Aaj News

جمعہ, مئ 17, 2024  
08 Dhul-Qadah 1445  
Live
Politics April 14 2023

سپریم کورٹ کے الیکشن فنڈز سے متعلق حکم سے نظام درہم برہم ہو جائیگا، جسٹس شائق

سپریم کورٹ آئین کے تحت کسی بھی ادارے کو حکم دے سکتی ہے، حامد خان
شائع 14 اپريل 2023 09:50pm
ماہر قانون جسٹس شائق عثمانی۔ فوٹو — فائل
ماہر قانون جسٹس شائق عثمانی۔ فوٹو — فائل
New is not old but what the army chief said?| Rubaroo with Shaukat Piracha | Rubaroo

ماہر قانون جسٹس شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا، عدالت عظمیٰ کے اسٹیٹ کو الیکشن کے لئے فنڈز جاری کرنے کے حکم سے نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حدود سے کچھ تجاوز کیا ہے، اسٹیٹ بینک کو فنڈز دینے کے فیصلے سے نظام درہم برہم ہوجائے گا، یہ عدالت کے وقار کے بھی خلاف ہے۔

جسٹس شائق عثمانی کا کہنا تھا کہ 1997 کے علاوہ پہلی بار میں نے ججز کا آپس میں اختلاف دیکھا ہے، اس سے عوام کا اعتماد عدلیہ سے اُٹھ جائے گا، اب تو ججز کے درمیان ہاتھا پائی تک کی باتیں ہونے لگی ہیں، یہ ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔

سپریم کورٹ آئین کے تحت کسی بھی ادارے کو حکم دے سکتی ہے، حامد خان

اس موقع پر رہنما پی ٹی آئی اور ماہر قانون حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کے تحت کسی بھی ادارے کو حکم دے سکتی ہے، عدالت عظمیٰ کو اسٹیٹ بینک کو الیکشن کو الیکشن کے لئے رقم مہیا کرنے کے لئے حکم دینے کا اختیار ہے۔

حامد خان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو ججز کے درمیان اختلافات کو بڑھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، موجودہ حکومت ججز کے مابین فاصلوں کو بڑھانا چاہتی ہے جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔

انتخابات میں سکیورٹی کی فراہمی پر ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ایگزیکٹیو کا حصہ ہیں اور آئینی طور پر وزیراعظم بطور چیف ایگزیکٹیو کا کام بذریعہ پولیس، رینجرز اور فوج سکیورٹی مہیا کرنا ہے، الیکشن کی تاریخ آچکی ہے لہٰذا وزیراعطم اور کابینہ کی سکیورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے۔

اس پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی یا ترمیم کرنے کا اختیار ہی نہیں، حسن رؤف

پروگرام روبرو میں بات کرتے ہوئے عمران خان کے فوکل پرسن اور رہنما تحریک انصاف رؤف حسن نے کہا کہ حکومت 90 روز الیکشن نہیں کروانا چاہتی ہے جس کے کے لئے قومی اسمبلی سے مختلف قراردادیں منظور کی جا رہی ہیں، یہ غیر آئینی اقدامات ہیں۔

رؤف حسن نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کب تقسیم نہیں رہی، چند جماعتیں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے پر تلی ہوئی ہیں، اس پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی یا ترمیم کرنے کا اختیار ہی نہیں جب کہ 8 رکنی بینچ کا فیصلہ سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ ہے۔

اگر بندے اپنے ادارے میں رہیں تو ملک اچھے طریقے سے چل سکتا ہے، فیصل کنڈی

آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں بات کرتے ہوئے وزیر مملکت اور رہنما پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ آج ہم اس موڑ پر کھڑے ہیں کہ ملک کس کو چلانا ہے، اگر بندے اپنے ادارے میں رہیں تو ملک اچھے طریقے سے چل سکتا ہے، بطور پارٹی ہم کہتے ہیں الیکشن اپنے وقت پر ہونے چاہیے۔

رہنما پی پی کا کہنا تھا کہ ملک میں ججز کے درمیان ہاتھا پائی کی خبریں سوشل میڈیا پر چل رہی تھی جس کی تردید عدالت خود کرچکا ہے لیکن ایسی چیزیں نہیں ہونی چاہئے، البتہ اگر ملک میں عدل و انصاف ہوتا تو آج ہم یہاں تک نہیں پہنچتے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ادارے نے اپنا احترام کرانا ہے، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کا اپنا اپنا کردار ہے جس کے لئے ہمارے پاس آئین بھی موجود ہے۔

جنرل (ر) باجوہ نے کہا تھا 5 منٹ میں مارشل لاء لگا سکتا ہوں، انہیں کہا بسم اللہ کریں، آصف زرداری

اکتوبر سے پہلے بھی الیکشن ہوجائیں تو ہمیں مسئلہ نہیں، سابق صدر
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 10:35pm
سابق صدر آصف علی زرداری۔ فوٹو — فائل
سابق صدر آصف علی زرداری۔ فوٹو — فائل

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں معلوم تھا عمران خان اپنا چیف لاکر 2035 تک رہنے کا پلان بناکر آرہے ہیں جسے ہم نے عدم اعتماد کے ذریعے ناکام بنایا۔

نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں بات کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ میں نے ججز کی تنخواہیں بڑھائیں، بجلی، گاڑی، نوکر سب فری دیئے، یہ سب اس لیے کیا تاکہ اچھے فیصلے ہوں گے، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ اجارہ داری ہوگی۔

انتخابات سے متعلق سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ میرا نہیں خیال الیکشن اکتوبر سے آگے جائیں گے اور نہ ہی یہ ممکن ہے، فانشنل ایمرجنسی بھی نہیں لگ سکتی، یہ ایک چھوٹی سوچ ہے، اکتوبر سے پہلے بھی الیکشن ہوجائیں تو ہمیں مسئلہ نہیں، البتہ آپ کو معلوم نہیں ہمارے مخالفیں کے کتنے بھیانک ارادے ہیں۔

جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ سے متعلق آصف زرداری نے کہا کہ جنرل (ر) باجوہ سابق آرمی چیف نے مجھے بلایا اور کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں عمران خان سے کہہ سکتا ہوں وہ استعفیٰ دے گا اور آپ الیکشن میں چلے جائیں جس پر میں نے اور مولانا فضل الرحمان نے منع کیا۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ بلاول نے بات کی کہا آپ نے صرف ایک عمران کو نکالا ہے، اس کے حواری ابھی موجود ہیں جو ابھی بھی گیم کھیل رہے ہیں، ہمیں معلوم تھا یہ اپنا چیف لاکر 2035 تک رہنے کا پلان بناکر آرہے ہیں، ہم عمران خان کا یہ پلان ناکام بنانے کے لئے عدم اعتماد لیکر آئے۔

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) باجوہ ہمیں باڈی لینگویج سے کچھ اشارے دے رہے تھے کہ میں 5 منٹ میں مارشل لا لگا سکتا ہوں، شیر پر چڑھنا آسان ہے اترنا مشکل ہے، ہم نے کہا کہ بسم اللہ کریں، ہمیں بھی چھوڑو ہم کھیتی باڑی کریں اور آپ جا کر ملک چلاؤ، پھر جنرل (ر) باجوہ نے یہ بات واپس لی کہ میں ایسا نہیں کرسکتا۔

پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور ماہر قانون اعتزاز احسن سے متعلق سابق صدر نے کہا کہ اعتزاز احسن سی ای سی کے ممبر ہیں، انہیں بولنے کا حق سی ای سی میں ہے، اس سے باہر بولنے کا حق نہیں۔

توشہ خانہ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں نے توشہ خانہ سے بم پروف گاڑی لی، گاڑی اس لیے لی کہ مجھے سکیورٹی خدشات تھے، میں نے تخمینہ لگا کر گاڑی خریدی، میں نے کوئی گھڑی یا زیور نہیں بیچے۔

ملک میں جاری گیس بحران پر بات کرتے ہوئے آصف زرداری نے کہا کہ گیس کا مسئلہ ہر جگہ ہے، ہمارے ہاں بھی سلینڈر سے کھانا بنتا ہے۔

کراچی کی سیاست پر بات کرتے ہوئے سابق صدر صدر نے کہا کہ کوشش کررہا ہوں کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی ایک ساتھ چلیں، خالد مقبول نے کہا تھا کہ کامران ٹیسوری کو گورنر بنائے جانے پر متفق ہیں۔

’مرکزی بینک حکومتی اجازت کے بغیر خود سے کسی ادارے کو پیسہ نہیں دے سکتا‘

وزرات خزانہ کے سابق ترجمان ڈاکٹر نجیب خاقان کی ماہرانہ رائے
شائع 14 اپريل 2023 06:29pm

ماہر معاشی امور اور وزرات خزانہ کے سابق ترجمان ڈاکٹر نجیب خاقان نے کہا ہے کہ مرکزی بینک حکومتی اجازت کے بغیر کسی ادارے کو پیسے جاری نہیں کرسکتا۔

ڈاکٹر نجیب خاقان کا کہنا ہے کہ اگرچہ مرکزی بینک ایک خودمختار ادارہ ہے لیکن وہ حکومتی اجازت کے بغیر پیسے کسی ادارے کو جاری نہیں کر سکتا۔

ماہر معاشی امور اور وزرات خزانہ کے سابق ترجمان کے مطابق اسٹیٹ بینک کے پاس موجود حکومت کا پیسہ ہوتا ہے اسے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ کہا جاتا ہے اور یہ وزیر خزانہ کے دستخط کے بنا جاری نہیں ہو سکتے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں زیرو بوروئنگ کی پالیسی ہے اس لیے اسٹیٹ بینک کسی ادارے کو ادھار بھی جاری نہیں کر سکتا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو پنجاب اسمبلی کے الیکشن کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کے حکم دیا گیا ہے۔

آج سے سیاسی شطرنج کا کھیل شروع ہو جائے گا، شیخ رشید

حکومت نےعدلیہ کے مقابلے پر آکر سول نافرمانی کی بنیاد رکھ دی، سابق وفاقی وزیر
شائع 14 اپريل 2023 02:06pm

