی، ریاست مدینہ میں کمزور اور طاقتور برابر تھے۔

اس وقت طاقتور لوگ کرپشن کو بُرا نہیں سمجھتے تھے

سابق وزیراعظم نے کہا کہ بیرون سازش کے تحت ہماری حکومت کو ہٹانے کی کیا وجہ تھی، ساڑھے 3 سال میں صرف طاقتور کو قانون کے نیچے لگانے میں فیل ہوا، نیب میرے نہیں، اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت تھا اور اسٹیبلشمنٹ چوروں کو جیل میں ڈالنے کے بجائے ڈیل کر رہی تھی، مجھ سے کہا گیا کہ کہا گیا کہ آپ احتساب بھول جائیں، معیشت پر توجہ دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طاقتور افراد کی کرپشن ملک کو تباہ کردیتی ہے، اگر سازش نہیں تھی تو چوروں کے ٹولے کو مسلط کرکے این آر او دیا گیا، پہلا این آر او پرویز مشرف نے دیا جس سےب ملک کو 4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ کہا گیا سائفر ایک ڈرامہ اور جھوٹا بیانیہ تھا، کیا قومی سلامتی اجلاس میں سازش ثابت نہیں ہوئی تھی؟ ڈونلڈ لو نے سفیر اسد مجید کو دھمکی دی، سائفر کو ڈرامہ قرار دینا ملک کی توہین ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں ملک کا گروتھ ریٹ 6 فیصد تھا، 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ برآمدات ہوئیں جب کہ مہنگائی کی شرح 14 فیصد تھی جو آج 45 فیصد ہوگئی ہے، یہ 50 سال میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔

پاکستان کا ڈیفالٹ رسک ریٹ 100 فیصد سے زیادہ ہوگیا

چیئرمین تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ روپے کی قدر 178 روپے تھی، آج ڈالر 240 روپے کا ہوگیا، 7 ماہ میں انہوں نے معیشت برباد، مہنگائی میں اضافہ کیا، ملک میں بیروزگاری کی شرح 22.4 فیصد ہوگئی ہے، 88 فیصد سرمایہ کاروں کو حکومت پر اعتماد نہیں، پاکستان کا ڈیفالٹ رسک ریٹ 100 فیصد سے زیادہ ہوگیا ہے جب کہ ہمارے دور میں ڈیفالٹ رسک 5 فیصد تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے ایف آئی اے اور نیب میں اپنا آدمی بٹھا کر کیسز معاف کرا لئے، ان لوگوں نے اخلاقیات، قانون کی بالادستی ختم کردی اور اب یہ چور بڑے ڈاکو بننے جا رہے ہیں۔

معظم کو حملہ آور نے گولی نہیں ماری

عمران خان نے کہا کہ معظم شہید کو حملہ آور نے گولی نہیں ماری بلکہ وہ گولی حملہ آور کو مارنے کے لئے چلائی گئی تھی، معظم گوندل کو گولی کسی اور نے ماری، وزیر آباد فائرنگ واقعے میں تین شوٹرز تھے، لیاقت علی خان کیس کی طرح حملہ آور کو قتل کیا جانا تھا، البتہ مجھے معلوم تھا 3 افراد نے حملے کا پلان بنایا ہے۔

1971 میں مشرقی پاکستان کے ساتھ طاقت کا غلط استعمال کیا

سابق وزیراعظم نے کہا کہ 7 ماہ میں ایسا لگا کہ میں کوئی ملک دشمن ہوں، مجھ پر دہشتگردی کے مقدمات بنائے گئے، 1971 میں مشرقی پاکستان کے ساتھ طاقت کا غلط استعمال کیا جس سے بلآخر ملک ٹوٹ گیا، ہم نے ان لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔

سپریم کورٹ سمیت ملٹری اداروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہونگی

