Aaj News

بدھ, مئ 08, 2024  
01 Dhul-Qadah 1445  

دہلی میں 150 سال پہلے سنگترے کی چوری بھی بڑا جرم تھا، قدیم ایف آئی آرز سامنے آگئیں

تحریر اردو میں ہے، سگار، پاجامے جیسی چیزوں کی چوری پر مقدمے درج ہوتے تھے
اپ ڈیٹ 10 جولائ 2023 01:19pm
1860-1900 کے درمیان دہلی میں درج تقریباً 30 پولیس شکایات دوبارہ منظر عام پر آئی ہیں (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)
1860-1900 کے درمیان دہلی میں درج تقریباً 30 پولیس شکایات دوبارہ منظر عام پر آئی ہیں (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)

جنوری 1876 کی ایک سرد رات دو تھکے ہوئے مسافروں نے دہلی کی سبزی منڈی میں محمد خان کے گھر پر دستک دی اور پوچھا کہ کیا وہ رات گزار سکتے ہیں۔

محمد خان نے مہربان رویہ اپناتے ہوئے مہمانوں کو اپنے کمرے میں سونے کی اجازت دیدی۔

لیکن اگلی صبح، وہ آدمی غائب ہو چکے تھے، محمد خان کی وہ چارپائیاں بھی غائب تھیں جو اس نے ان نامعلوم اشخاص کو آرام کرنے کے لیے فراہم کی تھیں۔

محمد خان کو احساس ہوا کہ انہیں لوٹ لیا گیا تھا۔

راجندر کالکل نے ان تمام مقدمات کے کارٹون بنائے ہیں۔

 محمد خان نے 1876 میں تین افراد کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)
محمد خان نے 1876 میں تین افراد کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)

اس واقعے کو تقریباً 150 سال گزر چکے ہیں، اور محمد خان کے لُٹنے کی کہانی اب دہلی میں رپورٹ ہونے والے ابتدائی جرائم کی فہرست میں شامل ہے، جن کے ریکارڈ گزشتہ ماہ سٹی پولیس کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے تھے۔

”اینٹیک ایف آئی آرز“ میں 1861 سے 1900 کی دہائی کے اوائل میں شہر کے پانچ اہم پولیس اسٹیشنز سبزی منڈی، مہرولی، کوتوالی، صدر بازار اور نانگلوئی میں درج کیے گئے اسی طرح کے تقریباً 29 دیگر مقدمات کی تفصیلات درج ہیں۔

محمد خان کے کیس میں، پولیس نے ان افراد کو پکڑا اور چوری کے الزام میں تین ماہ کیلئے جیل بھیج دیا تھا۔

یہ ایف آئی آرز اصل میں سخت اردو شکستہ رسم الخط میں درج کی گئی تھیں، جن میں عربی اور فارسی کے الفاظ بھی استعمال ہوئے تھے، ان ایف آئی آرز کو مرتب اور ان کا ترجمہ ایک ٹیم نے کیا جس کی قیادت دہلی پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر راجندر سنگھ کالکل نے کی تھی۔

راجندر کالکل نے بی بی سی کو بتایا کہ ریکارڈز نے ایک ایسے شہر میں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں دلکش بصیرت پیش کی جو فتح اور تبدیلی کی لہروں سے بار بار گزرتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا، یہ ’فائلیں ماضی کے ساتھ ساتھ حال کی بھی کھڑکی ہیں‘۔

زیادہ تر شکایات میں سنترے، بیڈ شیٹس اور آئس کریم چوری جیسے چھوٹے چھوٹے جرائم شامل ہیں اور ان میں ہلکا سا مزاحیہ پن ہے۔

مثال کے طور پر گھات لگائے بیٹھے ایک گروہ نے چرواہے کو تھپڑ مار کر اس کی 110 بکریاں لوٹ لیں۔

ایک بدنصیب چور جو بیڈ شیٹ چوری کرنے کے بعد ”40 قدم کے فاصلے پر“ پکڑا گیا۔

اور بارود کے تھیلوں کے محافظ درشن کا افسوسناک واقعہ، جسے غنڈوں نے مار مار کر لال نیلا کردیا اور اس سے لحاف اور جوتوں کی جوڑی میں سے صرف ایک جوتا چھین کر چھین کر بھاگ گئے۔

 راجندر کالکل کا بنایا گیا کارٹون جس میں واقعے کی شبیہ پیش کی گئی ہے (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)
راجندر کالکل کا بنایا گیا کارٹون جس میں واقعے کی شبیہ پیش کی گئی ہے (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)

آرٹسٹ اور مؤرخ محمود فاروقی کا کہنا ہے کہ اس وقت سنگین جرائم کے رونما نہ ہونے کی ایک ممکنہ وجہ یہ تھی کہ لوگ انگریزوں سے شدید خوفزدہ ہو گئے تھے، جنہوں نے بغاوت کے بعد کے سالوں میں بھی آہنی ہاتھوں کی حکمرانی جاری رکھی۔

مردوں، عورتوں اور بچوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔ بہت سے لوگوں کو ہمیشہ کے لیے دہلی چھوڑ کر آس پاس کے دیہی علاقوں میں جانے پر مجبور کیا گیا، جہاں انہوں نے بقیہ سال انتہائی غربت میں گزارے۔ اور ان میں سے چند، جو شہر کی فصیلوں کے اندر رہنے میں کامیاب ہو گئے، انہیں گولی مار دیے جانے یا پھانسی کے تختے پر لٹکائے جانے کے مسلسل خطرے میں رہنا پڑا۔