سابق وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ حکومت نےعدلیہ کےمقابلےپرآکرسول نافرمانی کی بنیادرکھ دی، آج سے سیاسی شطرنج کا کھیل شروع ہو جائے گا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ایک بار پھر 1997 کو دہرانے کی ناکام سازش کرنے جا رہے ہیں، عدالتی بحران کو سنگین اور گھمبیر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، حکومت کے نااہل بونے نے ملکی معاشی سیاسی اقتصادی عدالتی بنیادیں ہلادی ہیں، حکومت کے فیصلے عدلیہ کی آزادی اور معاملات میں مداخلت کے مترادف ہیں۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ حکومت نے عدلیہ کے مقابلے پر آکر سول نافرمانی کی بنیاد رکھ دی ہے، عدالتی حکم کی نافرمانی حکم عدولی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے، 8 ججز کے فیصلے کو نہ ماننا ملک میں انتشار خلفشار اور فسطائیت کو دعوت دے گا، آئین اور قانون کی بقاء میں ہی ملک کی سلامتی ہے۔

سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ آج سے سیاسی شطرنج کا کھیل شروع ہو جائے گا، حکومت کے سیاسی مہرے مات کھائیں گے اور عدلیہ جیتے گی، عدلیہ آئین قانون کا جھنڈا بلند رکھے گی مداخلت کی اجازت نہیں دے گی۔ نیب منی لانڈرنگ کے کیسز آئینی اور قانونی انجام کو پہنچیں گے اورسیز کو ووٹ کا حق ملے گا غریب کے لیے انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو ہیں، آصف زرداری شہباز شریف کو نااہل کرا کر ہی دم لے گا۔

پرویز الہٰی اور مونس الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی

پرویز الہٰی، مونس الہٰی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا آر او کا فیصلہ کالعدم قرار
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 12:33pm

الیکشن ٹربیونل لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی اور ان کے بیٹے مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔

الیکشن ٹریبیونل لاہور ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الہی کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیل منظور کرلی۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شہرام سرور نے پرویز الہٰی اور مونس الہٰی کی اپیلوں پر سماعت کی۔

ٹربیونل نے پرویز الہٰی اور مونس الہٰی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتے ہوئے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا ریٹرننگ آفیسر (آر او) کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

اپیل میں الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر پی پی 32 گجرات کو فریق بنایا گیا تھا۔

پرویز الہٰی اور مونس الہٰی نے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔

سپریم کورٹ کے 8 ججز کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے 8 ججز کیخلاف ریفرنس دائر کیا
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 11:36am
سپریم کورٹ آف پاکستان
سپریم کورٹ آف پاکستان

چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت سپریم کورٹ کے 8 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا گیا۔

میاں داؤد ایڈووکیٹ نے 8 ججز کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا۔

دائر ریفرنس میں آئین کے آرٹیکل 209 اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی دفعات 3 تا 6 اور 9 کی خلاف ورزی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس میں چیف جسٹس بندیال کے علاوہ 8 ججز جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید کو بطور فریق شامل کیا گیا ہے۔

ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس بندیال نے پارلیمنٹ کے منظورکردہ بل کو سماعت کے لئے مقرر کرکے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، چیف جسٹس نے اپنی سربراہی میں غیرآئینی طور پر 8 رکنی بینچ تشکیل دیا، چیف جسٹس درخواستوں کی سماعت کے لئے بینچ کی خود سربراہی کرکے مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے جبکہ باقی 7 ججز بھی پارلیمنٹ کے بل پر سماعت اور اسے معطل کر کے آئین ، قانون اور کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔

ریفرنس کے متن میں مزید نشاندہی کی گئی ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن کیس میں 17 رکنی فل کورٹ اور اعتزاز احسن کیس میں 12 رکنی بینچ بل کے خلاف حکم امتناعی جاری نہ کرنے کا اصول طے کرچکا ہے لیکن اس کے باوجود کم تعداد کے حامل 8 ججز نے پارلیمنٹ کے بل کے خلاف حکم امتناعی جاری کرکے قانون کی خلاف ورزی کی۔

ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس سمیت 8ججز کو انکوائری کے بعد برطرف کرنے کا حکم دے اور ریفرنس کے حتمی فیصلے تک انہیں فوری کام سے روکا جائے۔

8 ججز کے خلاف ریفرنس کی کاپی جسٹس قاضی فائز عیسی، جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ کو بھجوائی گئی ہے۔

کاپی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھی بھجوائی گئی ہے۔

عمران خان کی تھانہ رمنا میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت منظور

عمران خان خود لاہورہائی کورٹ پیش ہوئے
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 02:27pm

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو تھانہ رمنا میں درج مقدمے میں 26 اپریل تک حفاظتی ضمانت مل گئی۔

لاہو ہائی کورٹ میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے تھانہ رمنا اسلام آباد میں درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی گئی، جس میں مقدمہ مدعی منظور احمد کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان پرغداری سمیت دیگردفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اور ان پر خلاف قانون مقدمہ درج کیا گیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کرے، عدالت متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کے لئے مناسب وقت فراہم کرے۔

عمران خان کی حفاظتی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر کردی گئی اور درخواست پر سماعت جسٹس علی باقر نجفی نے کی۔

عمران خان خود حفاظتی ضمانت کیلئے ہائیکورٹ پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی اپنی رہائش گاہ سے لاہور ہائی کورٹ کیلئے روانہ ہوئے تو ان کے ہمراہ اسپیشل اسکواڈ اور جیمرز والی گاڑی بھی تھی۔