انہوں نے کہا کہ طاقتور قانون کے نیچے نہیں آیا تو ملک ترقی نہیں کرے گا، سپریم کورٹ سمیت ملٹری اداروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہوں گی، مسلمان ممالک میں سب سے طاقتور پاکستان کی فوج ہے، ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے۔

عمران خان نے کہا کہ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے، ملک کو حقیقی طور پر آزادی دلانا چاہتا ہوں، آزادی ملتی نہیں، چھینی پڑتی ہے، لہٰذا تھانہ، کچہری، پٹواری کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا، لابتہ عوام کو آزادی دلانے تک یہ تحریک چلتی رہے گی۔

ہم نے آگے نہیں جانا، آگے گئے تو تباہی مچ جائے گی

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک کو انتشار سے بچانے کے لئے لانگ مارچ ملتوی کیا، ہم نے آگے نہیں جانا، آگے گئے تو تباہی مچ جائے گی، لہٰذا فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے اس کرپٹ نظام کا حصہ نہیں رہنا، اس ضمن میں اپنے وزرائے اعلیٰ سے میٹنگ رکھی ہے۔

جلسہ گاہ آمد

عمران خان راولپنڈی میں جاری ”حقیقی آزادی مارچ“ کے جلسے میں شرکت کیلئے پہنچے جہاں انہیں بلٹ پروف شیشے کے پیچھے بٹھایا گیا، عمران خان کو خصوصی لفٹ کے زریعے اسٹیج تک پہنچایا گیا۔**

عمران خان بزریعہ ہیلی کاپٹر راولپنڈی کی بارانی یونیورسٹی پہنچے اور وہاں سے ان کا قافلہ جلسہ گاہ پہنچا۔ عمران خان چارٹر طیارے میں لاہور سے راولپنڈی پہنچے تھے جہاں سے انہیں ہیلی کاپٹر کے زریعے بارانی یونیورسٹی پہنچایا گیا، ڈاکٹرز کی ٹیم بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے ہمراہ ہے۔

اس سے قبل عمران خان زمان پارک سے ائیرپورٹ کیلئے روانہ ہوئے تھے جبکہ ذرائع نے بتایا تھا کہ عمران خان کی راولپنڈی روانگی سے پہلے ہی لاہور ائرپورٹ پرچارٹر طیارہ پہنچا دیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق چارٹر طیارے کی سکیورٹی چیکنگ کے بعد ہی عمران خان راولپنڈی کے لئے روانہ ہوئے تھے۔

چندروز قبل روات پہنچنے والے حقیقی آزادی مارچ کو روک کر26 نومبرکو دوبارہ راولپنڈی سے شروع کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جہاں آج وزیرآباد میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے عمران خان صحتیابی کے بعد پھرسے مارچ کی قیادت کریں گے ۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) آج راولپنڈی میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کررہی ہے، پی ٹی آئی کی کال پر ملک بھر سے قافلے راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔

عمران خان کے متوالے نے 18 فِٹ لمبا بلا تیارکرلیا

عمران خان سے محبت 1992 سے ہے،عمران خان کا مداح
شائع 26 نومبر 2022 01:39pm

پاکپتن کے رہائشی نے عمران خان سے محبت کا دعوی کرتے ہوئے 18 فٹ لمبا بیٹ (بلا) تیار کرلیا ہے۔

اسپیشل بیٹ 18 فٹ لمبا اور اڑھائی فٹ چوڑا ہے جبکہ ایک ہفتے میں تیارہونے والے بیٹ کو رکشے پرنصب کیا گیا ہے۔

رکشہ تین روز قبل پاکپتن سے روانہ ہوا اور پھر شہرشہرکمپین کرتے ہوئے راولپنڈی پہنچا ہے جبکہ پاک پتن کے رہائشی کا کہنا ہےعمران خان سے محبت 1992 سے ہے۔