محمود فاروقی نے کہا کہ ’یہ قتل و غارت کا دور تھا۔ لوگوں کو اس قدر دہشت اور وحشت زدہ بنا دیا گیا کہ وہ برسوں تک اس کا صدمہ برداشت کرتے رہے۔‘

فاروقی مزید کہتے ہیں کہ کولکتہ (سابقہ کلکتہ) جیسے دوسرے شہروں کے برعکس جہاں جدید پولیسنگ پہلے ہی شکل اختیار کر چکی تھی، دہلی نے مغلیہ دور حکومت میں قائم پولیسنگ کے ایک منفرد اور پرانے نظام پر چلنا جاری رکھا، جسے مکمل ختم کرنا یا تبدیل کرنا کافی مشکل تھا۔ ’لہذا ریکارڈز میں تضادات یا خلاء مکمل طور پر امکانات سے ماورا نہیں‘۔

راجندر کالکل، جو میوزیم کے نوادرات کی تحقیق اور تحفظ کے انچارج تھے، انہوں نے بتایا کہ یہ ریکارڈ، جو دہلی پولیس میوزیم میں پڑے ہیں، پچھلے سال کسی وقت دریافت ہوئے تھے، اور یہ انہیں ایک دن اس وقت ملے جب وہ پرانے آرکائیوز کو کھنگال رہے تھے۔

کالکل کہتے ہیں کہ وہ بھی جرائم کی معصوم نوعیت سے متاثر ہوئے، ایک ایسا وقت جب سگار، پاجامہ اور سنترے جیسی چیزیں چوری کرنا بدترین تصور کیا جاتا تھا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس والوں کو نسبتاً ہلکے جرائم کی اطلاع دی جا رہی تھی تو اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ بہت سارے گھناؤنے جرائم نہیں ہو رہے تھے ۔

کالکل کو شبہ ہے کہ قتل کا پہلا واقعہ 1861 کے اوائل میں رپورٹ ہوا ہوگا۔ جب ایک منظم پولیسنگ انگریزوں نے انڈین پولیس ایکٹ کے تحت قائم کی تھی۔

 ریکارڈز  کی اصل فائلیں ہندوستانی دارالحکومت میں دہلی پولیس میوزیم میں رکھی گئی ہیں (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)
ریکارڈز کی اصل فائلیں ہندوستانی دارالحکومت میں دہلی پولیس میوزیم میں رکھی گئی ہیں (تصویر: بی بی سی / راجندر کالکل)

انہوں نے کہا، ’قتل کے کیسز تلاش کرنا ہماری تحقیق کا مرکز نہیں تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں موجود ہیں‘۔

بہت سی شکایات میں، کیس کے نتائج کو ”ناقابلِ تعبیر“ کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ مجرم کو کبھی نہیں پکڑا گیا۔

لیکن کئی دیگر، جیسے محمد خان کے کیس میں، ایسا لگتا ہے کہ کوڑے اور چھڑیوں سے مارنے سے لے کر چند ہفتوں یا مہینوں کی جیل تک کی فوری سزا دی گئیں۔

ایسا ہی ایک جرم شہر کے سب سے خوبصورت گرینڈ ڈیم، 233 کمروں والے امپیریل ہوٹل میں 1897 میں ہوا تھا۔

ہوٹل کے ایک شیف کو سبزی منڈی پولیس اسٹیشن کو ”انگریزی میں شکایتی خط“ کے ساتھ بھیجا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ چوروں کے ایک گروہ نے ایک کمرے سے شراب کی بوتل اور سگار کا ایک پیکٹ چوری کیا۔

ہوٹل نے ملزمان کو پکڑنے پر 10 روپے انعام کا اعلان کیا۔ لیکن معاملہ سرد پڑ گیا اور کبھی حل نہ ہو سکا۔

کالکل کہتے ہیں، ’آج جرائم اتنے پیچیدہ ہو چکے ہیں کہ انہیں حل کرنے میں مہینوں اور سال لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس وقت زندگی بہت آسان تھی، آپ نے یا تو کیس کریک کیا یا نہیں۔‘

کالکل کی ٹیم تالیف کے بارے میں زیادہ خوش نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ترجمے کا ابتدائی عمل مشکل ہی سے خوش کن تھا۔

اردو شکاستہ کے اسکرپٹ کو پڑھنے کی دشواری نے انہیں متعدد مواقع پر پریشان کیا اور اس کو توڑنے کے لیے ان کی ٹیم کو شہر کے کونے کونے سے لائے گئے اردو اور فارسی اسکالرز اور مولویوں کی مہارت اور استقامت تلاش کرنی پڑی۔

وہ کہتے ہیں، ’لیکن ہم ہمیشہ جانتے تھے کہ کوشش محنت کے قابل تھی‘۔

وہ خاص طور پر ایک حوالے سے متاثر ہوئے جس میں چوری کے مقدمے کی تفتیش کے دوران اپنی ”گاڑی“ (اپنے پیارے گھوڑے کو) باہر کھڑی کرنے پر ایک پولیس افسر کی ناراضگی کو بیان کیا گیا تھا۔

Delhi Police

Old Delhi

Old FIRs

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div