عمران خان کمرہ عدالت میں پہنچے تاہم عدالت نے سماعت 2 بجے تک ملتوی کردی۔

وقفے کے بعد عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان بھی کمرہ عدالت میں پیش ہوگئے۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت میں کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر اتوار کے روز ایک اور ایف آئی آر درج کر دی گئی، اور ایف آئی آر عمران خان کی تقاریرکے الفاظ اکٹھے کر کے درج کی گئی ۔ وکیل نے عدالتی حکم پر ایف آئی آر بھی پڑھ کر سنائی۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت سے عمران خان کی ضمانت میں توسیع کی استدعا کی۔ جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے کلائنٹ متعلقہ عدالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ وکیل سلمان صفدر نے جواب دیا کہ جی اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش ہونا ہے۔ عمران خان نے 18 اپریل کو اسلام آباد جانا ہے حفاظتی ضمانت دیں، عدالت ہمیں عید کے بعد تک حفاظتی ضمانت دے۔

عدالت نے وکیل سلمان صفدر کی ضمانت میں توسیع کی استدعا لاہورہائی کورٹ نے منظور کرلی، اور عمران خان کی حفاظتی ضمانت 26 اپریل تک منظور کرتے ہوئے درخواست پر مزید سماعت ملتوی کردی۔

وزیراعظم سے اٹارنی جنرل کی ملاقات، پنجاب انتخابات سے متعلق مشاورت

پارلیمنٹ جب انکار کر چکی ہے تو فنڈز کیسے دے دیں، اٹارنی جنرل
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 11:32am

وزیراعظم شہباز شریف سے اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان نے ملاقات کی، جس میں پنجاب میں انتخابات اور پارلیمنٹ کے فیصلوں سمیت دیگر اہم قانونی امور پر مشاورت کی گئی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ان چیمبر سماعت سے پہلے اٹارنی جنرل کو مشاورت کیلئےطلب کیا تھا جس پر اٹارنی جنرل وزیراعظم سے ملاقات کے لیے سپریم کورٹ سے فوری وزیراعظم آفس پہنچے۔

وزیراعظم سے اٹارنی جنرل پاکستان نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ان چیمبر سماعت سے قبل وزیراعظم آفس میں ملاقات کی۔

ملاقات میں پنجاب میں الیکشن سمیت اہم قانونی و آٸینی امور پر مشاورت کی گٸی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ جب انکار کر چکی ہے تو فنڈز کیسے دے دیں، پارلیمنٹ نے حکومت کو فنڈز جاری کرنے سے روک دیا ہے، حکومتی مؤقف ان چیمبر سماعت کے دوران پیش کریں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف سے الیکشن فنڈز سے متعلق ان چیمبر سماعت پر مشاورت کے بعد اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

واضح رہے کہ پنجاب میں انتخابات کے لئے فنڈز کے معاملے پر ان چیمبر سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی جس میں چیف جسٹس سمیت بینچ کے 3 ارکان شریک ہوں گے۔

اربوں روپے کرپشن کیس: پرویز الہٰی کو 27 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم

عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی عبوری ضمانت منظور کرلی
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 10:47am
فوٹو۔۔۔۔۔ اے پی پی
فوٹو۔۔۔۔۔ اے پی پی

لاہور کی اینٹی کرپشن عدالت نے اربوں روپے کے کرپشن کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 27 اپریل تک گرفتار کرنے سے روک دیا۔

سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کروڑوں روپے کی کرپشن کے مقدمے میں عبوری ضمانت حاصل کرنے لاہور میں اینٹی کرپشن کی خصوصی عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے چوہدری پرویز الہیٰ کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 27 اپریل تک گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو شامل تفتیش ہونے اور ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا بھی حکم دیا۔

مزید پڑھیں: گجرات پولیس کا چوہدری پرویز الہٰی کی رہائش گاہ پر چھاپہ

یاد رہے کہ اینٹی کرپشن پنجاب نے چوہدری پرویز الہٰی اور دیگر کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج کیا ہے۔

ترجمان اینٹی کرپشن کے مطابق پرویز الہی اور دیگر نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ذریعے غیرملکی کمپنی کی واجب الادا رقم 2 ارب 90 کروڑ کی ادائیگی کے لئے ساڑھے 12 کروڑ روپے رشوت وصول کی۔

پرویز الہٰی، مونس الہٰی اور محمد خان بھٹی کی ڈیل مونس الہٰی کے دوست زبیر خان نے کروائی-

غیرملکی کمپنی کی واجب الادا رقم کے عوض پرویز الہٰی نے ساڑھے 6 کروڑ روپے، مونس الہٰی اور محمد خان بھٹی نے 5 کروڑ جبکہ زبیر خان نے 50 لاکھ روپے لیے۔

سپریم کورٹ کا گورنر اسٹیٹ بینک کو براہ راست الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے کا حکم

سپریم کورٹ نے ان چیمبر سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 07:26pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔ رائٹرز
فوٹو۔۔۔۔۔۔ رائٹرز

سپریم کورٹ آف پاکستان نے گورنر اسٹیٹ بینک کو براہ راست الیکشن کمیشن کو فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

صوبائی انتخابات کیلئے فنڈ کی فراہمی کا کیس، سپریم کورٹ نے ان چیمبر سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا ، تحریری حکمنامہ 9 صفحات پر مبنی ہے۔