عمران خان بلٹ پُروف جیکٹ پہنیں، پولیس کا مراسلہ

پولیس نے سیکیورٹی اورنقل وحرکت خفیہ رکھنے سے متعلق ہدایات کردیں
اپ ڈیٹ 26 نومبر 2022 02:06pm
چئیرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان ــ تصویر/ این پی آر
چئیرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان ــ تصویر/ این پی آر

پی ٹی آئی کے حقیقی آزادی مارچ سے قبل پولیس نے پارٹی قیادت کوتحریری طور پر سیکورٹی ہدایات دیتے ہوئے مراسلہ ارسال کردیا ہے۔

پولیس کی جانب سے دی جانے والی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ اسٹیج اور روسٹرم کو بلٹ پروف بنائیں جبکہ عمران خان بلٹ پروف جیکٹ بھی لازماً استعمال کریں۔

عمران خان کو کسی بھی عوامی مقام پرگاڑی سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت کے علاوہ پی ٹی آئی سے ان کی نقل و حرکت کو بھی خفیہ رکھنے کا کہا گیا ہے، مراسلے کے مطابق مجوزہ گاڑی/ پیدل روٹ کے علاوہ راستہ استعمال نہ کیا جائے۔

مراسلے کے مطابق وی آئی پیز کی گاڑی کی پارکنگ الگ اور مخصوص ہو گی، اسٹیج پر شرکاء کی فہرست پہلے سے انتظامیہ کو فراہم کی جائے گی اور فیہرست میں شامل ناموں کے علاوہ کوئی بھی اسٹیج پر نہیں جا سکے گا جبکہ اسٹیج پر بھی نقل وحرکت محدود رکھی جائے۔

پولیس نے جلسہ گاہ/مارچ میں کسی بھی مسلح پرائیویٹ گارڈ/گن مین کے داخلے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کسی مقام پر عوام سے ملاقات نہیں کریں گے۔ تمام شرکاء مجوزہ مقام سے مکمل چیکنگ کے بعد ہی داخل ہو سکیں گے۔

پولیس مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جلسہ گاہ میں ڈرون کیمرہ کے استعمال اور آتش بازی پرمکمل پابندی ہو گی۔ خواتین کے لئے الگ اورمناسب جگہ مختص کی جائے اورکارکنوں کو کسی عمارت کی چھت پر چڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

پی ٹی آئی نےعمران خان کے ہیلی کاپٹراتارنے کا متبادل انتظام کرلیا

عمران خان کے اسٹیج تک پہنچنے کے لئے ریمپ کے ساتھ لفٹ بھی لگائی گئی ہے
شائع 26 نومبر 2022 11:40am

چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جلسے گاہ آمد کا پلان خفیہ رکھا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق عمران خان کا ہیلی کاپٹر ایرڈ ایگریکلچر یونی ورسٹی کے گراؤنڈ میں اترے گا پھر وہاں سے ان کو پروٹوکول کے ساتھ فول پروف سیکیورٹی میں جلسہ گاہ لایا جائے گا۔

عمران خان کے زخمی ہونے کے باعث اسٹیج پر پہنچانے کےلئے ریمپ کے ساتھ لفٹ بھی لگائی گئی ہے اس کے ساتھ اسٹیج پر جو افراد موجود ہوں گے ان کی فہرست مرتب کی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق چاہے کوئی سینئر رہنما ہی کیوں نہ ہو، اگرفہرست میں نام شامل نہیں تو اسٹیج تک رسائی نہیں دی جائے گی۔

اس کےعلاوہ کنٹینرکی نچلی سطح پرسینئر رہنما موجود ہوں گے جبکہ عمران خان کے ساتھ مخصوص افرد موجود ہوں گے جن کا نام فرست میں ہوگا۔

واضھ رہے کہ راولپنڈی جلسے کے لیے سکستھ رود فلائی اوور کے مقام پراسٹیج تیارکیا گیا ہے۔

پولیس نے فیض آباد کے قریب جاری کام بند کروا کرجلسے کا مرکزی اسٹیج مری روڈ رحمان آباد منتقل کروا دیا تھا۔