حکم نامہ میں لکھا ہے کہ اسٹیٹ بنک کے مطابق 21 ارب روپے پیر تک فراہم کئے جاسکتے ہیں، 18اپریل تک فنڈز فراہمی کے حکم پرعملدرآمد رپورٹ پیش کریں۔ حکومت کے مختلف اکاؤنٹس میں 1 کھرب 40 ارب سے زیادہ فنڈز موجود ہیں۔

حکم نامہ جاری کرنے سے قبل چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات کے لئے فنڈز کی عدم فراہمی کے خلاف ان چیمبر سماعت کانفرنس روم میں کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی کانفرنس روم میں موجود تھے۔ جب کہ اٹارنی جنرل اور سیکرٹری و ڈی جی لا الیکشن کمیشن کے علاوہ وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے حکام بھی چیف جسٹس کے کانفرنس روم میں موجود رہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم، پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم

تینوں ججز نے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے فراہم کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا، سیکرٹری الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبرپختونخو امیں انتخابات پر پیشرفت سے آگاہ کیا، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک حکام فنڈز سے متعلق رپورٹ پیش کی۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے پنجاب انتخابات فنڈز سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

وفاقی حکومت کا ان چیمبر سماعت میں جمع کرایا گیا تحریری مؤقف

اٹارنی جنرل پاکستان نے ججز کو فنڈز کی فراہمی سے متعلق پارلیمنٹ میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کیا۔

وفاقی حکومت کی جانب سپریم کورٹ کی ان چیمبر سماعت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا کہ فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے پیسے جاری کرنے کیلئے ایکٹ آف پارلیمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ کیلئے بل پارلیمان نے مسترد کر دیا، جس کے بعد وفاقی حکومت کے پاس فنڈ جاری کرنے کا اختیار نہیں۔

حکومت کے تحریری جواب میں مؤقف پیش کیا گیا کہ وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک کو فنڈ جاری کرنے کا حکم نہیں دے سکتی، حکومت نے عدالتی احکامات پر اپنی قانونی ذمہ داری پوری کردی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کو پیش کئے گئے حکومتی موقف پر سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ججز نے سماعت کے دوران فنڈ جاری نہ کرنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے واضح کردیا کہ عدالتی حکم پرعمل کرنا پڑے گا۔

سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کے جواب کے بعد گورنراسٹیٹ بینک کو براہ راست الیکشن کمیشن کو فنڈزجاری کرنے کا حکم دے دیا، اور حکم دیا کہ گورنر اسٹیٹ بینک براہ راست الیکشن کمیشن کو فنڈزجاری کریں۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز دینے پر معذوری ظاہر کرنے پر احکامات دیے گئے، جس پر عدالت نے اسٹیٹ بینک کو فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈز سے 21 ارب روپے کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس کے چیمبر میں سماعت ختم ہوئی، تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان چیمبر سماعت کا آرڈرجاری ہوگا۔

ان چیمبرسماعت میں غیرمتعلقہ افراد کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک کے ہمراہ آنے والوں کو باہر بھیج دیا گیا، اسپیشل اورایڈیشنل سیکرٹری کے علاوہ دیگرحکام کو بھی باہر بٹھا دیا گیا، جب کہ الیکشن کمیشن کے اضافی افسران کو بھی کمیٹی روم میں نہیں جانے دیا گیا۔

سپریم کورٹ کا نوٹس

گزشتہ روز چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل، گورنر اسٹیٹ بینک، سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو آج چیمبر میں تفصیلات سمیت طلب کیا تھا۔

عدالتی نوٹس میں کہا گیا کہ بروقت انتخابات نہ کروانا اور اس اہم معاملے پر فنڈز فراہم نہ کرنا آئین کو خطرے میں ڈالنا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک حکومت کے پاس موجود تمام تر پیسوں کی تفصیلات بھی ہمراہ لائیں۔

مزید پڑھیں: کیا پاکستان مارشل لاء کی جانب بڑھ رہا ہے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے پنجاب میں الیکشن کے لئے فنڈز فراہم نہیں کیے، فنڈز کی عدم فراہمی عدالتی احکامات کی حکم عدولی ہے جس کے نتائج قانون میں واضح اور سب کو معلوم ہیں۔

نوٹس میں قرار دیا گیا کہ الیکشن کے لئے فنڈز کی عدم فراہمی توہین عدالت کی کارروائی سے زیادہ اہم ہے۔

عدالت نے گورنر اسٹیٹ بینک کوحکم دیا کہ وہ دستیاب وسائل سے متعلق تمام تفصیلات ہمراہ لائیں جبکہ سیکرٹری خزانہ کو بھی تمام ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت کی ہے۔

مزید پڑھیں: مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک جج کوسزا دوں، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

نوٹس میں تمام افسران سے سوال کیا گیا کہ بتایا جائے کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے سیکرٹری الیکشن کمیشن کو پنجاب اور کے پی انتخابات سے متعلق تمام ریکارڈ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا ہے.

نوٹس کے مطابق عدالتی حکم عدولی کرنے اور اس پر اکسانے والوں کے خلاف کارروئی ہوسکتی ہے، بروقت انتخابات نہ کروانا آئین کو خطرے میں ڈالنا ہے، انتخابات جیسے اہم ترین معاملے پر فنڈ جاری نہ کرنا فوری توجہ کا طلب گار ہے، عدالتی احکامات پر من و عن عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 12 اپریل کو الیکشن کمیشن کی جانب سے فنڈز کی عدم فراہمی پر اٹارنی جنرل، گورنراسٹیٹ بینک، سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو اپنے حکم میں پنجاب میں انتخابات کے لئے 14 مئی کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور اداروں کو الیکشن کمیشن کی مالی و دیگر لحاظ سے معاونت کی ہدایت کی تھی۔

سپریم کورٹ نے تمام اداروں کو 10 اپریل تک اپنی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا تھا تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 11 اپریل کو اپنا جواب جمع کرایا، جس میں بتایا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈزفراہم کئے گئے اور نہ ہی سیکیورٹی سے متعلق معاملات طے پاسکے ہیں ۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان آج قوم سے اہم خطاب کریں گے

ملک کو بچانے کا فوری اور واحد راستہ شفاف الیکشن ہے، مسرت جمشید چیمہ
اپ ڈیٹ 14 اپريل 2023 10:08am
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ رائٹرز
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ رائٹرز

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان آج رات ساڑھے 9 بجے قوم سے اہم خطاب کریں گے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹویٹ میں پی ٹی آی رہنما مست جمشید چیمہ نے بتاہا کہ عمران خان آج رات ساڑھے 9 بجے قوم سے اہم خطاب کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت شدید آئینی بحران ہے اور حکومت ملک کو ارادتاً لاقانونیت کی طرف دھکیل رہی ہے، اس ملک کو بچانے کا فوری اور واحد راستہ شفاف الیکشن ہے۔

مسرت جمشید چیمہ نے اپنے ٹویٹ میں مزید کہا کہ ہم عوام کا بنیادی حق مانگتے ہیں لیکن سزا کے طور پر ہمیں اغواء کرلیا جاتا ہے، یہ سلسلہ اب رکنا چاہیئے اور عوام کے حقوق بحال ہونے چاہئیں۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ وفاق پر حملہ، پارلیمنٹ کے اختیار کا دفاع کرینگے، حکومتی اتحاد

قانون ابھی بنا اور نہ نافذ ہوا جسے متنازع اور یک طرفہ بینچ بنا کر جنم لینے سے ہی روک دیا گیا، حکومتی اعلامیہ
اپ ڈیٹ 13 اپريل 2023 10:57pm
فوٹو — اے پی پی/  فائل
فوٹو — اے پی پی/ فائل

حکمران جماعتوں نے عدالت عظمیٰ کے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 پر تاحکم ثانی عمل روکنے کا حکم مسترد کر دیا ہے۔

حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کے فیصلے پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ قانون ابھی بنا بھی نہیں، نافذ بھی نہیں ہوا لیکن ایک متنازعہ اور یک طرفہ بینچ بنا کر اس کو جنم لینے سے ہی روک دیاگیا ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ محض ایک اندازے اور تصور کی بنیاد پر یہ کام کیا گیا جو نہ صرف مروجہ قانونی طریقہ کار ہی نہیں منطق کے بھی خلاف ہے، یہ مفادات کے ٹکراؤ کی کھلی اور سنگین ترین مثال ہے، یہ عدل و انصاف اور سپریم کورٹ کی ساکھ کا قتل ہے۔

حکمران اتحاد کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ نہیں،”ون میں شو“ کا شاخسانہ ہے جسے عدالتی تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر جگہ ملے گی، یہ اقدام خلاف آئین اور پارلیمنٹ کا اختیار سلب کرنا ہے۔

حکومتی اتحاد نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ وفاقِ پاکستان پر حملہ اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججوں پر بھی عدم اعتماد ہے جن کو ازخود کارروائی کے عدالتی اختیار اور منصفانہ وشفاف طریقے سے بینچوں کی تشکیل کی خاطر تین رکنی کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا جو نہایت افسوسناک ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ حکمران جماعتیں اس عدالتی ناانصافی کو نامنظور کرتے ہوئے اس کی بھرپور مزاحمت کریں گی، پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلوں کے تحفظات بھی درست ثابت ہوئے۔

حکمران جماعتوں کا کہنا ہے کہ امید کرتے ہیں پاکستان کی وکلاء برادری آئین، قانون اور عدل کے ساتھ ہونے والے اس سنگین مذاق کا نوٹس لے گی اور عدل و انصاف کے زریں اصولوں کی پاسداری وپاسبانی کے لئے آواز بلند کرے گی۔

بیان میں حکومت نے کہا کہ حکمران جماعتیں نظام عدل میں عدل لانے کے لئے حکمت عملی تیار کریں گی اور مشاورت سے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کریں گی تاکہ ملک و قوم کو بحران سے نجات دلائی جائے اور قومی مفادات کا تحفظ یقینی ہو جن میں اولین معاشی بحالی ہے جب کہ یہ عہد کرتے ہیں کہ عوام کی نمائیندہ پارلیمنٹ اور اس کے آئینی اختیار کا تحفظ اور دفاع کیا جائے گا۔