کوہاٹ: تحریک انصاف کے کارکنوں نے آزادی مارچ شرکت کیلئے کنٹینربنا ڈالا

یہ خان کے لئے حقیر سا تحفہ ہے، کارکنان
شائع 26 نومبر 2022 10:42am

آزادی مارچ میں شرکت کرنے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے بھی کنٹینر بنا ڈالا ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ ہم خان کے سپاہی ہیں اور یہ خان کے لئے حقیر سا تحفہ ہے۔

حقیقی آزادی مارچ کا حصہ بننے کیلئے خواتین پُرجوش

خواتین کا کہنا وہ اپنے قائد کی کال پر راولپنڈی روانہ ہو رہی ہیں
اپ ڈیٹ 26 نومبر 2022 12:00pm
پی ٹی آئی حقیقی آزادی لانگ مارچ میں شرکت کے لیے سکھر سے قافلہ راولپنڈی کے لیے روانہ ہو رہا ہے  جس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ تصویر: پی پی آئی
پی ٹی آئی حقیقی آزادی لانگ مارچ میں شرکت کے لیے سکھر سے قافلہ راولپنڈی کے لیے روانہ ہو رہا ہے جس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ تصویر: پی پی آئی

پاکستان تحریک انصاف کی خواتین نے حقیقی آزادی مارچ کا حصہ بننے کے لئے تیارہیں جس کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔

خواتین نے پارٹی پرچم اور ٹوپیاں تیار ہیں، فیس پینٹنگ بھی کی جا رہی ہے۔

عمران خان کی تصویروالی شرٹس بھی خصوصی طور پر لانگ مارچ کیلئے ڈیزائن کروائی ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ لیڈر سے محبت کا اظہار ہے۔

گاڑیوں میں بیٹھی خواتین کا جذبہ بلند ہے جو اپنے قائد کی کال پر نئے پاکستان کے حصول کیلئے راولپنڈی روانہ ہو رہی ہیں۔

راولپنڈی میں جلسہ یا دھرنا، عمران کل پہنچ کر بتائیں گے

سابق وزیراعظم ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاہور سے روانہ ہوں گے
شائع 25 نومبر 2022 05:23pm
مری روڈ راولپنڈی پر کنٹینرز رکھ دیئے گئے ہیں۔ فوٹو سوشل میڈیا
مری روڈ راولپنڈی پر کنٹینرز رکھ دیئے گئے ہیں۔ فوٹو سوشل میڈیا

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 26 نومبر کو راولپنڈی میں احتجاج کی کال کے بعد تیاریاں مسلسل جاری ہیں۔ پارٹی ذرائع نے آج نیوز کو بتایا ہے کہ عمران خان کل ہفتہ کو دوپہر 1 اور 2 بجے کے درمیان زمان پارک لاہور سے روانہ ہونگے۔

عمران خان سخت سیکورٹی کے حصار میں ایئر پورٹ پہنچیں گے، اور وہاں سے بذریعہ ہیلی کاپٹر راولپنڈی روانہ ہوں گے،

عمران خان کے ہمراہ ہیلی کاپٹر میں ڈاکٹرز بھی موجود ہوں گے۔

سابق وزیراعظم راولپنڈی میں حقیقی آزادی مارچ کی قیادت کریں گے۔ راولپنڈی میں دھرنا ہوگا یا جلسہ؟ اسکا اعلان عمران خان کریں گے

پارٹی ذرائع کے مطابق عمران خان کل راولپنڈی میں شرکاء کو آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کرینگے۔

مطالبات کی منظوری تک عوام راولپنڈی کی سڑکوں پر موجود رہیں گے، مسرت جمشید چیمہ

عمران خان کی فائنل کال پر پاکستان بھر سے کارکنان راولپنڈی پہنچ رہے ہیں، ترجمان پنجاب حکومت
اپ ڈیٹ 25 نومبر 2022 11:23am
ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ، تصویر: فیس بُک
ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ، تصویر: فیس بُک

ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کے لئے لاہور سے مرکزی جلوس کل روانہ ہوگا اورمطالبات کی منظوری تک عوام راولپنڈی کی سڑکوں پر موجود رہیں گے۔

مسرت جمشید چیمہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا مرکزی جلوس راولپنڈی روانگی کے لئے راوی ٹول پلازہ لاہورسے 26 نومبر کو صبح 7 بجے روانہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام حلقوں کے قافلے اپنی مقامی لیڈر شپ کی قیادت میں ٹول پلازہ پر پہنچیں گے۔

مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے 12 اضلاع سے قافلے آج شام 5 بجے روانہ ہوں گے، جو کل دوپہرایک بجے تک راولپنڈی پہنچ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین عمران خان کی فائنل کال پر پاکستان بھر سے کارکنان راولپنڈی پہنچ رہے ہیں، جو فیض آباد کے مقام پر اکٹھے ہوں گے۔

ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ مطالبات کی منظوری تک عوام عمران خان کے شانہ بشانہ راولپنڈی کی سڑکوں پر موجود رہیں گے۔

مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے آئی خواتین مارچ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں گی۔

پی ٹی آئی جلسہ: راولپنڈی اسلام آباد کا سنگم فیض آباد کنٹیرز لگا کر بند

اسلام آباد پولیس کی شہریوں سے متبادل راستے اختیار کرنے کی درخواست
اپ ڈیٹ 25 نومبر 2022 02:44pm
تصویر بشکریہ: روئٹرز
تصویر بشکریہ: روئٹرز

اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ اورجلسے کے پیش نظر راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد کو کنٹینرلگا کربند کردیا ہے۔

جاری مراسلےمیں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد سے راولپنڈی جانے کیلئے ایکسپریس وے پر فیض آباد کے مقام کینٹنر لگا کرراستہ بند کر دیا گیا ہے۔

راولپنڈی پولیس کے مطابق مری روڈ بھی فیض آباد کے مقام سے رکاوٹیں لگا کربند کردیا گیا ہے۔

ٹوئٹرپراسلام آباد پولیس کے آفیشل ہینڈل پر بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے جلسے کی تیاریوں کے پیش نظر کنٹینرلگا کر روڈ بند کیے جانے کے باعث براستہ فیض آباد اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستے مسدودہیں۔

پولیس نے شہریوں سے متبادل راستے اختیار کرنے کی گزارش کرتے ہوئے ہنگامی صورتحال میں 15 پرکال کرنے کا کہا ہے۔

شہری اسٹیڈیم روڈ، کُری روڈ اورکمرشل مارکیٹ روڈ کو متبادل کے طور پراستعمال کرسکتے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کی ہی جانب سے کی جانے والی ایک اور ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ شہرمیں آمد و رفت کے تمام راستے کھلے ہیں۔

پولیسکے مطابق اسلام آباد کی حدود میں کہیں بھی راستے کنٹینرز لگا کر بند نہیں کیے گئے اور تمام تقریبات اور سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔

پی ٹی آئی کو 56 شرائط کے ساتھ فیض آباد میں جلسہ کی اجازت مل گئی

خلاف ورزی پر قانونی کارروائی ہوگی، ضلعی انتظامیہ
اپ ڈیٹ 25 نومبر 2022 11:24am
الیکشن کے لئے دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فوٹو — فائل
الیکشن کے لئے دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ فوٹو — فائل

پاکستان تحریک انصاف اور راولپنڈی ضلعی انتظامیہ میں شرائط طے پاگئیں، پی ٹی آئی کو 56 شرائط کے ساتھ فیض آباد میں جلسہ کی اجازت مل گئی۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیہ کے مطابق شرکاء جلسہ گاہ کے علاوہ کسی حدود میں داخل نہیں ہوں گے اور طے شدہ راستوں کے علاوہ کوئی اورروٹ استعمال نہیں کریں گے۔