’حکومت کو عدالتی فیصلہ پسند ہو یا نہیں، عمل درآمد ہونا ہے‘

'آئین پاکستان کا آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ کوئی بھی قانون یا قانون کا حصہ جو آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق کی کسی شق سے متصادم ہو وہ قابل منسوخی ہوگا۔'
شائع 13 اپريل 2023 09:11pm
Supreme court stops the implementation of the court reforms Bill!!!| Faisla Aap Ka with Asma Shirazi

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج اور ماہر قانون شاہ خاور کا سپریم کورٹ کی جانب سے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روکنے کے فیصلے پر کہنا ہے کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ، آئین نے سب کی حدود مقرر کی ہوئی ہیں۔ مقننہ یعنی پارلیمنٹ آئین و قوانین بناتا ہے اور ان میں ترمیم بھی ان کا مینڈیٹ ہے۔ اس کے بعد عدلیہ نے اس پر عمل کرنا ہے اور انتظامیہ نے اس پر عملدرآمد کرانا ہے۔ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا یہ اس کا حق ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ خاور نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد بل پر صدر نے دستخط کرنا ہوتے ہیں، صدر نے دستخط نہ کئے تو 10 دن بعد قانون بن جاتا ہے، اس بعد دوسرا اسٹیج آتا ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ کوئی بھی قانون یا قانون کا حصہ جو آئین میں دئے گئے بنیادی حقوق کی کسی شق سے متصادم ہو وہ قابل منسوخی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ مقننہ قانون سازی کرسکتا ہے، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آرٹیکل 8 کے تحت اس کا جوڈیشل ریویو کرسکتا ہے، لیکن اس سے پہلے ایکٹ بننا ضروری ہے، ایکٹ بن جائے تو اسی دن کوئی بھی چیلنج کرسکتا ہے۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق سینیٹر اور پاکستان پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ازخود نوٹس کافی عرصے سے متنازع ہوتے رہے ہیں، اور کافی عرصے سے اتفاق رائے رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما احمد اویس نے دورانِ بحث کہا کہ ملک میں نان ایشو کو ایشو بنا دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آتے ہی بحث شروع ہوگئی، سپریم کورٹ کا کام ہے فیصلہ دینا، اب فیصلہ غلط دیا یا صحیح، فیصلہ آنے پر عمل درآمد ہونا چاہئے تھا۔

احمداویس نے کہا کہ 13اپریل کے الیکشن کے فیصلے سے قبل بھی بینچ نے کہا تھا کہ بیٹھ کر بات کرلیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ مسئلہ بیٹھ کر ہی حل ہوتا لیکن حکمران جس راستے پر چل رہے ہیں جو خطرناک ہوتا جارہا ہے، پاکستان کو بچانے کیلئے سب کو متحد ہوجانا چاہئے، متحد نہ ہوئے تو صورتحال مزید خطرناک ہوجائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں شاہ خاور کا کہنا تھا کہ حکومت کو عدالتی فیصلہ پسند ہو یا نہیں، عمل درآمد ہونا ہے، حکومت چار تین یا تین دو کے عدالتی فیصلے کو ریویو میں لے جائے۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روک دیا

بل پر عبوری حکم کے ذریعے عملدرآمد روکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، حکم نامہ
شائع 13 اپريل 2023 07:33pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ نےعدالتی اصلاحاتی بل عملدرآمد سے پہلے روک دیا، آٹھ رکنی فل بینچ نے عدالتی اصلاحاتی بل روکنے کا حکم جاری کردیا۔

عدال عظمیٰ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی جس کے بعد حکم نامہ جاری کیا گیا۔

عدالتی اصلاحاتی بل کے خلاف درخواستوں کی آج کی سماعت کا حکم نامہ 8 صفحات پر مشتمل ہے جسے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے تحریر کیا ہے۔

عدالتِ عظمیٰ نے جاری فیصلے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، مسلم لیگ (ق) سمیت دیگراتحادی جماعتوں کو نوٹسز جاری کردئے۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف 3 درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کی گئیں، ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، بل قانون کا حصہ بنتے ہی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت شروع ہوجائے گی، بل پر عبوری حکم کے ذریعے عملدرآمد روکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس دوران عبوری حکم نامہ جاری کرنا ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ صدر دستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں یہ تا حکم ثانی نافذ العمل نہیں ہو گا۔

جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کسی قانون کو معطل نہیں کر سکتی، بادی النظر میں بل کے ذریعے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت دو مئی کو ہوگی۔ حکم امتناعی کا اجرا ناقابل تلافی خطرے سے بچنے کیلئے ضروری ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کیلئے متفکر ہے، اس ضمن میں مفاد عامہ اور بنیادی انسانی حقوق کیلئے عدالت کی مداخلت درکار ہے، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلاء کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں۔

سماعت کا احوال

13 اپریل بروز جمعرات سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جائزہ لینا ہوگا اس معاملے میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل، سیاسی جماعتوں اور فریقین سمیت پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو بھی قانونی معاونت کے لئے نوٹس جاری کرنے کے ہدایت دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بنچ میں شامل ہیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف 4 درخواستیں ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم اور دیگر نے دائر کی ہیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر سماعت کے موقع پر پاکستان تحریکِ انصاف کے حامی وکلاء عدالتِ عظمیٰ کے باہر جمع ہوئے۔

اس موقع پر وکلاء کی جانب سے حکومت مخالف اور عدلیہ کے حق میں نعرے بلند کئے گئے، پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی بھی وکلاء کے ساتھ موجود تھے۔

درخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کو انتخابات نہ کروانے پر از خود نوٹس لینا پڑا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ تین اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے۔ عدالت اور ججز پر ذاتی تنقید کی گئی۔ حکومتی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمے دار ہیں۔

وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا۔ صدر مملکت نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی کو واپس بھیجا۔ سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 دن میں بل قانون بن جائے گا ۔ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے۔ بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں۔ بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے۔

وکیل نے کہا کہ صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا۔ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں۔ چیف جسٹس کی تعیناتی ہی سے سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے۔ چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس کا دفتر 2 سینئر ججز کے ساتھ کیسے شیئر کیا جاسکتا ہے۔ عدلیہ کی آزادی پر سپریم کورٹ کئی فیصلے دے چکی ہے۔ ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ بل پاس ہوجائے تو عدالت اسکا جائزہ لے سکتی ۔ عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے لیے بااختیار اور تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ آپ کے مطابق پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے۔ صدر کا عہدہ صرف رسمی نوعیت کا نہیں ہے۔ صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے۔ عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التوا قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی، اس لیے یہ مداخلت تصور نہیں ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حسبہ بل کے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے منطور شدہ بل کا جائزہ لیا۔ حسبہ بل کیس ناقابل سماعت ہونے کے اعتراضات سپریم کورٹ نے مسترد کیے۔ سپریم کورٹ نے حسبہ بل کو غیر آئینی قرار دیا۔حسبہ بل صدارتی ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ آیا تھا۔ موجودہ کیس آرٹیکل 184/3 کا ہے جس میں عدالت زیادہ بااختیار ہے۔

وکیل نے دلائل م یں کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں سپریم کورٹ شادی ہال تک گرانے کا حکم دے چکی ہے۔ عدالت کے تمام احکامات بنیادی حقوق کے پیرائے میں تھے۔ کیا عدلیہ کی آزادی عوام کا بنیادی حق نہیں ہے؟۔ مجوزہ قانون کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ آئین 184/3 میں اپیل نہیں نظرثانی کا حق دیتا ہے۔ سپریم کورٹ کا ایک جج دوسرے جج کے خلاف اپیل نہیں سن سکتا۔ کئی مرتبہ ہم وکلا بھی 184/3 کا شکار ہوئے ہیں۔ عام مقدمات میں نظرثانی کیس 5 منٹ بھی نہیں چلتا ۔ کچھ مقدمات میں نظر ثانی مقدمات کئی ماہ چلتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ عدلیہ کے اندرونی معاملے کو ریگولیٹ کرسکتی ہے؟۔

امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت فیصلے تک مجوزہ ایکٹ کو قانون بننے سے روکے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ حسبہ بل ریفرنس کی صورت میں آیا تھا۔ حسبہ بل میں گورنر کو بل پر دستخط سے روکا گیا تھا ۔ وکیل نے استدعا کی کہ وزارت قانون کو فیصلے تک مجوزہ ایکٹ بطور قانون نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے۔

وکیل نے کہا کہ کوئی مقدمہ 10 رکنی بینچ سنے تو اپیل کیسے دائر ہوسکتی ہے؟ کیا سینئر ججز کے فیصلے کے خلاف جونیئر ججز اپیل سن سکتے ہیں؟ تمام ججز برابر ہوتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کیس میں ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں تھا۔ سینئر ترین ججز ریفرنس پر سماعت کررہے تھے۔ موجودہ کیس میں بل کی منظوری سے پہلے کے مراحل کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں عدالت سے کیا چاہتے ہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر غیر آئینی قرار دیا جائے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جلد حکم جاری کیا جائے گا۔ عدالت نے وفاقی حکومت ،اٹارنی جنرل ،سیاسی جماعتوں، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کو نوٹس جاری کردیے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کیا آزادی اہم معاملہ ہے ۔ پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے ۔ کیس کو جلد دوبارہ مقرر کیا جائے گا ۔ جائزہ لینا ہے کہ اس معاملے میں آئینی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ ججز کی دستیابی کو مد نظر رکھ کر جلد سماعت کے لیے مقرر کریں گے۔

واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں 8 رکنی لارجر بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں جب کہ حالیہ دنوں میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان لارجر بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔

سپریم کورٹ میں مجوزہ قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیخلاف 2 آئینی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جو چوہدری غلام حسین اور راجا عامر خان نامی شہریوں نے ایڈووکیٹ طارق رحیم اور اظہر صدیق کی وساطت سے دائر کیں اور جن میں وفاق، وزارت قانون، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور صدر عارف علوی کے پرنسپل سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجوزہ سپریم کورٹ پریکٹس پروسیجر بل بد نیتی پر مبنی ہے، مجوزہ بل آئین کے ساتھ فراڈ ہے۔ درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ مجوزہ بل کو غیر آئینی غیر قانونی قرا دے کر کالعدم کیا جائے، آئینی درخواست پر فیصلہ ہونے تک مجوزہ قانون کو معطل کیا جائے،صدر مملکت کو مجوزہ بل پر دستخط کرنے سے روکا جائے۔