شرائط میں کہا گیا ہے کہ علامہ اقبال پارک میں رات کو کسی کارکن کوٹھہرایانہیں جائے گا۔

جلسہ گاہ میں ساؤنڈ ایکٹ کے مطابق ساؤنڈ سسٹم استعمال کرنے کے علاوہ اذان کے وقت ساؤنڈ سسٹم بند کیے جانے کی پابندی بھی لازم قراردی گئی ہے۔

اعلامیہ کے مطابق پی ٹی آئی قیادت اپنے رضارکاروں کوجلسہ گاہ کے داخلی راستوں پرتعینات کرے گی جن کے پاس پاس سیکورٹی جیکٹس اوربیجزموجود ہوںگے۔

جلسہ گاہ میں اسلحہ لانے اورآتش بازی پربھی مکمل پابندی ہوگی جبکہ پولیس اورانتظامیہ تھریٹس الرٹ وقتاً فوقتاً بتاتے رہیں گے۔

اعلامیہ میں طے شدہ شرائط بتاتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ اسٹیج اورشرکاء کے درمیان فاصلہ 80 فٹ سےکم نہیں ہونا چاہیے۔

جلسے میں ریاست مخالف نعرے بازی پرپابندی کے علاوہ اداروں اورعدلیہ مخالف تقاریرپر بھی پابندی ہوگی، کسی سیاسی جماعت کا جھنڈا نذرآتش نہیں کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ اعلامیے میں مزید بتایا گیا ہے کہ جلسہ گاہ کے اطراف وال چاکنگ نہیں کی جائےگی اور پنڈال میں مناسب لائٹنگ کا بندوست کیا جائے گا۔

اعلامیہ کے مطابق خلاف ورزی پرجلسہ انتظامیہ کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

دوسری جانب رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد عمر نے اسلام آباد انتظامیہ پرعمران خان کی زندگی کے لیے خطرات بڑھانے کا الزام عائد کردیا۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے چیئرمین پی ٹی آئی کا ہیلی کاپٹر پریڈ گراؤنڈ میں اتارنے کی اجازت مسترد کرنے پر اپنی ٹویٹ میں تحفظات کااظہارکرنے والے اسد عمرنے اس اقدام کو بلا وجہ کے قراردے دیا۔

انہوں نے لکھا کہ، ”انتظامیہ نے کوئی وجہ نہیں دی کیونکہ کوئی وجہ ہوہی نہیں سکتی.اسلام آباد انتظامیہ جان بوجھ کرعمران خان کی زندگی کے لئے خطرہ بڑھانے کی کوشش کررہی ہے۔“

اس سے قبل راولپنڈی پریڈ گراؤنڈ میں عمران خان کے ہیلی کاپٹر اتارنے کی اجازت کے معاملے پر جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے اجازت کے حوالے سے جاری خط میں کہا گیا تھا کہ پریڈ گراؤنڈ سی ڈی اے کی حدود میں آتا ہے، ہمیں آپ کے ہیلی کاپٹر کے اترنے پر کوئی اعتراض نہیں، لہٰذا اجازت کے لئے سی ڈی اے یا حکومت سے رجوع کریں۔

ایک کہانی۔۔۔ آغاز بھی دُکھی، انجام بھی دُکھی!

'عمران خان عوام کی نبض جانتے ہیں'
شائع 24 نومبر 2022 03:52pm
تصویر بشکریہ: اے ایف پی
تصویر بشکریہ: اے ایف پی

کہانی شروع ہوتی ہے28مارچ کی ایک شام کو۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان پریڈ گراؤنڈ میں عوام کے جمِ غفیر کے سامنے اپنی جیب سے ایک کاغذ لہراکر فرماتے ہیں: ”یہ ہے ایک خط۔“ یعنی یہ ہے میرا نیا بیانیہ۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو مروڑنے کی کوشش باہر سے کی جارہی ہے اور بیرونِ ملک سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کیا جارہا ہے۔

عمران خان عوام کی نبض کو جانتے ہیں۔ کس وقت کیا پتا پھینکنا ہے، ان سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ لہٰذا لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اس سازش کا انھیں کئی ماہ سے علم تھاکہ یہ سازش ہو رہی ہے اور ”یہ جو آج اکٹھے ہوگئے ہیں، یہ جو آج قاتل اور مقتول اکٹھے ہوگئے، جنھوں نے اکٹھا کیا ہے، ان کا بھی ہمیں پتا ہے۔“ اس وقت کے وزیراعظم نے کہا کہ حکوم ت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پیسہ باہر سے آیا ہے۔ لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں، زیادہ تر انجانے میں لیکن کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ چونکہ گیم ابھی جاری تھی، لہٰذا انہوں نے ایک کھڑکی ساتھ ہی کھولتے ہوئے ”منحرف“ اراکین کو یہ بھی کہہ دیا کہ ہمارے خلاف جو ووٹ دینے جائے گا، میں ان سے یہ کہوں گا کہ یہ نہ کرنا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ”میرے پاس جو خط ہے یہ ثبوت ہے، اور اگر کوئی بھی شک کر رہا ہے تو میں آپ کو دعوت دوں گا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔“

عمران خان کا کہنا تھا کہ بیرونی سازش کی ایسی بہت سی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی اور قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا ہوا شخص کس سے ملاقاتیں کر رہا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردارکس کے کہنے پر چل رہے ہیں؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت جاتی ہے جائے، جان جاتی ہے جائے، ان کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔

عمران خان نے زمین تیارکی۔ بہت سے پریشان ہوئے کہ واقعی کہیں کوئی سازش ہورہی ہے؟ لیکن یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سازش کرنے والا کون تھا اور سازش کے کردار کون ہیں؟ پھر ایک اور شام کو انہوں نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کا مژدہ سنایا۔ 31مارچ کی شام قوم سے تقریباً 50 منٹ طویل خطاب کیا جس میں انہوں نے اپنے خلاف مبینہ طور پر بیرون ملک تیار ہونے والی سازشوں کا ذکر کیا اور اس دوران وہ ”غلطی“ سے امریکہ کا نام بھی لے بیٹھے۔ اس سے پہلے باضابطہ طور پر کسی حکومتی عہدے دار نے واضح طور پر امریکہ کا نام نہیں لیا تھا۔

اکتیس مارچ (خط موصول ہونے کے تین ہفتے بعد) کو ہی وزیر اعظم کے خطاب سے کچھ گھنٹے قبل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں یہ معاملہ زیر بحث آیا جہاں وزیر اعظم، مسلح افواج کے سربراہان سمیت اہم حکومتی عہدے دار موجود تھے اور اس ملاقات کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے میں بھی ”دھمکی آمیز مراسلہ“ بھیجنے والے ملک کا نام نہیں لیا گیا تھا۔ تاہم اس اعلامیے میں بھی نہ ”دھمکی“ کا ذکر کیا گیا اور نہ ہی کسی ”سازش“ کا کہا گیا، البتہ یہ ضرور بتایا گیا کہ پاکستان سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس پر اپنا احتجاج درج کرائے گا، تاہم اس کے علاوہ اعلامیہ میں کسی غیر ملکی فنڈنگ یا ملک میں عدم استحکام کرنے کے منصوبے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔

اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے اسے بھی اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہا، لیکن یہ دعویٰ اس وقت مزید مشکوک ہوگیا جب 14 اپریل 2022ء کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے یہ انکشاف کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیے میں سازش کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ”اعلامیے کے اندر بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں تھا، آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا سازش کا لفظ ہے اس اعلامیے میں، میرا نہیں خیال۔“

اسی خط سے کھیلتے کھیلتے سابق وزیر اعظم تقریباً 50 جلسے کر جاتے ہیں اور اپنی تمام تر توانیاں اسی بیانیے کو زبان زدعام کرنے میں صرف کرتے نظر آئے۔ جس میں ایک عدد لانگ مارچ بھی شامل تھا۔

ایک طرف عمران خان یہ بیانیہ مضبوط کرتے رہے، جبکہ دوسری طرف وہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی معمول پر لانے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔ 12ستمبر کوعمران خان اور رابن رافیل کی ملاقات کی خبروں کے بعد عمران خان نے خود اس ملاقات کی تصدیق کی۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اْن کا کہنا تھا کہ رابن رافیل کو وہ پرانا جانتے ہیں، اور وہ یہ کہ رابن رافیل اِس وقت امریکی حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ تھنک ٹینکس کے ساتھ ہیں۔

یہ ملاقات اس تناظر میں اہم سمجھی جا رہی تھی کیونکہ عمران خان کی جانب سے ان کی حکومت کے خاتمے پر ایک بیرونی سازش کو ذمہ دار قرار دیا گیا جس میں ان کے بقول اپوزیشن جماعتیں شریک کار بنیں جس کے بعد سے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے چند رہنما امریکا پر مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر اگلے روز جب عمران خان نے ایک انٹرویو کے دوران یہ کہا کہ ”باہمی تعلقات میں مسئلے آتے ہیں، وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ کٹی (ناراضگی) ہو جاتی ہے کسی سے۔“

اس سازش بیانیے کی قلعی اس دن بھی کھل گئی جب 28ستمبر کو پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک نئی آڈیو سامنے آئی جس میں عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کو امریکی ”دھمکی“ سے متعلق مراسلے کے معاملے پر گفتگو کرتے سنا گیا۔ اس آڈیو کا آغاز عمران خان کی آواز سے ہوتا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ ”اچھا اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، نام نہیں لینا امریکا کا۔۔۔ بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر۔“

دو اکتوبر کو عمران خان نے ٹی وی چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سائفر کے غائب ہونے سے متعلق سوال پر جواب دیا کہ ”اگر تو وہ ڈی کلاسیفائی ہے، تو پھر اس کا چھاپہ مار کر کیا کرنا ہے۔ ایک میرے پاس تھا اور وہ غائب ہو گیا، کہیں ہو گیا، مجھے نہیں پتا۔“

لیکن حیرت انگیز طورپر 13 نومبر عمران خان نے خود اپنی کہانی کا ”دُکھی اختتام“ اس وقت کردیا جب انہوں نے کہا کہ اقتدار سے ہٹائے جانے کے لیے اب میں امریکی انتظامیہ کو مزید مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ عمران خان نے یہ باتیں برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکا اور پاکستان کے درمیان باوقار تعلقات چاہتے ہیں۔مبینہ سازش میں امریکا کے کردار کے حوالے سے عمران خان نے تبصرہ کیا کہ ”جہاں تک میرا خیال ہے یہ معاملہ اب ختم ہوچکا ہے، میں آگے بڑھ چکا ہوں۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے جہاں تک پیغام پہنچانا تھا، وہاں تک پہنچ گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی تردید آئی کہ ایسا کچھ نہیں۔ لیکن ”فنانشل ٹائمز“ نے اس کی ویڈیو جاری کرکے حقیقت آشکارکردی کہ جو اخبار نے دعویٰ کیا ہے عمران خان نے وہی کچھ کہا ہے۔

یہ تھا اس کہانی کا اختتام۔ آغاز بھی دُکھی اور اختتام بھی دُکھی۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کیا ”مارکیٹ“ میں اب کوئی نئی کہانی لاتے ہیں یا پھر اسی کہانی کو نیا موڑ دے کر کوئی نیا سیزن شروع کرتے ہیں۔ یقینا یہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